کوئی ایپ ایسی بھی ہو

441

سارہ نے موبائل اٹھایا اور اپنی نند حنا کو خیر خیریت کا فون کیا۔ خیر خیریت کے بعد باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا تو اس کی نند نے پوچھا ’’اور بھابھی کیا ہورہا ہے؟‘‘
سارہ نے کہا ’’ہونا کیا ہے بس وہی گھر کے کام کاج کیے تھے کہ سوچا تمہارا حال پوچھ لوں۔ اور ویسے بھی آج ذرا فراغت ہے کہ تمہارے بھائی شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ دو سے تین دن میں آئیں گے، اور بس مجھے لگ رہا ہے کہ کرنے کے لیے کوئی کام ہی نہیں۔ شاید سارے کام تمہارے بھائی کے دَم سے ہوتے ہیں کہ آج یہ گھر پر نہیں تھے تو روٹی بھی نہیں پکائی، نہ سلاد، رائتہ بنایا اور نہ ہی دن میں تین بار چائے گھر پر بنی… ساتھ ہی مجھ پر اتنی سستی چڑھی کہ دھلے کپڑوں کو بھی تہہ نہ لگا سکی۔‘‘
حنا نے اپنی بھابھی کو اتنا اداس محسوس کیا تو کہنے لگی ’’ارے بھابھی آپ کیوں اس وقت بھائی کے فراق میں لیلیٰ بنی ہوئی ہیں… میں ہوں ناں آپ کے پاس، کیا ہوا جو سات سمندر دور ہوں۔ میں آپ کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں، آپ کی یہ سستی میں ابھی ختم کرتی ہوں۔‘‘
سارہ نے کہا ’’ارے کیا چائے پلادوگی، یا کافی میرے آگے رکھ دو گی؟‘‘
یہ سننا تھا کہ حنا کہنے لگی ’’ارے نہیں بھابھی، میں ایسا کچھ نہیں کروں گی، بلکہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ لیڈو کھیلتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر سارہ کو لگا کہ اس نے شاید کچھ غلط سنا ہے۔ پھر اس نے دوبارہ حنا سے پوچھا ’’کیا کہا تم نے؟‘‘
جب حنا نے اپنی بات دہرائی تو سارہ کہنے لگی ’’ارے تم پاگل تو نہیں ہوگئیں؟ عقل کے ناخن لو، یہ الگ الگ ملکوں میں بیٹھ کر ہم بھلا کیسے ایک ساتھ لیڈو کھیل سکتے ہیں؟‘‘
یہ سن کر حنا نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولی ’’لیڈو کنگ‘‘ ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرلیں اور میرے ساتھ کھیلیں۔‘‘
اب تو سارہ واقعی چکرا گئی اور حیرانی سے کہنے لگی ’’اچھا یہ لیڈو کی بھی ایپلی کیشن آگئی ہے!‘‘جس پر حنا نے کہا ’’جی ہاں…‘‘
اب کچھ ہی روز گزرے ہوں گے کہ سارہ کو کسی نے واٹس ایپ پر پی ڈی ایف فارمیٹ میں ایک کتاب بھیجی۔ کتاب کا عنوان دیکھا تو اسے اچھا لگا اور اس نے پڑھنا شروع کی۔ پڑھتے پڑھتے اسے کچھ سطریں بے حد اچھی لگیں۔
اب اس نے سوچا کہ کیوں ناں انھیں ہائی لائٹ کیا جائے تاکہ بعد میں وہ کتاب کھولے تو کم از کم انھیں تو پڑھ ہی لے۔ لیکن وہ کتاب ہاتھ میں تو نہ تھی کہ ہائی لائٹر لے کر نشان لگا دیتی، اور اُسے اس وقت انتہائی الجھن ہوئی کیونکہ وہ تو کتاب پڑھتے وقت اہم نکات پر نشان لگانے کی عادی تھی۔ اس نے سوچا چلو اس کتاب کو بھیجنے والی سے اس کا حل مانگتی ہوں۔
اس نے اپنی اسی دوست کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو وہ کہنے لگی ’’ایڈوب ایکروبیٹ ریڈرز ڈاؤن لوڈ کرلو۔ اس میں تمھیں اپنی یہ کتاب فارورڈ کرنی ہوگی اور پھر یہاں سے تم اپنا مطلوبہ کام کرسکتی ہو۔‘‘
اب سارہ پھر حیران تھی کہ اچھا پی ڈی ایف پر پڑھنے والی کتاب پر بھی ایک ایپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈ کرکے اہم نکات کو انڈرلائن بھی کیا جاسکتا ہے یا انھیں ہائی لائٹ کیا جاسکتا ہے۔
ابھی وہ حیرانی کی اسی کیفیت میں تھی کہ ’’ٹوں…‘‘ کی آواز پر اس نے پیغام دیکھا تو اس کی خالہ کی طرف سے آیا ہوا کارڈ تھا جس کے ذریعے وہ اپنے بیٹے کی شادی میں مدعو کررہی تھیں۔ اس شادی کارڈ کو ایک نظر دیکھ کر جہاں اسے خوشی ہوئی وہیں لمحہ بھر میں اداس بھی ہوگئی کہ وہ بھلا کیسے شادی میں شرکت کرسکے گی؟ سات سمندر پار ان شادیوں میں جانا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔
لیکن چوں کہ کارڈ واٹس ایپ پر اسے موصول ہوگیا تھا لہٰذا اس نے فوراً ہی خالہ کو فون گھما ڈالا اور مبارک باد دیتے ہوئے کہنے لگی ’’خالہ ان شادیوں کا سن کر ہم تو اداس ہی ہوجاتے ہیں کیونکہ شرکت جو نہیں کرپاتے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ خالہ نے کہا ’’ارے یہ زوم ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرلو۔ اس کا لنک اور پاس ورڈ ہم تمھیں بھیج دیں گے۔ پورے پانچ سو افراد کی گنجائش ہے اس میں، اور اس کے ذریعے شرکت کرلینا۔ اس پر وڈیو خود بھی کھول لینا اور باقی سارے تو کھول ہی لیں گے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے خالہ میں ابھی کرتی ہوں۔‘‘سارہ نے کہا۔
اب سارہ نے موبائل سائیڈ پر رکھا اور اپنی الماری کا جائزہ لینے لگی کہ آخر وہ کون سے کپڑے پہنے گی؟کیوں کہ وڈیو تو کھلی ہوگی، تو ظاہر ہے سب کپڑے دکھانے کا بھی کہیں گے۔
ابھی اس نے الماری کھولی ہی تھی کہ اس کی بیٹی کہنے لگی ’’امی آج آپ یہ تین سو قدم کہاں چل لیں اور یہ دو منزلہ عمارت کون سی چڑھی؟‘‘سارہ نے ٹیڑھی نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور پوچھا ’’پہلے یہ بتاؤ کہ تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟‘‘ اس کی بیٹی نے کندھے اچکائے اور کہنے لگی ’’ارے امی ایسے ہی۔‘‘
لیکن سارہ سوچ میں پڑ گئی کہ اسے کیسے پتا چلا کہ میں اتنا چلی ہوں! کیوں کہ جب میں گھر سے باہر گئی تھی تب تو یہ سو رہی تھی۔
اب سارہ نے دوبارہ اس سے سوال کیا اور پوچھا ’’تمہیں یہ کیسے پتا چلا کہ میں آج اتنا چلی ہوں؟‘‘
اس پر اس کی بیٹی نے کہا ’’آپ کے موبائل میں موجود health ایپلی کیشن سے۔‘‘ اب سارہ پھر حیران ہوئی کہ بھلا یہ کون سی ایپلی کیشن ہے؟ اور یہ میرے موبائل میں کہاں سے آگئی؟ اس کی بیٹی موبائل رکھتے ہوئے کہنے لگی ’’ارے امی کل ہی یہ ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کی تھی کہ آپ نے واک کرنا شروع کی تو حساب رہے کہ روز کتنا چلیں؟‘‘
سارہ نے یہ سنا اور عجیب طریقے سے ’’اچھا‘‘ کہہ کر الماری بند کرکے باورچی خانے میں گئی کہ کچھ پکا لے۔ لیکن دیکھا تو پکانے کے لیے مطلوبہ سامان نہ تھا۔ اس نے اپنے بڑے بیٹے کو کہا کہ بیٹا یہ ساری چیزیں لادو۔
تو بیٹے نے پڑے پڑے تین سے چار بڑے بڑے اسٹورز کے نام بتا دیے کہ ان کی ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کرلیں۔ ان پر اُن کے بروشر بھی موجود ہوتے ہیں۔آپ انہیں دیکھ کر کلک کر لیں اور اپنا سامان ڈلیوری سروس کے ذریعے منگوالیں۔
ابھی اس کے بیٹے نے یہ سب کہا ہی تھا کہ اس کے چھوٹے بچے بھوک سے رونے لگے کہ وہ صبح سے بھوکے تھے۔ اب ان خالی پیٹ بچوں کو روتا دیکھ کر سارہ نے لمحہ بھر کے لیے سوچا کہ کاش کوئی ایپلی کیشن ایسی بھی ہو جو بھوک کو مٹا سکے اور جسے کلک کرکے پیٹ میں کچھ جا سکے تاکہ اس دنیا کا کوئی انسان بھوکا نہ رہے۔

حصہ