خاموش آنسو

676

’’دغا نہیں کسی کا سگا‘ نہ کیا ہو تو کر دیکھ‘‘
پھر وہی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ ’’اُف یہ فقیر اور اس کا یہ جملہ۔ نہ جانے یہ کیا چاہتا ہے۔‘‘ نوراں اپنے کام میں مصروف تھی کہ بوڑھے فقیر کی آواز سن کر بڑبڑانے لگی۔ یہ بوڑھا فقیر روزانہ گلی سے گزرتا اور یہی صدا لگاتا تھا۔
نوراں بہت تنگ تھی اس فقیر کے اس جملے سے۔ اسے سمجھ نہ آتا کہ اس جملے کے روز دہرائے جانے کا مقصد کیا ہے۔
’’دغا نہیں کسی کا سگا، نہ کیا ہو تو کر دیکھ۔‘‘ اب آواز دور ہوتی جارہی تھی مطلب فقیر گلی سے گزر چکا تھا لیکن نوراں دل ہی دل میں ایک فیصلہ کر چکی تھی۔
’’دغا نہیں کسی کا سگا‘ نہ کیا ہو تو کر دیکھ۔‘‘ دوسرے دن پھر آواز کانوں سے ٹکرائی۔
’’اے بابا! رکنا تو ذرا…‘‘ نوراں نے دروازے سے نکل کر فقیر کو روکا۔
’’ہاں بی بی…!‘‘ فقیر رک چکا تھا۔
’’ٹھہرنا ذرا‘ میں آتی ہوں۔‘‘ نوراں یہ کہہ کر اندر چلی گئی۔ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی جس میں دو روٹیاں تھیں۔
’’یہ لو بابا یہ روٹیاں بنائی ہیں تمہارے لیے۔‘‘
’’شکریہ بیٹا…! اللہ تمہیں خوش رکھے۔‘‘ فقیر دعائیں دیتا چلا گیا۔ اور نوراں زیر لب مسکرانے لگی‘ لیکن اس کی مسکراہٹ پراسرار تھی۔
گلیوں سے گزرتا وہی آواز لگاتا وہ فقیر ایک کھیت میں پہنچا۔ وہاں ایک درخت کے قریب پہنچا تو دیکھتا ہے دو مرد تھکے ہارے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔
’’بابا میں تھک گیا، آج ماں نے کھانا بھی نہیں دیا ہے۔ بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ دونوں مردوں میں سے ایک کہنے لگا جو غالباً دوسرے مرد کا بیٹا تھا۔
’’ہاں بیٹا! بھوک تو مجھے بھی لگی ہے ابھی کام ختم ہونے میں دیر ہے، گھر چل کر ہی روٹی کھائیں گے۔‘‘ باپ بولا۔
وہ فقیر ان دونوں کے قریب آگیا۔‘‘ لو بھائیو! یہ روٹیاں ہیں میرے پاس مجھے تو ابھی آگے جانا ہے کہیں سے اور مل جائیں گی یہ تم لوگ کھالو۔‘‘ اپنی روٹیاں اُن کے حوالے کرتا فقیر آگے بڑھ گیا۔
…٭…
’’یہ شور کیسا ہے؟‘‘ نوراں دھیرے سے بڑبڑائی، وہ گھر کے کام میں مصروف تھی کہ باہر گلی میں شور کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
پھر دروازے پہ دستک سن کر اسے دروازہ کھولنا ہی پڑا۔
باہر گلی میں شور کی وجہ معلوم ہوئی۔ سبھی لوگ جمع تھے محلے کے‘ تو شور کیوں نہ ہوتا۔ لیکن نوراں کو اصل وجہ ابھی بھی معلوم نہ تھی۔
’’باجی وہ…‘‘ احمد ، رضیہ باجی کا بیٹا آگے ہی کھڑا تھا وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ ’’ہاں بیٹا کہو… کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں؟‘‘ نوراں کو اپنے دروازے کے باہر پہلی بار اتنا رش دیکھ کر کچھ سوجھ ہی نہ رہا تھا۔
’’نوراں آنٹی وہ…‘‘ اب کہ محلے کا دوسرا بچہ گویا ہوا لیکن۔ وہ بھی رک گیا اب نوراں کو جھنجھلاہٹ ہونے لگی ابھی اسے گھر کے کام نمٹانے تھے پھر اس کا شوہر اور بیٹا آجاتے تو… کھانا تو وہ اُن کے لیے بنا چکی تھی۔
’’ارے رکو بیٹا میں بتاتی ہوں…‘‘ پاس والے گھر کی خالہ آگے بڑھیں ساتھ ہی نوراں کی نظر وہاں رکھی دو چارپائیوں پر پڑ گئی جو سفید کپڑے میں لپٹی ہوئی تھیں۔
’’یہ…؟‘‘ نوراں کے منہ سے نکلا ، اور پھر اس نے سوالیہ نظروں سے خالہ کو دیکھا۔
’’بیٹا… تم اندر چلو میں بتاتی ہوں۔‘‘ وہ نوراں کو گھر میں چل کر بات کرنے کا کہہ رہی تھیں۔
’’نہیں ! مجھے یہیں بتائو کیا تماشا ہے یہ ہٹائو یہ چارپائیاں رش کم کرو منا اور اُس کے ابا آتے ہی ہوں گے۔‘‘ نوراں تقریباً چیخ اُٹھی ( نوراں اپنے بیٹے کو منا کہا کرتی تھی، بہت پیار تھا اسے اپنے بیٹے سے اور کیوں نہ ہوتا اکلوتا تھا اور دوسرا بہت فرمانبردار بچہ اور پھر اپنے شوہر اور بیٹے کے سوا دنیا میں اُس کا تھا ہی کون۔)
محلے والے خاموش کھڑے تھے کوئی کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ خالہ اُسے زبردستی اندر لے آئیں محلے کی کچھ اور خواتین بھی ساتھ اندر ہی آ گئیں۔
مرد حضرات وہ سفید کپڑے میں لپٹی چارپائیاں اندر لانے لگے۔
’’لیکن کیوں…؟‘‘ اسے کچھ سمجھ نہ آرہا تھا لیکن پوچھ نہ سکتی تھی کہ سب اس کے اپنے محلے کے تھے اُس کے شوہر اور بیٹے کو جانتے تھے۔ تبھی تو شکلوں سے پہچان کر دو لاشوں کو اُس کے گھر لے آئے تھے۔
…٭…
’’دغا نہیں کسی کا سگا نہ کیا ہو تو کر دیکھ‘‘ فقیر کی آواز اُس کے کانوں میں گونجنے لگی، صرف ایک جملے کی وجہ سے بنا سمجھے ہی وہ اُس فقیر کو زہر ملی روٹیاں دے چکی تھی۔
اُس نے سمجھا نہیں‘ کر کے دیکھ لیا ’’دغا نہیں کسی کا سگا‘‘ آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپکے جارہے تھے۔
خواتین حیران تھیں کہ نوراں کچھ جانے بغیر ہی بنا تفصیل پوچھے خاموش آنسو کیوں بہا رہی ہے۔

حصہ