اسلامی نظام اور اس کا نفاذ

1999

اسلامی نظام اور اس کے نفاذ کے بارے میں ہم اپنے خیالا ت کا متعدد بار اظہار کرچکے ہیں، ہمارے نزدیک چونکہ یہ خیالات اہم سنجیدہ اور قابل غور ہیں، اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار پھر انہیں اختصار مگر مکمل وضاحت سے ترتیب وار پیش کردیا جائے تاکہ جو لوگ اس مسئلے کو سمجھنا چاہیں یا جنہیں گہرائی میں غور کرنے کے لئے ذہنی مواد کی ضرورت ہو وہ یکجا طور پر ان کا مطالعہ کرسکیں۔ اس تمہید کے بعد آئیے سب سے پہلے اس بات پر غور کریں کہ اسلامی نظام سے ہماری مراد کیا ہے؟
نظام کا مادّہ نظم (ن، ظ، م) ہے جس کے معنی ہیں موتی پرونا، موزوں کرنا، کسی شے کو کسی چیز سے جوڑنا۔ چنانچہ نظام کے معنی لغت میں موتیوں کی لڑی کے دھاگے کے ہیں اور رواج، عبادت، ترتیب، موافقت، باقاعدہ فوج اور طرز کو بھی نظام کہتے ہیں۔ انگریزی میں نظام کے لئے سسٹم کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کوئی ایسی چیز جو مختلف اجزاء کو جوڑ کر بنائی گئی ہو یا مختلف اجزاء کا کوئی ایسا مجموعہ جسے ایک کل کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ چنانچہ نظام فکر، نظام حکومت یا سسٹم آف تھاٹ اور سسٹم آف گورنمنٹ کے الفاظ انہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔انہی میں ایک ترکیب نظام حیات بھی ہے جس سے مراد ضابطوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو۔ اس لئے اسلامی نظام سے مراد زندگی کے وہ ضابطے ہیں جو اسلام نے پیش کئے ہیں۔ اب ضابطے کے دو اجزا ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ ضابطہ سب کے لئے ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ ضابطے کو خارج سے عائد اور کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہر نظام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجتماعی اور خارجی ہو۔ اس کی مثال ایک ایسے کرتے کی ہے جو معاشرے کر ہر فرد کو پہنایا جاسکے۔ چنانچہ ہر نظام سے انفرادی اور داخلی عنصر کو خارج کردیا جاتا ہے کیونکہ نظام کی تعریف کی رُو سے وہ نظام کے تحت نہیں آتا۔ یہ ایک اہم بات ہے جس کے ذریعے ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ اسلام بحیثیت کل ایک نظام نہیں ہے۔ ہم جزوی طور پر تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا اپنا ایک نظام عبادت، یا نظام اخلاق یا نظام تعزیرات ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام بجائے خود ایک نظام ہے۔ اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد ایمان پر ہے اور ایمان کسی ضابطے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص کیفیت قلب کو ایمان کہتے ہیں۔ اس ایمان کے بغیر اگر کوئی شخص اسلام کے ضابطوں پر عمل کرے تو اس کے کوئی معنی نہیں۔ اسی طرح اگر ایک قوم اسلام کے معاشی نظام سے متاثر ہوکر اپنے معاشرے میں قانون وراثت یا نظام زکوٰۃ کو رائج کرے یا اسلامی تعزیرات کے نظام کو اپنالے اور غیب پر یقین رکھتی ہو تو اسلامی نظام کو قبول کرنا اسے مسلمان نہیں بنادےگا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام کی حقیقی بنیاد داخلی ہے اور خارجہ ضابطہ صرف اس داخلی کیفیت کا ایک اظہا رہے۔ داخلی کیفیت کے بغیر خارجی ضابطے کے کوئی معنی نہیں۔ اب ایمان چونکہ ایک داخلی چیز ہے اس لئے لازمی طور پر انفرادی ہے۔ میرا ایمان، میرا ایمان ہے اور اس ایمان کے لئے میں اپنے خدا اور ضمیر کے سامنے جواب دہ ہوں۔ اگر سای دنیا ایمان سے خالی ہوجائے تو اس کا میرے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور مجھ میں اگر ایمان نہ ہوا ور ساری دنیا ایمان لے آئے تو اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میں صرف اپنے ایمان کے لئے جواب دہ ہوں، کسی اور کے ایمان کے لئے نہیں۔ یہ بنیادی حقائق جنہیں سمجھ لینا ضروری ہے کیونکہ انہیں سمجھے بغیر اسلام کو نظام حیات کہنا خطرات سے خالی نہیں۔ یہ خطرات کیا ہیں اس کا اندازہ ایک مثال سے ہوسکے گا۔ ہمارے زمانے میں کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا ہے کہ اسلام اور دوسرے مذہب صرف مذہب ہیں۔ اُن کے نزدیک مذہب ایک غیر اجتماعی چیز ہے جسے انفرادی نجات کے لئے اختیار کیا جاتا ہے جب کہ دین ایک اجتماعی ضابطہ ہے جس کا مقصد ہیئت اجتماعیہ کو دُرست کرنا ہے۔ وہ مذہب اور دین کا فرق اس طرح بیان کرتے ہیں۔ مذہب عقائد، رسوم اور عبادات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کا مقصد انفرادی نجات ہے۔ اس کے برعکس دین میں عقائد اور عبادات کی تشریح اسی نقطۂ نظر سے کرتے ہیں۔ مثلاً عقیدۂ توحید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا عقائد کا مقصد وحدتِ انسانیت ہے یا عقیدۂ آخرت کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد جواب دہی کا احساس پیدا کرنا ہے، اسی طرح نماز کے بارے میں یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ اس کے مقاصد اجتماعی اور معاشرتی ہیں۔ اس سے تنظیم پیدا ہوتی ہے، محلے کے لوگوں سے میل جول کے مواقع ملتے ہیں، وقت کی پابندی کی عادت پڑتی ہے، روزہ صحت کو دُرست رکھتا ہے، اس سے غریبوں کی حالت کا احساس ہوتا ہے، بھوک اور تکلیف کو برداشت کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ حج بین الاقوامی تعلقات کا ذریعہ ہے اور مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرتا ہے وغیرہ۔ اس کے برعکس مذہب میں ان سب کا مقصد نجاتِ اخروی ہے۔ ہمارے نزدیک دین و مذہب کا یہ فرق جسے لوگ حقیقی اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان امتیاز کی بنیاد بنادیتے ہیں ایک سرے سے بے بنیاد ہے اور خالص عہدِ جدید کی پیدوار ہے۔ یہ تصور کیوں پیدا ہوا اور اس کے پیچھے کیا عوامل کام کررہے ہیں، ابھی ہم انہیں وضاحت سے بیان کریں گے۔ پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے دین اور مذہب کے کیا معنی ہیں۔ لغت میں دین کے ایک معنی ہیں حساب۔ یوم الدین، یومِ حساب کو کہتے ہیں اس کے دوسرے معنی یہ ہیں، ملکیت، قدرت، حکم، مذہب، ملت، حالت، عادت، سیرت، تدبیر، نافرمانی، گناہ، مجبوری، پرہیزگاری، فرماں براری، بدلہ، قہر، غلبہ اور ذلت۔ چنانچہ لغت کے اعتبار سے اس کے مفہوم میںکہیں اجتماعی ضابطہ یا نظامِ حیات کا تصور شامل نہیں ہے۔ اب اگر کہا جائے یہ اصطلاحی مفہوم ہے تو قرآن و حدیث سے کہیں اس کی سند نہیں ملتی۔ قرآنِ حکیم میں کفارِ عرب کے مذہب کو بھی دین کہا گیا ہے۔ جیسے سورۂ کافرون میں ارشاد ہوا ہے کہ ہمارے لئے ہمارا دین اور تمہارے لئے تمہارا دین۔ اسی طرح سورۂ توبہ میں دنیا کے دوسرے مذاہب کو بھی دین کہا گیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ قرآن و حدیث میں نہ سہی زبان کے استعمال میں یہ تصور موجود ہے تو یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے اور اس کی مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ اب دین کے بعد لفظِ مذہب کو دیکھئے۔ کیا اس میں کوئی ایسا مفہوم ہے جو اسے دین کا مبینہ تصور کے خلاف لے جاتا ہو۔ مذہب۔ ذہب (ذہ ب) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں جانا، گزرنا، مرجانا، قرآنِ حکیم میں آیا ہے ’’اِنّی ذاہبٌ الٰی رَبِّی‘‘ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں۔ اس لئے مذہب کے معنی ہوئے اللہ کی طرف جانے کا راستہ۔ ذہب کے ایک معنی کسی ایک مسئلے میں کوئی خاص رائے اختیار کرنے کے بھی ہیں۔ اس لئے مذہب فقہی نقطہ ہائے نظر کو بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں مذہب کے مترادف Religion ہے جو Religic سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں ملانا، جوڑنا اس لئے Religion کے معنی ہوئے وہ چیز جو خدا سے جوڑنے۔ لغت میں مذہب کے کچھ اور معنی ہیں، طریقۂ اصل اعتقاد، چنانچہ یہ مفاہیم بھی کسی طرح دین سے متصادم نہیں ہیں۔ اس بحث کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ دین اور مذہب لغوی اعتبار سے یا دینی اصطلاحی مفہوم کے لحاظ سے وہ فرق موجود نہیں ہے جو اجتماعیت پرست مفسروں نے پیدا کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے خود اپنے تصورات کے لئے یہ جدید اصطلاحات بنالی ہیں ورنہ فی الاصل ایسی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس بحث پر اتنا زور اس لئے دیا ہے کہ جو لوگ دین اور مذہب میں اساسی فرق قائم کرتے ہیں وہ اس کے ذریعے صرف اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق قائم نہیں کرتے بلکہ خود اسلام کے اندر ایک امتیاز پیدا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک روایتی اسلام کی مروجہ شکل اسلام کی ایک مسخ شدہ شکل ہے جو دین کو مذہب بنادینے سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں خہ روایتی اسلام حقیقی اسلام نہیں ہے کیونکہ اس میں دن کو جو اجتماعی ضابطہ یا نظامِ حیات تھا، انفرادی نجاتِ اخروی کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ یہ تصور جیسا کہ ہمارے دلائل سے ثابت ہے حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور جیسا کہ ہم ابھی ظاہر کریں گے اس کی بنیاد حقیقت عہدِ جدید کے چند ایسے تصورات پر ہے جو اپنی رُوح میں قطعی طور پر دین اور مذہب کی نفی کرتے ہیں۔
روایتی اسلام میں مذہب کا تصور یہ ہے۔ مذہب چار چیزوں کا مجموعہ ہے (۱)ایمان (۲)عقائد (۳)عبادات (۴) اخلاقیات اور احکام۔ اس میں ایمان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد عقائد کا درجہ ہے، یعنی دل کی تصدیق کے ساتھ توحید، رسالت اور آخرت کو ماننا۔ اس کے بعد عبادات یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ پھر اخلاقیات جس کا تعلق انسان اور انسانی رشتوں سے ہے اور سب باتو ں کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کا مقصد رضائے الٰہی یا سعادتِ اخروی کا حصول ہے لیکن عہدِ جدید کے آغاز کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے ایسے تصورات پیدا ہوتے ہیں جن میں عقائد اور عبادات کی اہمیت ثانوی ہوجاتی ہے اور مذہب کا اصل مقصد اخلاق کی درستی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مابعد الطبعیاتی حقائق کی بجائے معاشرتی حقائق پر زور دیا جانے لگتا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تصورات ہمارے یہاں مغرب کے اثر سے پھیلے جو نشاۃ الثانیہ کے بعد مذہب سے روگردانی کی کئی منزلوں سے گزر کر بالآخر مذہب سے قطعی بے گانگی تک پہنچتا ہے۔ اس کی پہلی منزل عقیدے سے انحراف تھا۔ یعنی پہلے یہ کہا گیا کہ جو عقائد عقل کی کسوٹی پر پورے نہ اترتے ہوں انہیں ماننا ضروری نہیں ہے۔ پھر اس کے فوراً بعد یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ مذہب میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جو عقل سے ماورہ ہو۔ عقلیت پرستی کی اس رو میں مذہب کے بعض بنیادی تصورا ت میں قطع و برید کی گئی۔ مثلاً ملائکہ کو انسانی قوتیں ٹھہرایا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا، شیطان کو کہا گیا کہ وہ انسانی نفس کی منفی قوت ہے۔ جنت اور دوزخ کو نفسیاتی کیفیت سے تعبیر کیا گیا۔ مذہب کے عقائد میں ترمیم و تنسیخ کے اس عمل کے بعد مذہب کے مقصد کی بحث چھڑ گئی اور اسے نجاتِ اخروی کا ذریعہ قرار دینے کے بجائے یہ کہا جانے لگا کہ اس کا مقصد انسان اور انسان کے تعلق کو بہتر بنانا ہے۔ اب عبادات کا یا تو ثانوی درجہ دیا جانے لگا یا ان کی تشریح انسانی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے کی جانے لگی۔ اِس کا لازمی نتیجہ اُس تصور کا پیدا ہونا تھا کہ اگر انسانی اور معاشرتی مقصد مذہب کے بغیر بھی حاصل کئے جاسکیں تو مذہب کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ مغرب میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر ہمارا مقصد صرف اس حقیقت کو ظاہر کرت اہے کہ مذہب کے جدید تصورات کی مرکزی روح مذہب کو اس کے مابعد الطبعیاتی حقیقت سے کاٹ کر اسے زیادہ سے زیادہ انسانی بنادینا ہے۔ مذہب کی اخلاقی، سیاسی، معاشرتی تفسیرات اسی مذہب دشمن رجحان کی مختلف شکلیں ہیں جن کو مدِ نظر رکھے بغیر بعض غلط فہمیوں کے پید اہونے کا امکان ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں رُک کر ایک بات کی وضاحت کردیں۔ قرآن حکیم کے اسلوب ہے کہ وہ احکام کو بیان کرتے ہوئے اُن کی حکمت بھی بیان کرتا ہے۔ اس لئے اسلام کے علماء راسخین فی العلم کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ حکمت احکام کو بیان کرتے ہیں اور شاہ ولی اللہ ؒ نے تو اسے باقاعدہ علم دین کا ایک جزو بنادیا ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک احکام کی حکمت بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بشرطیکہ ان کی آخری علت امریا حکم کو قرار دیا جائے اور اس پر بے چون و چرا ایمان لایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں حکمتوں کا بیان تبلیغی مصلحت کا تقاضہ ہو تو ہر طرح درست اور جائز ہے لیکن اگر احکام کو حکمت کے تابع کردیا جائے تو اس سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نماز اس لئے پڑھتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کا حکم ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ تصور بھی رکھتا ہے کہ نماز سے بہت سے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر وہ نماز صرف اس لئے پڑھتا ہے کہ اس سے معاشرتی فائدے حاصل ہوتے ہیں تو وہ ایک سرے سے نماز ہی نہیں ہے۔

حصہ