صاحبِ ؐ انقلاب

357

دنیا میں اب تک صرف ایک ہی مکمل انقلاب برپا ہوسکا ہے، جس نے حیاتِ انسانی کے تمام دائروں کو چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، خلوت ہو یا جلوت، زیر و زبر کردیا۔ یہ واحد انقلاب تھا اسلام کی نشاۃ اوّل، اور اس کے بانی تھے فخرِ انسانیت، وجہِ تخلیقِ کائنات، حبیب ِرب العالمین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؐ کا ظہور ایسے وقت میں ہوا جب پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی، ظلم کا دور دورہ تھا، ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی تھی۔ کہیں شرک اور بت پرستی کی کالی آندھی چل رہی تھی، تو کہیں بادشاہت میں جاگیردار، تجّار اور نظام سلطنت کو چلانے والے اس ظلم کے معاون تھے۔ دین کے ٹھیکیدار نصرانی اور یہودی مذہب کے نام پر کہیں بدعات کے متعفن گھونٹ پلا رہے تھے، تو کہیں مجوسی آتش پرستی کے پرچارک تھے۔ ایسے حالات میں جو اِن چیزوں سے نفرت کرتے تھے وہ کبھی اپنی جان کو بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے، تو کبھی جوگی اور راہب بن گئے۔ لیکن ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تباہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دبی ہوئی انسانیت کے علاج اور سدھار کے لیے بھیجا تھا۔ آپؐ نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے بدی کے ہلاکت خیز گردابوں سے لڑ کر ساری اولادِ آدم کے لیے نجات کا راستہ کھولا، تمدن کی کشتی کا پتوار سنبھالا اور اسے ساحلِ مراد کی طرف گامزن کردیا۔ نبیِ امیؐ کے گرد و پیش کے آثار و واقعات حالات کی رفتار کو تیز کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔ پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کے آثار بھی موجود تھے، شمال میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت نوحؑ کا علاقہ تھا۔ اس کے قریب لوط علیہ السلام کا علاقہ، پھر مدائن، صالح، پھر فلسطین اور یروشلم، جہاں بنی اسرائیل کے عروج اور زوال کے آثار موجود تھے۔ اسی طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سچائی اور نیکی کا پیغام سنایا تھا۔ جنوب میں عاد اور ثمود کی بستیاں تھیں۔ سمندر پار مصر کی سرزمین تھی جہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام نے طاعت اور عبودیت کی بے مثال تاریخ رقم کی تھی۔ دعوتِ حق کے اٹھنے سے یہ دھندلے نقوش بآسانی تازہ ہوسکتے تھے۔ اسی طرح میرے حضورؐ کو بہترین انسانی مواد مہیا کیا گیا تھا جس کی سب سے بڑی خوبی اس کا ’’خام‘‘ ہونا تھا، اب تک استعمال میں نہ آنے کی وجہ سے اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کے خزانے محفوظ پڑے ہوئے تھے۔ یہ سادہ فطرت انسان ان تکلفات و تصنعات سے پاک تھے جنہوں نے متمدن سلطنتوں روم اور ایران کے لوگوں کو گھن کی طرح چاٹ لیا تھا۔ فطرت کے مزاج شناس تھے، سخت جان اور محنتی تھے، شب و روز کی قتل و غارت نے انہیں جری اور شجاع بنادیا تھا، اور ایک عالمی تحریک کو لے کر اٹھنے کے لیے شجاعت اور بے خوفی سب سے پہلی ضرورت تھی۔ وہ لوگ بے حد سخی اور فیاض تھے۔ کنجوس اور تنگ دل نہیں تھے۔ اعلیٰ ظرفی ان کی شان تھی۔ بخیلی، تنگ ظرفی، چھچھورا پن ان کے لیے گالی تھا۔غضب کا حافظہ رکھتے تھے، جس کی ضرورت کلام الٰہی کو محفوظ رکھنے اور اس کی ترسیل کے لیے تھی۔ علم الانساب کے ماہر تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے، حتیٰ کہ اپنے جانوروں تک کا شجرہ یاد رکھتے تھے۔ اور اس چیز کی ضرورت تحفیظ و تحقیق ِکلام نبویؐ کے لیے بدرجۂ اتم تھی۔ وہ جوہرِ خودی کا تحفظ کرنا جانتے تھے، کیوں کہ غلامی کی ذلت سے ہمیشہ محفوظ رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ ان کی زبان دنیا کی بہترین اور بلیغ زبان تھی اور اس پر وہ بجا طور پر نازاں بھی تھے۔ بایں سبب وہ خود کو اہلِ زبان اور دوسروں کو گونگا بھی کہتے تھے۔ عزم کے اتنے پکے تھے کہ ان کو ایک بار راہِ راست پر ڈال دیں تو پھر کبھی ان کے قدم نہ ڈگمگائیں۔ اور پھر یہ انسانی مجموعہ ہر طرح سے ارتقا کا قدم بڑھانے کے لیے بے چین تھا۔ یہاں تک کہ مذہبی مزاج رکھنے والے ذہین اور مخلص افراد میں ہیجان اور اضطراب تک شروع ہوچکا تھا… یہی وہ بہترین موقع تھا جب انسانیت کو تاریخ کی سب سے کامیاب اور بابرکت کروٹ بدلنی تھی۔ کرۂ ارض کے اس بہترین انسانی گروہ کے سامنے بظاہر اندھیرا تھا، لیکن آئندہ منظرنامے میں زندگی سے بھرپور ایک اجالا ان کا منتظر تھا، جس کی گواہیاں ان کے وجود کے اندر موجود تھیں۔
وہ اجالا صرف اس انقلابی کلمے کا منتظر تھا کہ اس کائنات کا صرف ایک خدا ہے، وہی انسان کا معبود ہے اور انسان صرف اسی ایک ہستی کا عبد ہے، باقی تمام کائنات اس کے زیرِ نگیں ہے۔ یہی کلمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرِ انقلاب کا بیج تھا، جس کی مثال سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 24 اور 25 میں دی گئی ہے، یہ انتہائی انقلابی کلمہ تھا لا الٰہ الا اللہ۔ الٰہ کہتے ہیں معبود کو جس کی پرستش کی جائے، اسی کی غلامی کی جائے، اسی پر فدا ہوا جائے، اسی کی تقدیس کی جائے، اسی پر بھروسہ کیا جائے، اسی کی مناجات کی جائے، اسی کے آگے نذر پیش کی جائے، اسی سے ہمیشہ بھلائی کی امید رکھی جائے، اسی سے خوف کھایا جائے، اسی کے مطابق تمام نظامِ حیات تشکیل دیا جائے، اسی کے پسندیدہ لوگوں کی عزت کی جائے، احترام کیا جائے، اس کے معتوب لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے، اس کے حامیوں کی حمایت کی جائے، مخالفوں کی مخالفت کی جائے، اسی کے آگے رویا جائے، گڑگڑایا جائے، اسی کی رضا کو اپنا نصب العین قرار دیا جائے۔
اسی کلمے کے اثرات و نتائج میں انسان کی سچی آزادی پوشیدہ تھی، اور اس کلمے کا دوسرا حصہ اس بات کا اعلان تھا کہ اس کی اطاعت و جاں نثاری کا واحد طریقہ وہی ہے جو اس نے خود اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ گویا یہ حدِّ فاصل تھی جو انسان کے اختیارات و غیر اختیارات کے درمیان کھینچ دی گئی۔ اب مرحلہ تھا انسان کے اختیارات کو محدود کرنے کا، جس کے لیے وہ حتی الامکان تیار نہیں تھا، اس کو اس مقام تک لانا کہ وہ خود اپنے اختیار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہو جائے یہ کام میرے نبیؐ کا تھا جس کو اللہ نے اپنی مدد سے آسان بنادیا، اور یہ کام اُس وقت لوگوں کے لیے آسان ہوا جب ان کی نگاہ آخرت کی کامیابی پر مرکوز ہوگئی۔ سعید روحوں کو مقصدِ دین سمجھایا گیا، مقصدِ زیست سمجھایا گیا کہ وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دے کر، ضابطۂ حیات دے کر، دین ِ حق دے کر اس غرض سے بھیجا ہے کہ ہر دین کے مقابلے میں اسے پوری انسانی زندگی پر غالب کردے خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

حصہ