گوادر کی رودادِ سفر

552

۔(12سالہ بچےکی مشاہداتی، تخلیقی تحریر)۔
جمعہ کی نماز کے بعد سے ہی دل کی کیفیت کچھ عجیب سی تھی، تیاری کی ٹینشن اور گوادر گھومنے کی خوشی، کیونکہ اگلے دن ہی ہمیں اپنا خوبصورت ترین سفر کرنا تھا یعنی گوادر کا۔ جی، وہی گوادر جس نے پاکستان اور اس کے دوستوں کا سر فخر سے بلند کیا ہوا ہے اور دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ خیر جب پتا چلا کہ میں اکیلا نہیں بلکہ یشعب (توفیق انکل کا بیٹا) اور انس (عمران انکل کا بیٹا) بھی ساتھ ہیں تو خوشی اور بڑھ گئی۔ امی کے ساتھ مل کر بیگ پیک کروایا اور ابو کے ساتھ باہر سے کچھ کھانے کی چیزیں بھی لے کرآیا۔ پیکنگ مکمل کرکے مَیں لیٹا، مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، کیونکہ ایک تو گوادر جانے کی خوشی، دوسرا امی سے دور رہنے کی پریشانی بھی خاصی تھی۔ خیر امی نے صبح جگایا کہ اٹھو، نماز پڑھو اور تیاری کرو۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر چھلانگ لگاکر بستر چھوڑا اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد تیاری شروع کردی۔ جلد ہی ناشتے کے بعد امی کو سلام کرکے رخصت ہوئے۔ قرآن انسٹی ٹیوٹ سے ہمارا سفر شروع ہوا۔ راستے سے میجر غوری انکل اور توفیق انکل کو بھی لیا۔ یشعب اور انس کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ دراصل یہ ٹرپ ائرپورٹ سوشل میڈیا ٹیم کے لیے تھا۔ سفر کا آغاز ہم نے دعاوں سے کیا۔ توفیق مما نے ہدایات دیں جبکہ میجر غوری انکل نے سارے سفر کی بریفنگ دے کر ہمارا اشتیاق اور بڑھادیا۔ ہمارا ٹرپ خاصا لمبا تھا، جس میں ہم درمیان میں کھاتے پیتے رہے اور ترانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ سفر میں شریک سارے انکل بہت مزے مزے کی باتیں کرتے رہے، ان سب کی آپس کی دوستی بہت مضبوط تھی، اسی لیے سب ہلہ گلہ بھی کرتے رہے اور ہم بچوں کا خیال بھی رکھتے رہے۔ ہمیں سب سے پہلے اورماڑہ، پھر پسنی اور پھر گوادر جانا تھا۔ گوادر تک کا کُل فاصلہ 650 کلومیٹر ہے۔ ہم نے کراچی سے اورماڑہ تک کے سفر میں پرنسز آف ہوپ (اُمید کی شہزادی) جو کہ پتھروں کو تراش کر بنائی گئی تھی، کنڈ ملیر (ایک پیارا سا ساحل سمندر)، محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی قبریں اور راستے میں تراش خراش والے پہاڑ کے علاوہ بہت سے خوبصورت مناظر دیکھے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ سڑک کے ایک جانب پہاڑ اور دوسری جانب سمندر ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ہم بچوں کو سب سے مزے کے وہ سین لگے تھے جب ہر بار چیک پوسٹ پر گاڑیوں کو روک کر ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کہاں سے ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ لیکن جب ہماری گاڑی کو روکا جاتا تو فوجی سخت لہجے میں پوچھتے تھے کہ کون ہو؟ کہاں سے ہو؟ تو میجر غوری انکل بولتے تھے ”میجر غوری، آر 42 ایم ای“۔ اور پھر سپاہی کا سخت لہجہ نرم ہوجاتا تھا اور وہ سلیوٹ مار کے کہتے تھے ”السلام علیکم سر!!!“ آخر ایک زبردست اور تھکا دینے سفر کے بعد ہم اورماڑہ زیرو پوائنٹ پہنچے اور وہاں میجر غوری انکل کے توسط سے کوسٹ گارڈ کے آفس میں رکے اور فوجیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی بریانی اور چکن کڑاہی کھائی اور سمندر سے لطف اندوز ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ غروبِ آفتاب کا حسین منظر بھی دیکھنے کو ملا۔ یہ منظر دیکھ کر گھنٹوں کی تھکن منٹوں میں غائب ہوگئی۔ پھر وہاں سے پسنی روانہ ہوئے۔ پہاڑوں کے درمیان دو گھنٹے کا دشوار ترین سفر طے کرنے کے بعد ہم پسنی پہنچے۔ وہاں تو کوسٹ گارڈ نے اتنا بڑا اڈہ بنایا ہوا تھا۔۔۔ وہاں آرمی آفیسرز کے گھر بھی بنے ہوئے تھے اور مہمانوں کے لیے الگ کئی کمروں کا گیسٹ ہائوس بھی تھا جو کہ بہت عالیشان اور ہر سہولت سے آراستہ تھا۔ ہم بچوں کو وہاں پر لگے جھولے فوراً ہی نظر آگئے۔ وہاں پاس ہی کھڑی نیوی کی ایک بڑی سی کشتی بھی اپنی پہچان آپ تھی۔ ہم رات کو دال چاول کھانے کے بعد باہر بڑے سے لش گرین باغ میں اسنوکر اور چائے سے لطف اندوز ہوئے، جس کے ساتھ ہی نیلے پانی کا ساحل تھا۔ اگلے روز صبح سویرے سب سے پہلے باجماعت نماز ادا کی اور ساتھ ہی سمندر کی ٹھاٹھیں مارتی موجوں کے ساتھ سورج طلوع ہونے کا دلکش منظر دیکھا۔ یہ منظر صرف میرے لیے نہیں بلکہ ہر کسی کے لیے مسحور کن تھا اورسب ہی کہہ اٹھے فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۔ناشتے کے بعد ہم اصل مرکز کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم گوادر 4 بجے پہنچے۔ وہاں آرمی کے ایک بڑے کوارٹر میں رکے اور پکوڑوں اور چائے سے اپنے آپ کو فریش کیا، اور یہ سب میجر غوری انکل کی ہی مہربانی تھی کہ ہمیں ہر جگہ اتنا اچھا پروٹوکول ملا۔ اس کے بعد فوراً ہی ایک ایسی جگہ کے لیے روانہ ہوئے جو دنیا میں صرف 5 جگہیں ہیں، جن میں سے دو پاکستان میں ہیں۔ ہاں بالکل آپ صحیح سمجھے، میں ہیمر ہیڈ کی بات کررہا ہوں۔ اس جگہ کو دیکھ کر ہم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ تاحد نگاہ صرف سمندر ہی سمندر تھا۔ ہم نے وہاں خوب مزے کیے اور واپسی پر گوادر میں موجود جماعت اسلامی کے دفتر کا دورہ کیا اور رات آرمی کے کوارٹر میں گزاری۔ صبح 4 بجے اٹھ کر سب گوادر میں ہی موجود کوسٹ گارڈ آفس میں گئے جو سمندر کے ساتھ بنا ہوا تھا اور فجر کی نماز ہم نے ساحل سمندر پر ادا کی۔ وہاں پر سب نے خوب انجوائے کیا اور طلوع آفتاب کا خوبصورت منظر بھی دیکھا۔ ناشتے کے بعد ہم واپسی کے لیے روانہ ہوئے، لیکن راستے میں ہمیں ایک سینڈ اسٹورم نے گھیر لیا۔ سینڈ اسٹورم اتنا شدید تھا کہ سامنے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا، اسی وجہ سے ہمارا ایک خطرناک ایکسیڈنٹ بھی ہوتے ہوتے بچا، ہم سب اس منظر سے کافی ڈر گئے اور دعاوں کا ورد کرنے لگے۔ آخر ہم اللہ کی مدد سے اس سینڈ اسٹورم سے باہر نکل گئے۔ ہم نے فریش ہونے کے لیے تھوڑی دیر اورماڑہ پر رک کر دوپہر کا کھانا کھایا اور ظہر و عصر کی نماز ادا کی اور کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ کراچی کی حدود میں داخل ہوکر مغرب اور عشا کی نماز ادا کی اور توفیق انکل نے اپنی اختتامی گفتگو بھی کی۔ پھر سب گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں بہت مزہ آیا اور اس پکنک کی خاص بات یہ کہ ہم نے ساری نمازیں باجماعت ادا کیں اور میں اس کا سارا کریڈٹ توفیق مما کو دیتا ہوں۔۔۔۔۔ اس پکنک کے بعد میری آرمی میں جانے کی خواہش دگنی ہوگئی اور دل چاہتا ہے میں بھی غوری انکل کی طرح آرمی آفیسر بنوں اور مجھے بھی سلیوٹ مارا جائے۔

حصہ