اسلامی نظام اور اُس کا نفاذ

804

قسط نمبر 2

اسی طرح مثلاً یہ جاننا کہ اللہ ایک ہے اور تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں اس لئے انسان کی حیثیت سے ایک ہیں، مذہب کے عین مطابق ہے، لیکن اس کے برعکس یہ ماننا کہ توحید کا عقیدہ انسانوں کو ایک بنانے کے لئے پیش کیا گیا ہے باطل ہے۔ دراصل ان دونوں رویوں میں بنیادی فرق حقائق کی تعبیر سے پیدا ہوتا ہے۔ حقائق کے بارے میں ایک رویہ ہے کہ وہ حقائق ہیں اس لئے قابل تسلیم ہیں۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں وہ ثانوی درجے میں آتے ہیں۔ دوسرا رویہ ہے کہ نتائج مقدم ہیں اور حقائق ان کے تابع ہیں۔ فلسلفۂ نتائج اسی دوسرےرویے کی پیداوار ہے جس کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ حقیقت کا تصور نتائج کے تابع ہے۔ کوئی تصور اس لئے اچھا ہے کہ اچھے نتائج پیدا کرتاہے، کوئی تصور اس لئے برا ہے کہ برے نتائج پیدا کرتا ہے ورنہ حقیقت کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔ حق صرف وہ ہے جو کار آمد ہے۔ ان دو رویوں کے درمیان جو باریک فرق ہے اسے وضاحت سے سمجھ لینے کے بعد یہ ممکن ہے کہ ہم ان لوگوں میں فرق کرسکیں جو احکام کو امرِ الٰہی کی حیثیت سے مانتے ہیں اور اس کی حکمتیں تبلیغی مصلحت سے بیان کرتے ہیں اور جو امر کو اپنی بیان کردہ حکمتوں کا تابع سمجھتے ہیں اس بات سے ہمارا مقصد واضح طور پر بیان کردینا ہے کہ اسلام کی ہر چیز کی طرح اسلامی نظام کا پہلا اور آخری مقصد رضائے الٰہی اور نجاتِ اخروی کا حصول ہے رہ گئے وہ فوائد جو دنیا میں اس سے حاصل ہوتے ہیں ان کی حیثیت ثانوی اور صرف نتائج کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی نظام ایمان کے تقاضوں کی ایک تکمیل ہے ورنہ اسے دنیا کے دوسرے نظاموں کی طرح صرف دنیاوی (سیاسی، معاشی، معاشرتی) مقاصد کا ذریعہ سمجھنا اسلام کی بیخ کنی کے مترادف ہے۔
ہم نے اب تک جو گفتگو کی ہے اس میں ایمان کو سب سے مقدم رکھا ہے اور جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ایمان ایک داخلی اور انفرادی چیز ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا اوّلین رشتہ فرد سے ہے۔ فرد اسلام کو اپنے اور اللہ کے درمیان ایک تعلق کی حیثیت سے جانتاہے اور یہی تعلق اسلام سے اس کے حقیقی رشتے کو مطمئن کرتا ہے لیکن اسلام فرد اور اللہ کے اس رشتے کو پوری زندگی پر پھیلاتا ہے اور اللہ کے تعلق سے فرد دوسرے افراد سے رشتوں کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ یہ رشتے پہلے اللہ کی مخلوق اور پھر آدم کی ا ولاد ہونے کے مساوات پر خاندانی، قومی، ملی اور انسانی رشتوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اسلام ان سب کے حقوق متعین کرتا ہے اور ایک کو دوسرے کی نسبت سے وابستہ کرتا ہے۔
یہی وہ بنیادی بات ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب سے الگ کرتی ہے اور جس کی غلط تفہیم کی بنیاد پر بہت سی اُلجھی ہوئی باتیں کہی جاتی ہیں۔ اسلام اللہ اور انسان کے رشتے پر اپنی بات ختم نہیں کردیتا بلکہ اللہ کے واسطے سے انسانوں کے باہمی رشتوں کو بھی متعین کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام فرد اور اجتماع کے درمیان ایک تعلق پیدا کرتا ہے اور یہ تعلق ایک ایسے توازن پر قائم ہے جس میں نہ فرد کی نفی ہوتی ہے نہ اجتماع کی بلکہ دونوں اللہ کے تعلق سے اپنی اپنی حدود میں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایمان اور عقائد کا تعلق فرد سے ہے اور عبادات، اخلاقیات اور احکام کا تعلق اجتماع سے۔ یہ توازن کچھ اس طرح ہے کہ ایمان اور عقائد یعنی انفرادی عنصر کو خارج کردیا جائے تو عبادات، اخلاقیات اور احکام یعنی اجتماعی عناصر کے کوئی معنی نہیں رہتے اور دوسری طرف اجتماعی عنصر یعنی عبادات، اخلاقیات اور احکام کو نکال دیا جائے تو انفرادی عنصر یعنی ایمان و عقائد ایک برائے نام چیز رہ جاتے ہیں۔ عام فہم الفاظ میں یوں کہئے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ایمان کے ساتھ اپنی ایک شریعت بھی رکھتا ہے اور ان مذاہب سے جامع تر ہے جن کے پاس ایمان تو ہے لیکن شریعت نہیں ہے۔ اسلامی نظام کا تعلق اسی شریعت ہے ہے بلکہ اسلامی نظام کہتے ہی اسلامی شریعت کے نظام کو ہیں۔ یہاں پہنچ کر ہم پھر وضاحت کے لئے ایک ایسی بات کی طرف لوٹتے ہیں جسے ہم دوسرے لفظوں میں بیان کرچکے ہیں۔ ہم نے کہا تھا کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک اسلامی عقائد، عبادات، اخلاقیات اور احکام کا مقصد معاشرتی اور اجتماعی ہے۔ یعنی شریعت کے مقاصد اجتماعی اور معاشرتی ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ، اسلامی حکومت اور اسلامی ریاست، سب کے قیام کا مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔
ہم نے ابھی اسلامی ریاست کا ذکر کیا ہے۔ ریاست معاشرتی تنظیم کی سب سے منظم اور ترقی یافتہ صورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جدید عہد میں ریاست کو خدا کا درجہ دیا گیا ہے اور ریاست کے مقابلے پر فرد کی حیثیت ایک دیو ہیکل مشین کے ایک بے بس پرزے سے زیادہ نہیں، لیکن اسلامی ریاست اور فرد کا رشتہ ایک بار پھر اسی توازن کا رشتہ ہے جس کا ذکر ہم فرد اور اجتماع یا معاشرے کے حوالے سے کرچکے ہیں۔ چونکہ معاشرے کی بنیاد فرد کے ایمان پر ہے اس لیے اسلامی ریاست فرد کا احترام کرنے پر مجبور ہے۔ ریاست سے فرد کی وفاداری ایمان کے حوالے سے قائم ہوتی ہے اور فرد ریاست کا صرف اسی حد تک مطیع و فرماں بردار رہتا ہے جب تک وہ اس کے ایمان سے ہم آہنگی میں ہو، بصورتِ دیگر فرد ہرگز ریاست کی اطاعات کا مکلف نہیں ہے اور اُسے حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کو جہاں کہیں بھی شریعت اسلامی سے تجاوز کرتے دیکھے اُس پر نکتہ چینی کرے اور اس کی اطاعت سے انکار کردے۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی ریاست افراد کے ایمان کے طابع ہے۔ افراد کا ایمان ریاست کے تابع نہیں ہے۔ اسلام کے بہت سے احکام افراد سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً سچ بولنا، تواضع سے کام لینا، ماں باپ کی اطاعت، ہمسائے سے محبت وغیرہ، لیکن بہت سے احکام ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً حج اور زکوٰۃ کا اہتمام و انصرام، قانونِ وراثت اور قانونِ تعزیرات کا نفاذ، جہاد کا انتظام وغیرہ، فرد اُن کو ریاست کے تعاون ہی سے ادا کرسکتا ہے اور اسلامی ریاست کا بنیادی فریضہ انہی احکام کی تکمیل ہے اسلامی شریعت کے جو احکام افراد ریاست کے بغیر ہی انجام دے سکتے ہیں۔ اسلامی ریاست ان میں بھی افراد سے تعاون کرتی ہے اور ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جس میں افراد ان احکام کی بجا آوری زیادہ آسانی اور رضا و رغبت کے ساتھ کرسکیں۔ اس طرح اسلامی ریاست کا مجموعی منصب شریعتِ اسلامیہ کی بجا آوری کا مکمل انتظام کرنا ہے۔
ہم نے اب تک جو بحث کی ہے اُس سے درجِ ذیل نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
(1) اسلام ایک کامل دین ہے جس کا مقصد رضائے الٰہی اور نجاتِ اُخروی ہے۔
(2) اسلام کی ایک شریعت ہے جو فرد اور اجتماع دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔
(3) رضائے الٰہی اور نجاتِ اُخروی کا انحصار ایمان کے تقاضوں کی تکمیل یعنی شریعت کی بجا آوری پر ہے جس میں عقائد، عبادات، اخلاقیات، احکام سب شامل ہیں۔
(4) اسلام میں فرد اور ریاست دونوں کا مقصد شریعت پر عملدرآمد ہے اور یہی دونوں کے تعلق اور تعاون کی بنیاد ہے۔
اسلامی نظام کسے کہتے ہیں اسے ہم اپنی بساط بھر ممکنہ وضاحت سے بیان کرچکے ہیں۔ ہمارے نزدیک اسلامی نظام سے مراد اسلامی شریعت ہے جس کے نفاذ کی ذمہ داری فرداً فرداً ہر مسلمان پر اور اجتماعی طور پر اسلامی ریاست پر ہے۔ اب یہاں ایک بات اور ہے جسے اسلام پر بات کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ہمیں ایک ہی بار مکمل طور پر نہیں دیا گیا بلکہ کئی تدریجی مراحل سے گزر کر مکمل ہوا ہے۔ اس کا آغاز حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی دعوت سے ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد وہ مکی اور مدنی دور سے گزرنے کے بعد فتح مکہ تک پہنچا۔ جب پہلی اسلامی ریاست وجود میں آئی اور اس کے بعد حجتہ الوداع کے موقع پر اس کی تکمیل کا اعلان کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام اپنی مکمل شکل میں تو فرد اور ریاست دونوں کے فرائض پر محیط ہے، لیکن اسلام کا کچھ حصہ ایسا بھی ہے جو ریاست سے پہلے وجود رکھتا ہے، اس لیے اساسی طور پر فرد سے تعلق رکھتا ہے۔ افراد قانونِ تعزیرات، قانونِ وراثت، نظامِ زکوٰۃ کو فرداً فرداً قائم نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کے لیے ریاست اور حکومت کا ہونا ضروری ہے، لیکن وہ اسلامی اخلاقیات، اسلامی معاشرتی آداب اور اسلامی عبادات پر عمل کرسکتے ہیں۔ اسلامی شریعت کا یہ حصہ اسلامی ریاست کے وجود کا محتاج نہیں ہے۔ مثال کے طور پر انگریزوں کی غلامی کے دور میں ہم نے اسلامی شریعت کے اسی حصے کی حفاظت کی۔
اسلامی شریعت فرد سے ریاست تک جن احکام پر مبنی ہے وہ سب مل کر ایک اسلامی معاشرہ بناتے ہیں جس میں اوپر سے نیچے تک ایک ہی روح کار فرما ہوتی ہے اور زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی جزیات تک کو متعین کرتی ہے۔ اِنہی معنوں میں ہم کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت دنیا کا مکمل ترین نظام ہے۔ یہ ہمارے سونے جاگنے، اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، کاروبار اور لین دین کرنے، خوشی اور غم منانے سے لے کر نکاح و طلاق، پیدائش اور موت اور نظامِ حکومت تک ہر چیز پر محیط ہے۔ یہی وہ اسلامی معاشرہ ہے جو اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ کے لیے وجود میں لایا جاتا ہے اور شریعتِ انفرادی اور اجتماعی تمام پہلوئوں کی تکمیل کرتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اسلامی نظام کی تعریف معنی و مفہوم کے سلسلے میں ہمیں جو کچھ کہنا تھا وہ ہم نے کہہ دیا۔ اب آئیے اس سوال کی طرف کہ عہدِ حاضر میں کوئی اسلامی ریاست کس طرح اسلامی نظام کے نفاذ کا فریضہ ادا کرے۔
اس سوال میں عہدِ حاضر کا لفظ خاص طور پر قابل توجہ ہے، کیونکہ اس لفظ سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ موجودہ زمانے میں کچھ ایسی باتیں موجود ہیں جن کے ہونے سے اسلامی نظام کے نفاذ کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہ باتیں کیا ہیں اور وہ کس طرح اسلامی نظام کے نفاذ میں حائل ہیں۔ ضروری ہے کہ اسے مکمل وضاحت کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔ ہم نے یہ سوال ذمہ داری سے اُٹھایا ہے۔ اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا تذبذب کے بغیر وہ تمام باتیں کہہ دیں جو ہمیں اس لیے کہنی چاہئیں کہ ہم ہر حال میں وضاحتِ خیال کو انتشارِ ذہنی پر ترجیح دیتے ہیں۔
عہدِ حاضر کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے آئیے ایک نظر اسلامی تاریخ پر ڈال لیں اور دیکھیں کہ اسلامی نظام کی مذکورہ تعریف کے مطابق تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی پوزیشن کیا رہی ہے۔

حصہ