غلبۂ دین کی جدوجہد سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں

358

نبی اکرمؐ نبی آخرالزاماں ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا ہے۔ اللہ تعالی نے جہاں قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، بالکل اسی طریقے سے خود نبی اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ اور آپؐ کی تعلیمات کو بھی محفوظ رہنا ہے۔ نبی اکرمؐ کے بعد اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے کہ اس مشن کو لے کر اُٹھے اور اس ہدایت کی علمبردار بنے۔ آپؐکی تعلیمات کا خود بھی پیکر بنے اور دور تک پھیلی ہوئی دنیا تک آپؐ کا پیغام پہنچائے۔ خود نبی اکرمؐ نے اس بارے میں جو اسوئہ حسنہ چھوڑاہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ قائم مقام ہیں، اُمت کی حیثیت سے آپؐ کے مشن کے علمبردار ہیں انہیں اس بارے میں بھی رہنمائی وہیں سے لینی چاہیے۔

احساسِ ذمہ داری کی شدت

واقعات میں آتا ہے کہ نبیؐ مسجد میں تشریف لائے۔ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعورؓ وہاں بیٹھے تھے، ان سے کہا کہ عبداللہ! مجھے قرآن سناؤ۔ وہ قدرے حیران ہوئے۔ عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میں قرآن سناؤں؟ یہ تو آپؐ پر نازل ہوا ہے۔ آپؐ ہی سے ہم نے سنا ہے۔ آپؐ ہی سے ہم تک پہنچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں، عبد اللہ! آج تو جی چاہتا ہے کہ کوئی پڑھے اور میں سنوں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے سورئہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پنچے ترجمہ ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘۔ (النساء4:41)، تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اندازہ ہوا کہ جیسے نبی اکرمؐ انہیں ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں، عبد اللہ بن مسعودؓ نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ آنحضورؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہے۔ نبی اکریمؐ اس گواہی، شہادت اور ذمہ داری کے احساس سے گویا دبے جارہے ہیں اور آنکھوں سے آنسوئوں کا رواں ہونا تو پورے جسم و جان کی کیفیت کی گواہی دے رہا ہے کہ اندر کیا ہلچل ہے، کیا کیفیت ہے کہ جس سے آپؐ گزر رہے ہیں۔
گویا حضورؐ اس لمحے سے پریشان ہیں جب پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اس پیغام کو پہنچایا، لوگوں کے دلوں کو گرمایا، ان کے جسم و جان کو ان راہوں پر لگایا، تم نے لوگوں کو منزل کا شعور دیا، تم نے انہیں جدوجہد کا پیکر بنایا، تم نے چاردانگ عالم میں اس نئی کشمکش کی داغ بیل ڈال کر اس کی طرف ان کو بلایا؟ یہ احساس اور احساس کی شدت آپؐ کو رُلا رہی ہے۔ یہ اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے اور آپؐ رہتی دُنیا تک اُمت کو اس حوالے سے رہنمائی دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں وہ اُن پوری بستیوں کے ذمہ دار ہیں جہاں وہ اپنے شب و روز بسر کرتے ہیں اور ملک اور قوم کے۔ کبھی اتفاقاً آدمی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ قرآن تو میں بھی پڑھتا ہوں کہ اگر پوچھ لیا جائے کہ ان بستیوں میں تم نے کیا کام کیا، کتنے دلوں پر دستک دی، کتنے دل کے دریچے کھولنے کا تم ذریعہ بنے اور کتنے دریچہ ہائے دل ایسے تھے جو تکتے رہ گئے کہ کوئی آئے اور بتائے تو سہی کہ اسلام کہتے کس کو ہیں!۔

اللہ سے مضبوط تعلق

اگر ہم نے حضور نبی کریمؐ کی قائم مقامی کرنی اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسوئہ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔ جب تک حالت قیام سے، قرآن پاک کے ساتھ شغف سے، فی الواقع ایک مستحضر علم سے اور وسعت علم کے نتیجے میں اپنے آپ کو بنایا نہ جائے، کوئی بڑا کام تو دور کی بات ہے، اس ذمہ داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے طور پر طریقوں اور رویوں میں، اپنے شب و روز کے معمولات، مشاغل و مصروفیات میں تبدیلی لانی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور فی الحقیقت اس کو نبھانے کے لیے کچھ کیا جاسکتا ہے۔ فرداً فرداً کوئی کسی کو نہیں بتا سکتا لیکن ہر شخص اپنے بارے میں جانتا ہے، اسی کے مطابق اس کو اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اس کا نام تعلق باللہ رکھ دیں یعنی ہر بندے کا اپنے ربّ کے ساتھ جو تعلق اور استواری ہے، مسلسل اس میں منہمک رہنا ضروری ہے لیکن بدرجہ اولیٰ کہ

جن کے رتبے میں سوا، ان کی سوا مشکل ہے

جو لوگ ان راہوں پر چلے اور لوگوں پر ذمہ دار قرار پائے ہیں ان کا فرض ہے کہ رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مستحکم کریں، جس کا کام کررہے ہیں اسی کے ساتھ رابطہ اگر ٹوٹا رہے گا، جس کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اسی کے ساتھ تعلق اگر ضعف کا شکار ہوگا تو سوچئے کہ کہاں سے نصرت و تائید آئے گی۔ نصرت و تائید کی بات بسا اوقات لفظوں میں سمجھ نہیں آتی۔ یہ جو انسان کی طبیعت میں انشراحِ صدر، قدموں کے اندر جمائو اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے، انسان نامساعد حالات میں صبر کی چٹان اور تحمل کا کوہِ گراں نظر آتا ہے، اسی کو نصرت کو تائید کہتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں اور اپنے راستے پر چلنے والوں کی کس کس طریقے سے مدد کرتا ہے۔ کیسے وہ ان کی آنکھیں، پیر اور کیسے وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے۔

سیرت رسولؐ سے رہنمائی

سیرت کے ہر واقعے کے اندر رہنمائی موجود ہے۔ کچھ نہیں تو آنکھوں کے لیے نمی، دلوں کے لیے گداز اور قلوب کے لیے خشیت کی کیفیت موجود ہے۔ اگر ان واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ جوڑ لیں کہ ایک واقعہ پیش آیا پھر دوسرا پیش آیا، صبح کو یہ ہوا، پھر دوپہر کو یہ اور شام کو یہ ہوا۔ پھر لوگوں نے کانٹے بچھادیے پھر وہ پتھر برسانے اور گالیاں دینے لگے پھر لوگوں نے حالت نماز میں اوجھ رکھ دی پھر لوگوں نے ہجرت پر مجبور کردیا۔ یہ تمام واقعات کسی ترتیب کے ساتھ جمع کرلیں تو جوڑتے جوڑتے لگے گا کہ واقعی یہ تو پہلے دن سے کسی منزل کا تعین کرکے کسی انقلاب کی طرف رہنمائی ہورہی ہے اور لوگوں کو ایک بڑے مقصد کی طرف بلایا جارہا ہے۔ یہ اتفاقی اور حادثاتی واقعات نہیں ہیں۔ سیرت کے تمام واقعات ایک مقصد کی طرف لے جاتے ہیں، منزل کا شعور دیتے ہیں۔

راہِ دعوت کی مشکلات

واقعہ طائف پر نظر ڈالیے۔ نبی اکریمؐ نے مصائب و شدائد کا دور مکے میں گزارا ہے۔ مکے میں جب دعوت تبلیغ اور اللہ کی طرف بلاتے ہوئے آپؐ کو ایک مدت گزر گئی، تو یہ احساس ہوا کہ بہت تھوڑے لوگ اس دعوت کو قبول کررہے ہیں اور اس کو بہت کم پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ گویا ایک تجزیہ کیا، جائزہ لیا اور پھر آپؐ نے طے کیا کہ مکہ کے لوگ تو بات قبول ہی نہیں کرپارہے ہیں، چلو طائف کا رُخ کرتے ہیں اور طبیعت اور مزاج کے اندر یہ بات رچی بسی تھی کہ کیا عجب کے طائف کے لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں اور یہ دعوت محض نظریاتی اور لفظوں کا پھیر نہ رہے بلکہ سلطنت بن جائے۔ کیا عجب کہ یہ دعوت ریاست قرار پائے، یہ دعوت مقتدر ہوجائے، اس دعوت کا سکہ رواں ہوجائے، یہ دعوت قیل وقال کے حوالوں سے بھی جانی پہچانی جائے اور احکامات و ہدایات کے نازل ہونے اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی۔ کس قدر بصیرت و بصارت ہے، کس قدر دور اندیشی اور دوربینی ہے کہ اس دعوت کو یہاں پر وہ فروغ حاصل نہیں ہورہا لیکن وہ تمکنت اور غلبہ جو اس دعوت کے اندر پنہاں ہے اور حالات کی بہتری اسی وقت ہاتھ آئے گی جب یہ دعوت غالب آجائے گی۔ اس تجزیے اور ان امیدوں، اس سوچ اور فکر کے ساتھ آپؐ نے طائف کا سفر کیا لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت خود ایک موضوع ہے، لوگوں نے اس پر بہت لکھا کہ اللہ تعالیٰ جو پوری کائنات کا فرماں روا ہے، طاقت کے ہر سرچشمے کا مالک ہے، وہ اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھتا ہے کہ ستایا جارہا ہے، اُلٹے پیروں لوٹایا جارہا ہے، جابجا پتھروں اور گالیوں کی بارش میں ایک مضبوط انسان کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ بعض لوگ خود ہی پوچھتے اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر انسانی الفاظ اور جذبات کا سہارا لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کیا گزر رہی ہوگی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندے کو ان کیفیات سے گزار رہا ہوگا، مشکلات و مصائب میں دیکھ رہا ہوگا۔ یہ اصل اسوئہ حسنہ ہے۔

حصہ