تحفظ ناموسِ رسالت

630

نائن الیون کے بعد سے مغرب نے توہینِ رسالت کو ”عادت“ بنالیا ہے۔ پہلے پوپ بینی ڈکٹ شش دہم اس میں ملوث ہوئے۔ پھر ڈنمارک کے اخبار نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کرکے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا۔ بعد ازاں یورپ کے کئی اور ملکوں کے اخبارات نے ان خاکوں کو دوبارہ شائع کرکے توہین رسالت کو ایک نظام بنادیا یا اسے Systematize کردیا، اور اب ہم فرانس میں توہین رسالت کاہولناک منظر ملاحظہ کررہے ہیں۔
پوپ بینی ڈکٹ آسیہ کے حق میں آواز بلند کرچکے ہیں۔ مغربی دنیا کے رہنما امریکہ نے آسیہ کو اپنے یہاں پناہ کی پیشکش کردی ہے۔ یہ توہینِ رسالت کی سرپرستی اور اس کی Systematization نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسری طرف مسلم دنیا ہے جو توہینِ رسالت کی ہر واردات پر سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ مسلمان سڑکوں پر آتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس طرزعمل کو مغرب ہی نہیں سیکولر مسلمان بھی ”جذباتی ردعمل“ سمجھتے ہیں۔ لیکن مسلمان شمع رسالت کے پروانے کیوں ہیں؟ اس کا اندازہ مغرب اور سیکولر مسلمانوں کو کیا، اچھے خاصے مذہبی مسلمانوںکو بھی نہیں۔ لیکن اس بات کے معنی کیا ہیں؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ہر طرف کفر اور شرک کا اندھیرا تھا۔ لاکھوں لوگ بتوںکو پوج رہے تھے۔ اہلِ کتاب اپنی مقدس کتابوں میں تحریفات کرکے حقیقی خدا کے تصور سے دور چلے گئے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو دنیا ایک بار پھر حقیقی خدا کے تصور اور حقیقت سے آگاہ ہوئی۔ دنیا میں ایک بار پھر توحید کا بول بالا ہوا۔ کفر کا کفر ہونا اور شرک کا شرک ہونا ثابت ہوا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قیامت تک کے لیے توحید اپنے حقیقی رنگ میں سامنے آگئی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حقیقی تصور سے انسانیت کو روشناس کرانے والی واحد ہستی ہیں اور آپ کی تعلیم و عمل کو نظرانداز کرکے اور آپ پر ایمان لائے بغیر عرفانِ خداوندی ممکن ہی نہیں۔ اس تناظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی تہذیب میں الٰہیاتی اصول یا Ontological Principle کا سرچشمہ ہیں۔ آپ کے بغیر اس اصول کی تفہیم ممکن نہیں۔ اس اصول کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہو تو ہندوازم کا مطالعہ کرنا چاہیے جس میں ایک خدا 33 کروڑ خداؤں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس اصول کی قدر و قیمت جاننی ہو تو عیسائیت کے تصورِ خدا کو ملاحظہ کرنا چاہیے جس میں خدا تثلیث کے اصول کے تحت باپ، بیٹے اور روح القدس میں تبدیل ہوگیا ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ یہ وضاحت مزید طویل ہوجائے آئیے آگے بڑھتے ہیں۔
ایک حدیث شریف کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نور سے اور کائنات کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے خلق کیا۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر بہت سے ہوئے ہیں لیکن یہ مقام ان میں سے کسی کو حاصل نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی تخلیق کا باعث اور اسلام کے کونیاتی اصول یا Cosmological Principle کا سرچشمہ ہیں۔
اسلام میں علم کے دو مستند سرچشمے ہیں۔ ایک قرآن مجید، دوسرا حدیث ِمبارک۔ قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور حدیث خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن چونکہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اس لیے اس میں تمام سابقہ کتابوں کی تعلیمات کا خلاصہ بھی موجود ہے، اور وہ کچھ بھی جو سابقہ الہامی کتب میں موجود نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہر زمانے کے لیے ہے۔ ان حقائق کے حوالے سے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم تمام پیغمبروں کے مجموعی علم سے زیادہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ گرامی اسلام میں علم کا سرچشمہ یا مسلمانوں کے لیے Epistemological Principle ہے۔
اسلامی روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر دنیا میں بھیجے۔ یہ سب منتخب انسان یا Chosen People تھے۔ اس لیے ان کی عظمت کے آگے ہر عظمت ہیچ ہے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف نبی نہیں، سردار الانبیاءہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ معراج کے سفر کے مرحلے پر آپ نے بیت المقدس میں واقع مسجد میں انبیاءکی نماز کی امامت فرمائی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل یا ماڈل ہے۔ اس اسوہ حسنہ میں عقائد ہیں، عبادات ہیں، اخلاقیات ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاکم تھے، منصف تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں لڑیں، امن کے لیے سمجھوتہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شوہر تھے، والد تھے، عزیز تھے، رشتے دار تھے، تاجر تھے، پڑوسی تھے، دوست تھے۔ یہی نہیں مسلمان چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، یہاں تک کہ چھینکنے اور مسکرانے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی ہی مسلمانوں کی تہذیب ہے، تاریخ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِاقدس ہی مسلمانوں کی عمرانیات ہے، نفسیات ہے۔ آپ ہی مسلمانوں کی سیاست ہیں، آپ ہی کے قول و عمل کو دیکھ کر مسلمان اپنی معیشت مرتب و منظم کرتے رہے ہیں۔ آپ ہی پر نازل ہونے والا قرآن اور آپ ہی سے صادر ہونے والی بات انصاف اور ناانصافی کا تعین کرتی ہے۔ اس سلسلے میں دو نکات اور اہم ہیں۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم اپنی آواز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ کرو، کیونکہ اس کے نتیجے میں تمہارے سارے نیک اعمال ضائع ہوسکتے ہیں۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی اسے اپنے آپ، اپنے والدین، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال سے زیادہ عزیز نہ ہوجائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین مسلمانوں کے الٰہیاتی اصول یا Ontology کی توہین ہے۔ مسلمانوں کے اصولِ علم یا Epistemology کی توہین ہے۔ مسلمانوں کی کونیات یا Cosmology کی توہین ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب کی توہین ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کی توہین ہے۔ مسلمانوں کے قانون اور تصورِ انصاف کی توہین ہے۔ غرضیکہ مسلمانوں کے پورے انفرادی اور اجتماعی وجود اور زندگی کی پوری معنویت کی توہین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توہینِ رسالت پر مسلمانوں کے جذبات انتہائی برانگیختہ ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کی مذکورہ ہمہ جہتی، ہمہ گیری اور کلیت یا Totality کو سمجھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت تعلق کی اس نوعیت کا ”شعور“ نہیں رکھتی۔ لیکن اسے اس تعلق کا ”احساس“ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کو کسی بات کا شعور نہ ہو مگر احساس ہو؟ اس سوال کا جواب ایمان کی معجزاتی نوعیت میں مضمر ہے۔ ایمان کا ایک اعجاز یہ ہے کہ وہ انسانی شخصیت پر اس کے حافظے سے قطع نظر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہؓ سے پوچھا کہ کس کا ایمان عجیب ہے؟ صحابہؓ نے فرمایا: یارسول اللہ آپ کا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا ایمان کیسے عجیب ہوا، مجھ پر تو براہِ راست وحی آتی ہے۔ صحابہؓ نے کہا: پھر ہمارا ایمان عجیب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا ایمان عجیب کیونکر ہوسکتا ہے، تمہارے سامنے تو میں موجود ہوں۔ صحابہؓ نے سوال کیا کہ پھر ایمان کس کا عجیب ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان ان لوگوں کا عجیب ہوگا جنہوں نے مجھ کو دیکھا نہیں ہوگا مگر وہ مجھ پر ایمان لائیں گے۔
ظاہر ہے یہ معجزہ ایمان کی قوت اور رسائی ہی سے ممکن ہوسکتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مسلمانوں کے ردعمل کو جذباتی سمجھنا ٹھیک نہیں۔ اس کی پشت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا گہرا احساس کام کررہا ہوتا ہے۔ اس احساس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان بھی شامل ہوتا ہے۔ اور یہ دونوں پہلو صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مغرب ان میں سے کون سی بات سمجھتا ہے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا مغرب روحانیت کے ان پہلوؤں کو سمجھ بھی سکتا ہے؟
اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا ”تقدیس“ کے تصور سے عاری ہوچکی ہے۔ مغربی یورپ کے 75 فیصد لوگ عیسائیت سمیت کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ مشرقی یورپ کے تقریباً 80 فیصد لوگوں کا حال یہی ہے۔ ان لوگوں کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام زیادہ سے زیادہ ایک ”تاریخی شخصیت“ یا محض ایک روایت یا Tradition ہیں۔ مغرب میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے معاذ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی “Mistress” بھی برآمد کرکے دکھا دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو مغرب خدا اور اپنے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تقدیس کا قائل نہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس کا خیال کیا کرے گا؟
یہاں ایک اہم علمی نکتہ سامنے آتا ہے۔ کسی معاملے کے بارے میں رائے زنی کے لیے اس معاملے کی مکمل تفہیم ضروری ہے، اور یہ حقیقت واضح ہے کہ سیکولر مغرب کے لوگوں کی عظیم اکثریت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان، عظمت، تقدیس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی شدت سے آگاہ ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر مغرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں کسی بھی تبصرے کا مجاز کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
کیا اس سلسلے میں مغرب کی ”جہالت“ ہی اس کی ”اہلیت“ ہے؟ لیکن اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔مغرب میںکچھ لوگ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے حوالے سے جہل میں مبتلا ہیں اور وہ اپنی جہالت کی وجہ سے توہینِ رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مگر مغربی دنیا جہاں سیکولر دنیا ہے وہیں عیسائی دنیا بھی ہے۔ عیسائی دنیا اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے حوالے سے لاعلمی میں مبتلا نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے بارے میں بہت زیادہ جانتی ہے، اور یہ بہت زیادہ جاننا اُسے اسلام کے حوالے سے خوف اور حسد میں مبتلا کرتا ہے۔ اسے خوف اس بات کا ہے کہ عیسائیت کا عیسائیت کے گڑھ یورپ میں کوئی مستقبل نہیں۔ حسد اس بات کا ہے کہ اسلام اپنی تمام تر قدامت کے باوجود بلکہ اسی کی وجہ سے ساری دنیا بالخصوص مغرب میں پھیل رہا ہے۔ عیسائی مغرب کا یہی خوف اور یہی حسد اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر اکساتا ہے۔
بلاشبہ مغربی دنیا خدا، مذہب اور رسالت کی تقدیس کی قائل نہیں، لیکن وہ تقدیس کے تصور سے بے نیاز نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس نے یہ تقدیس کچھ امور سے وابستہ کرلی ہے۔ ان میں سے ایک مقدس شے قومی مفاد یا نام نہاد National Interest ہے۔
اس قومی مفاد نے یورپی طاقتوں سے دو عالمی جنگیں کروائیں جن میں 8 کروڑ یا 80 ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اسی قومی مفاد نے نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان اور عراق کے خلاف جارحیت پر اکسایا۔ جان ہوپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق عراق کے خلاف امریکہ کی جارحیت اور اس کے اثرات سے پانچ سال میں چھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب کے ضمیر پر قومی مفاد کی تقدیس کے تحت ہلاک ہونے والے 80 ملین لوگوں کی ہلاکت بوجھ نہیں بنتی لیکن پاکستان میں توہینِ رسالت کے تحت ایک عیسائی عورت کو کھلی عدالت میں باضابطہ مقدمہ چلا کر سزائے موت دے دی جائے تو مغرب کو یہ سزا ہولناک نظر آنے لگتی ہے اور اس کا ضمیر چیخ اٹھتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس قومی مفاد کیا پوری کائنات سے بھی زیادہ اہم ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باعث ِتخلیق کائنات ہیں۔ کیا مغرب اپنے اس خوفناک تضاد کی کوئی توجیہہ پیش کر سکتا ہے؟تجزیہ کیا جائے تو مغربی دنیا صرف قومی مفاد کی تقدیس ہی کی قائل نہیں، وہ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر عام شہری کی توہین کے بھی خلاف ہے اور اس سلسلے میں ہر مغربی ملک میں قوانین موجود ہیں۔
لیکن مغربی دنیا عالمِ اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی کو ایک عام فرد کی سطح کی تکریم دینے پر بھی آمادہ نہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ پاکستان میں ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے قانون کی منسوخی کا مطالبہ نہ کرتی۔ اس مطالبے سے اسلام دشمنی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے بغض کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔

حصہ