مجنوں گورکھ پوری کا انٹرویو

1633

اردو ادب میں ترقی پسند تحریک سے قبل ایک لہر رومان پسندی کی آئی تھی جس کے سب سے بڑے نمائندے مجنوں گورکھ پوری تھے۔ مغربی ادب اور مغربی افسانے کے گہرے مطالعے کی وجہ سے اس دور میں مجنوں صاحب نے جو افسانے لکھے ان میں نیا پن تھا، تکنیک بھی نئی تھی۔ افسانہ کلائمکس سے شروع ہوتا اور بہ تدریج المیہ انجام پر تمام ہوتا۔ ان کے افسانے ہندوستان کے اُن گھرانوں کی تصویرکشی کرتے تھے جہاں لڑکے لڑکیاں محبت تو کرتے تھے لیکن معاشرتی جکڑبندیوں کی وجہ سے اندر ہی اندر گُھٹ گُھٹ کر دق کے مرض میں مبتلا ہوکر خون تھوکتے دنیائے فانی سے اپنے تشنہ خواب اور ناکام محبت کی حسرت لیے چلے جاتے تھے۔ مجنوں صاحب نے گردوپیش کا یہ جو مشاہدہ کیا تو انہوں نے اپنے افسانوں میں عورت اور مرد کو سماجی جکڑبندیوں سے آزاد دکھایا۔ ان کے افسانوں کا مرکزی موضوع محبت اور محبت کے ساتھ جو دکھ‘ اذیت اور گھٹن کے جذبات و احساسات ہوتے ہیں‘ کی عکاسی رہا۔ ان کے ہاں ایک ناسٹیلجیا کی کیفیت بھی ملتی ہے اور محبت کرنے والے زخمی دلوں پہ جو قیامتیں گزرتی ہیں‘ حزن و بے بسی کی کیفیات اور انجامِ کار جو حسرت ناک موت پر قصہ عشق کا تمام ہوتا ہے۔ مجنوں صاحب کے افسانے اسی جذبے کی ابتدا و انتہا کے گرد گھومتے ہیں۔
انہوں نے دیہات کے درمیانے طبقے کی زندگی‘ ان کی طرزِ بود و باش اور رہن سہن کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے تو وہیں یوپی کے سفید پوش گھرانوں سے بھی اپنے رومانی کردار تراشے ہیں۔ مغربی ادب اور فلسفے کے مطالعے کی وجہ سے ان کے افسانوں میں بیک وقت رومان‘ نفسیات اور فلسفے کی آمیزش ملتی ہے۔ مجنوں صاحب کو محبت کے افسانے لکھنے میں ایسی مشاقی حاصل تھی کہ بہ قول سید سبط حسن ان افسانوں کو پڑھ کر دل پہ چوٹ پڑتی تھی اور جی چاہتا تھا کہ اے کاش! ہمیں بھی کسی سے عشق ہوجائے۔ ان کے افسانوں کی تاثیر کے حوالے سے یہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ افسانہ ’’سمن پوش‘‘ پڑھ کربریلی کے شفقت نامی ایک نوجوان نے خودکشی کرلی تھی۔ مغرب میں یہ ’’اعزاز‘‘ گوئٹے کے اکلوتے ناول ’’نوجوان ورتھر کا غم‘‘ کو حاصل ہے، جسے پڑھ کر خودکشی کے ایسے ہی کئی واقعات یورپ میں رونما ہوئے تھے۔
مجنوں گورکھ پوری کی بہ حیثیت نقاد بھی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ انہوں نے ادب کو زندگی سے ہم آہنگ کرنے‘ زندگی کی عکاسی کرنے اور اسے سماجی شعور و آگہی کا ذریعہ بنانے کے لیے نہایت قابلِ قدر مضامین لکھے۔ ان کی تنقیدی کتاب ’’ادب اور زندگی‘‘ نے بلاشبہ اردو تنقید کو فکر کی ایک نئی راہ دکھائی۔ 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کی اردو ادب میں داغ بیل پڑی تو مجنوں صاحب کا اس میں بھی بڑا حصہ تھا۔ علی سردار جعفری اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحریک کے ابتدائی زمانے میں مجنوں گورکھ پوری نے اپنے تنقیدی مضامین سے تحریک کے اغراض و مقاصد کو پھیلانے میں بڑا کام کیا اور نئے اصولِ تنقید بنانے میں بڑی مدد کی۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اور نقاد بھی زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے اس لیے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے۔‘‘
ترقی پسند تحریک نے جو نیا ادب پیدا کیا اُس پر قدامت پسند حلقوں کی جانب سے اعتراضات و تنقید کی بوچھاڑ ہوئی۔ مجنوں صاحب نے اس تنازع کو اپنے تجزیاتی مضمون میں نوجوان نسل اور بوڑھی نسل کا جھگڑا لکھا۔ ان کا کہنا تھا:۔
’’دراصل جھگڑا ایک ہے اور وہ دو نسلوں کا یعنی بڈھوں اور جوانوں کا جھگڑا ہے، اور مجھے اس میں زیادتی بڈھوں کی معلوم ہوتی ہے۔ بڈھوں کو نوجوانوں سے زیادہ سے زیادہ شکایت ہوسکتی ہے کہ وہ خودسر ہیں‘ بے پیرے ہیں‘ بڈھوں کا کہنا نہیں مانتے۔ جوانی تو خیر بہ قول انہی بڑے بوڑھوں کے دیوانی ہوتی ہے، اور دیوانے کو یوں بھی کچھ نہیں کہا کرتے، لیکن مجھے سب سے زیادہ حیرت ان ہوش مند اور فرزانہ بڈھوں پر ہوتی ہے جو جوانوں کو بھی خوامخواہ شکنجے میں کس کر وہیں رکھنا چاہتے ہیں جہاں وہ خود ہیں۔‘‘
آگے چل کر انہوں نے لکھا:۔
’’انسانی تمدن اور اس کے تمام شعبوں کا پہلا بنیادی پتھر اقتصادیات ہے۔ ہماری پہلی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کی کثیر سے کثیر انسانی آبادی کو پیٹ بھر کر کھانا ملنے لگے۔ کوئی ننگا نہ رہے‘ کوئی اَن پڑھ نہ رہے۔ سب کو یکساں فراغت اور مادی سکون میسر ہو، اور سب کو زندگی اور تہذیب کے یکساں مواقع ملیں۔‘‘
علی سردار جعفری مجنوں صاحب کے نظریات کے بعض حصوں سے بے اطمینانی کے اظہار کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ:۔
’’مجنوں نے اپنی تحریروں سے ترقی پسند ادب کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ادب کو پرکھنے کے لیے تنقید کی ایک نئی کسوٹی بنانے میں مدد دی۔‘‘
مجنوں صاحب ادب کے افادی قدر کے قائل ہونے کے ساتھ جمالیاتی اقدار ہی کو ادب کو ادب بنانے کی بنیادی ضرورت سمجھتے ہیں۔ انہوں نے شاعری بھی کی ہے۔ مغربی ادبیات سے ترجمے اور نایاب و اہم کتابوں کی تالیف کا کام بھی کیا ہے۔
یہ دسمبر 1982ء کی صبح کا ذکر ہے جب میں ان کا انٹرویو کرنے نارتھ ناظم آباد ان کے مکان پر حاضر ہوا تھا۔ دھان پان سے پست قامت مجنوں صاحب بہت ضعیف و لاغر سے ہوگئے تھے۔ ویسے تو پیدا ہوئے تو بہ قول خود ان کے ’’جسمانی ساخت خطرناک حد تک نازک اور کمزور‘‘ تھی۔ لیکن جیسا کہ ایمرسن کے دریافت کردہ قانونِ تلافی (Law of Compensation) کے تحت قدرت نے خود انہی کے بیان کے مطابق ایسی صلاحیتیں عطا کردی تھیں جو کئی پشتوں تک نہ پائی گئیں۔ انہیں ناقدری ٔ زمانہ کا سخت گلہ تھا۔ انٹرویو دینے پر بھی مشکل ہی سے آمادہ ہوئے، حالانکہ دو‘ ایک سال قبل ہی ’’جشنِ مجنوں‘‘ نہایت دھوم دھام سے منایا جا چکا تھا اور ان کی ادبی و علمی خدمات کے اعتراف میں دو جلدوں میں ’’ارمغان مجنوں‘‘ بھی شائع کی گئی تھی۔ یہ انٹرویو دو نشستوں میں مکمل ہوا۔
مجنوں گورکھ پوری نے‘ جن کا اصل نام احمد صدیق تھا‘ گورکھ پور میں 10 مئی 1904ء کو آنکھ کھولی۔ جدّت و انفرادیت کی تلاش میں تخلص مجنوںؔ رکھا۔ بعد میں یہ جان کر سخت کوفت ہوئی کہ اس تخلص کے دو شاعر تاریخ ادب میں پہلے ہی گزر چکے ہیں۔ والد محمد فاروق دیوانہ نے ان کا داخلہ تعلیم کے لیے سینٹ اینڈریوز اسکول میں کرایا۔ 1921ء میں میٹرک کیا‘ 1927ء میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے انگریزی، اور ایک سال بعد کلکتہ یونی ورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1936ء میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ 14 اکتوبر 1926ء کو رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ مئی 1968ء میں پاکستان چلے آئے۔ کراچی یونی ورسٹی میں بہ حیثیت اعزازی پروفیسر تعینات ہوئے۔ اولادوں میں دو بیٹے ظفر عالم اور بدر عالم، اور ایک بیٹی تہمینہ ہے۔ مجنوں گورکھ پوری آخری عمر خلوت اور گم نامی میں گزارنے کے بعد 4 جون 1988ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔
تصانیف
افسانوی مجموعے
-1 خواب و خیال (1932ء)‘ -2 سمن پوش، -3 نقش ناہید، -4 مجنوں کے افسانے، -5سوگوار شباب، -6 گردش، -7 صید زبوں، -8سرنوشت، -9 سراب، -10 زیدی کا حشر
تنقید
-1 تاریخ جمالیات، -2افسانہ، -3 ادب اور زندگی، -4 اقبال، -5 تنقیدی حاشیے، -6 نقوش و افکار، -7 نکاتِ مجنوں، -8 پردیسی کے خطوط (1) ‘ -9 پردیسی کے خطوط (2)‘ -10 غالب شخص اور شاعر
شاعری
-1 شعر و غزل‘ -2دوش و فردا‘ -3 غزل سرا۔
تراجم
-1 سلومی از آسکر وائلڈ‘ -2 آغازِ ہستی از برنارڈ شا‘ -3 ابوالخمس از ٹالسٹائی‘ -4 قابیل از بائرن‘ -5 مریم مجدلانی از مارس مانیزلنگ‘ -6 کنگ لیئر از شیکسپئر‘ -7 شمعون مبارز از ملٹن۔
تالیف
-1 زہرِ عشق از نواب مرزا شوق‘ -2 حسنِ فطرت از عبرت گورکھ پوری‘ -3 سنگھاسن بتیسی

طاہر مسعود: عمر کی اس منزل پر کبھی آپ مڑ کر ماضی کو دیکھتے اور اپنے ادبی و تخلیقی کارناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
مجنوں گورکھ پوری: اپنے آپ کو مطمئن پاتا ہوں۔ دنیا کے سارے کام نمٹا چکا‘ جتنی سکت تھی اتنا کیا۔ کبھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی ہے نہ عوام کی اور نہ سرکار کی۔ اب میرے پاس کیا ہے؟ ماضی کی یاد۔ بس اسی کو دہراتا ہوں۔ ایسا نہ کیا جائے تو یاد کے کوئی معنی نہیں رہتے۔
طاہر مسعود: آپ نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں لکھا تھا کہ گزشتہ بیس سال سے دنیا اور بالخصوص ہمارے ملک میں ادیب کم اور ادب کے خوردہ فروش یا بساطی زیادہ پیدا ہورہے ہیں۔ آپ کو یہ بات لکھے ہوئے بھی پندرہ بیس برس ہوچکے ہیں‘ کیا اس عرصے میں صورت حال میں کچھ تبدیلی آئی، یعنی واقعتاً ادیب پیدا ہوئے یا نہیں؟
مجنوں گورکھ پوری: جی نہیں‘ اس کے برعکس خوردہ فروشوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، اور بھئی بات یہ ہے کہ دنیا میں شعر و ادب لکھنے سے کہیں اہم کام ہیں۔
طاہر مسعود: مثلاً؟
مجنوں گورکھ پوری: مثلاً گھاس چھیلنا‘ یہ نہ سمجھیے کہ یہ کہہ کر ادب کی تحقیر کررہا ہوں، لیکن فرض کیجیے اگر گھسیارا غلط گھاس چھیل دے تو لان کی رونق ختم ہوجائے گی۔ ہر کام اپنی جگہ پر ایک نجی تقدس لیے ہوتا ہے۔ کام ایک پاک چیز ہے۔ وہ چیزوں کی ناپاکیاں دور کرتا ہے، جو کام ایسا نہیں کرتا وہ فضول اور بے کار ہے۔
طاہر مسعود: تو آپ کی رائے میں گزشتہ بیس سال میں نہ کوئی اچھا ادب پیدا ہوا اور نہ ہی ادیب؟
مجنوں گورکھ پوری: صرف بیس سال کیوں؟ چالیس سال کہیے۔ بات یہ ہے کہ زندگی جتنی زیادہ پے چیدہ ہوتی گئی ہے ادب‘ فن کاری یا مصوری کے لیے فرصت گھٹ گئی ہے۔ یعنی اب اس کے نک سک کو درست کرنے کی فرصت نہیں‘ اب اشتہار بازی کا دور ہے۔
طاہر مسعود: جی ہاں! آپ نے ایک جگہ زندگی میں آنے والی عجلت اور سنسنی خیزی کو انڈسٹریلائزیشن کا لازمی نتیجہ بتایا ہے۔
مجنوں گورکھ پوری: صرف عجلت ہی نہیں ہے‘ انڈسٹریلائزیشن کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مشین انسان سے زیادہ اہم ہوگئی ہے، حالانکہ مشین انسان کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن ایسا دھوکے میں ہوگیا۔
طاہر مسعود: آپ نے ادب کی تقریباً تمام اہم اصناف پر طبع آزمائی کی‘ یعنی شاعری کی‘ افسانے لکھے اور پھر تنقید کی طرف رجوع کیا۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کس صنف کے ذریعے آپ کی شخصیت کا بھرپور اظہار ہوا، اور جس میں آپ کو روحانی مسرت بھی حاصل ہوئی؟
مجنوں گورکھ پوری: (ناراض ہوکر) یہ سوال ہی غلط ہے۔ زندگی کا پہلا اظہار ردھم اور رقص کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ پہلا آرٹ رقص ہے۔ ردھم زندگی کی علامت اور ضامن بھی ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے الٹا لٹکا کر مارتے ہیں تاکہ پھیپھڑا حرکت میں آجائے۔ شخصیت کا بھرپور اظہار ہر فارم میں ہوتا ہے، اور صرف شخصیت کا اظہار ایک مریضانہ فعل ہے۔ زندگی ایک کُل ہے لیکن جب شخصیت کو خارج سے واسطہ پڑتا ہے تو بہت سے میلانات کو دبانا پڑتا ہے۔ کسی زمانے میں‘ میں صرف افسانہ نگار مشہور تھا‘ پھر صرف شاعر کی حیثیت سے شہرت ہوئی۔ زندگی بہت پے چیدہ اور الجھی ہوئی ہے۔ دو پابند مصرعوں میں زندگی کے حقائق کا اظہار ناممکن ہے۔
طاہر مسعود: آپ کا شمار ترقی پسند تحریک کے سالاروں میں ہوتا ہے لہٰذا…
مجنوں گورکھ پوری: (تیزی سے) لوگوں نے مجھے سالاروں میں شامل کیا‘ میں بن گیا۔ جب ترقی پسند تحریک کا خواب بھی کسی نے نہیں دیکھا تھا‘ تب میرا پیغام ترقی تھا۔
طاہر مسعود: جناب! میں یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آپ کے خیال میں ترقی پسند تحریک کے زوال کے کیا اسباب ہیں؟
مجنوں گورکھ پوری: اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم صرف یہ دیکھتے تھے کہ روس اور چین میں کیا نعرہ چلتا ہے۔ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے نعرے ہمارے جغرافیائی حالات سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔ ان کی روایات مختلف تھیں اور بغیر کسی فکر کے انہیں قبول کر لینا ظاہر ہے تحریک پر زوال نہیں لائے گا تو کیا لائے گا!
طاہر مسعود: لیکن ترقی پسند تحریک کے بعض نام لیوا جیسے علی سردار جعفری وغیرہ اب تک اس حقیقت کو ماننے سے منکر ہیں کہ ترقی پسند تحریک پر زوال آچکا ہے۔
مجنوں گورکھ پوری: وہ ٹھیک بھی کہتے ہیں۔ ان کے اندر چور کے طور پر جو مقصد چھپا ہوا ہے، ممکن ہے اس پر زوال نہ آیا ہو (رک کر) ایک تو میں ’’ترقی پسند‘‘ کے لفظ کا مخالف ہوں۔ اس میں پسند اور ناپسند کا کیا سوال ہے۔ زندگی تو ازخود ترقی کرے گی۔ آپ اس کا گلا گھونٹیں گے تو وہ آپ کا گلا گھونٹ دے گی۔ میں نے ترقی پسند کے بجائے ’’پیش قدم‘‘ کا لفظ تجویز کیا تھا مگر اسے قبول نہیں کیا گیا۔
طاہر مسعود: مجنوں صاحب! آپ ترقی پسند تحریک کے زوال کی تصدیق کرتے ہیں؟
مجنوں گورکھ پوری: زوال ان معنوں میں کہ تحریک میں ٹھہرائو آگیا ہے۔ اب ذرا آپ جا کر علی سردار جعفری‘ اختر حسین رائے پوری اور سبط حسن سے پوچھیے کہ ان کے پاس کیا پروگرام ہے؟ ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں تحریک کو زوال سے ہم کنار تو ہونا ہی ہے۔
طاہر مسعود: آپ اس زوال کا کیا تجزیہ کرتے ہیں۔ ایک ایسی تحریک جس نے برصغیر میں زبردست عروج حاصل کیا، وہ بالآخر ختم کیوں ہوگئی؟
مجنوں گورکھ پوری: اس کی ایک بنیادی وجہ تو پاکستان کا بننا ہے۔ پھر دوسری وجہ یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کو کمیونزم کی تحریک تصور کرلیا گیا، اور یہ درست ہے کہ ترقی پسند تحریک نے کمیونزم کو قبول کیا تھا لیکن صرف اس حد تک جہاں تک وہ ہمارے کلچر سے ہم آہنگ تھی اور ہمارے کلچر کو آگے بڑھاتی تھی، پھر پاکستان بننے کے بعد اس پر پابندی عائد کردی گئی۔
طاہر مسعود: محض پابندی سے تو کوئی تحریک زوال آمادہ نہیں ہوتی، کیوں کہ ’’انگارے‘‘ کی ضبطی کے باوجود ترقی پسندانہ رجحان کو فروغ ملا تھا۔
مجنوں گورکھ پوری: اصل میں پاکستان بننے کے بعد ترقی پسند حضرات کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ صرف فکر کی قوت سے کام نہیں چلتا۔
طاہر مسعود: اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترقی پسندوں نے اپنے نظریات کے لیے قربانی دینے سے گریز کیا؟
مجنوں گورکھ پوری: جی ہاں! ان میں سے کسی نے کوئی قربانی نہیں دی۔ اگر انہوں نے کچھ کیا تو صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، حالانکہ آپ کو اپنے نظریے پر یقین ہے تو قربانی ضرور دینی چاہیے، اور اگر آپ کا نظریہ محض عیاشی ہے تو پھر کام نہیں چلے گا۔ ایسا نہ ہوتا تو دنیا شہیدوں سے خالی ہوتی۔ حضرت عیسیٰؑ صلیب پر چڑھ گئے۔ وہ صرف جان دینے کے لیے صلیب پر نہیں چڑھے بلکہ انسانیت کی نجات کی خاطر۔
طاہر مسعود: آپ کے نزدیک اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا کیا حصہ (Contribution) ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: اس تحریک نے ہمیں چونکا دیا اور بتایا کہ جہاں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں اس سے آگے بڑھنا چاہیے۔
طاہر مسعود: اور اس کے منفی اثرات؟
مجنوں گورکھ پوری: منفی کا تو وجود ہی نہیں، لہٰذا منفی اثرات کیا ہوں گے؟ ہاں نقصان دہ اثرات کہیے۔
طاہر مسعود: جی ہاں نقصان دہ اثرات کے بارے میں فرمایئے؟
مجنوں گورکھ پوری: نقصان دہ اثرات یہ ہیں کہ ترقی پسند تحریک ختم ہوگئی‘ اب اس کے پاس کوئی نیا پروگرام نہیں ہے، کیوں کہ ان ملکوںکے پاس کوئی نیا پروگرام نہیں ہے جن سے انہوں نے کمیونزم لی تھی۔ کمیونزم کا تقاضا یہ تھا کہ اپنے خیالات کی تبلیغ کرکے تسخیر حاصل کرلو، لیکن روس جارحیت اور غاصبانہ قبضے کے ذریعے کمیونزم پھیلا رہا ہے۔ البتہ چین نے ایسے ہتھکنڈے اختیار نہیں کیے۔ نئے خیالات روس کے پاس بھی نہیں ہیں۔
طاہر مسعود: آپ کی میرا جی اور ن۔م۔ راشد کے بارے میں کیا رائے ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: ان لوگوں کی شاعری میں سوائے سیکس کے اور کچھ نہیں ہے۔ میرا جی مالا پہنے جوگی بنے رہے اور آخر میں پاگل ہوگئے۔ ن۔م۔ راشد کو اپنے ملک کی ہر چیز بری معلوم ہوئی تو ایران چل دیے اور کہہ دیا ’’مرنے کے بعد میری لاش کو جلا دو۔‘‘ (بیزاری سے) جب مر ہی گئے تو پھر جلا دو یا اٹھا کر پھینک دو۔
طاہر مسعود: لیکن ان لوگوں نے اردو ادب کو ایک نئے فارم اور نئے رجحان سے تو روشناس کرایا ناں؟
مجنوں گورکھ پوری: ہر دور میں ادب کا کچھ نہ کچھ Contribution ہوتا ہی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس میں کتنا مواد زندہ رہ جائے گا۔ ن۔م۔ راشد اور میرا جی مخصوص حالات کی پیداوار تھے… لیکن (غصے سے) ایرا جی‘ میرا جی کچھ نہ کرسکے‘ آگے چل کر ضیا جالندھری وغیرہ نے بھی کوشش کی لیکن بات بنی نہیں۔
طاہر مسعود: آپ فراق گورکھ پوری کے عزیز ترین دوست تھے۔ ان کے بارے میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ وہ اپنی تعریف و تحسین اور پبلسٹی کے اتنے شوقین تھے کہ اپنی شاعری پر مختلف ناموں سے توصیفی مضامین لکھ لکھ کر چھپواتے رہتے تھے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: فراق نے دوسروں کے نام سے خود اپنی تعریف میں کبھی کوئی مضمون نہیں لکھا‘ البتہ دوسرے لوگ لکھ کر ان کے پاس لاتے تھے‘ وہ اس کی اصلاح کردیا کرتے تھے۔ فراق بڑے آدمی تھے، انہیں اس کی ضرورت نہ تھی۔ وہ خاندانی آدمی تھے۔ اردو‘ ہندی اور فارسی کے عالم اور سات پشتوں میں زمین داری تھی‘ میرے اور ان کے درمیان مشترک بات یہ تھی کہ ہم بھیک منگے نہیں تھے۔ اپنی تحریر و تقریر سے نہ مجھے کوئی فائدہ پہنچا نہ ہی انہیں‘ بلکہ نقصان ہی پہنچا۔ ایسی باتیں دراصل اس لیے پھیلائی جاتی ہیں کہ ایسی باتیں کرنے والوں کو اور کوئی کام نہیں آتا! جسے دیکھو مفکر اور ادیب بنا بیٹھا ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ ادب و شاعری ہمارا میدان نہیں ہے۔
طاہر مسعود: محمد حسن عسکری مرحوم کی تنقید نگاری سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: وہ مغربی تنقید سے بھرپور طریقے سے واقف تھے۔ گو ہم اور فراق ساتھی رہے ہیں ادبی اور خاندانی دونوں اعتبار سے، لیکن وہ فراق پر اس طرح لکھتے ہیں جیسے فراق کے سوا دنیا میں کوئی شاعر ہی نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ فراق کے شاگرد تھے، لیکن بغیر بے احترامی کیے دو اور دو چار کی طرح اپنی بات اس طرح تو کرسکتے تھے کہ فراق کو بری بھی نہ لگتی۔
طاہر مسعود: کیا آپ یہ سمجھتے ہیںکہ انہوں نے فراق صاحب کی کچھ زیادہ ہی تعریف کردی ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: فراق کی تعریف کی‘ ٹھیک کی‘ لیکن ان کی تنقید میں پیر و مرید کا سا انداز آگیا ہے، اور ایسے نقاد جو انگریزی کے زیر اثر ہوتے ہیں‘ ان سے یہی خطرہ ہوتا ہے۔ کلیم الدین کلیم کے ساتھ بھی یہی ہوا، لیکن وہ سر پھرے آدمی ہیں‘ شاعری کرنے لگے۔
طاہر مسعود: چند نقادوں نے شدومد سے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اردو میں تنقید لکھی ہی نہیں گئی۔ بعض اس خیال کا اظہار ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کو اردو تنقید کی سب سے بڑی کتاب قرار دے کر کرتے ہیں جس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اردو تنقید ابھی تک وہیں کھڑی ہے جہاں اسے حالیؔ نے چھوڑا تھا۔ ایسی آرا پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: اردو میں تنقید فرانس اور برطانیہ سے زیادہ لکھی گئی ہے‘ وہ اس اعتبار سے کہ ان ممالک میں اور ان کی زبانوں میں تنقید بہت دیر میں Develop ہوئی۔ اصل میں اس قسم کی باتیں ’’غیر ملک زدہ لوگ‘‘ کرتے ہیں۔ اگر مغرب سے ہم نے کچھ لیا ہے تو اسے دیا بھی بہت کچھ ہے۔ محی الدین ابن عربی اور ابن رشد نہ ہوتے تو آج مغرب‘ مغرب نہ ہوتا۔ رہا سوال حالی کی ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کا، تو میاں! مغرب سے نہ حالی واقف تھے اور نہ شبلی۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ ’’مغرب زدہ‘‘ نہ تھے۔ اپنی کتاب میں مغربی خیالات کو دہراتے تو ساتھ ہی ساتھ ابن رشیق کا حوالہ دیتے ہوئے چلتے تھے۔
طاہر مسعود: مجنوں صاحب! چند برسوں سے نثری نظم کے شاعری ہونے یا نہ ہونے کا تنازع موضوعِ بحث بنا ہوا ہے‘ آپ کی کیا رائے ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: شاعری کے معنی اگر خیالات کو نظم کرنے کے ہیں تو نثری نظم‘ نظم نہیں ہے۔
طاہر مسعود: کچھ اردو کے ناولوں پر اظہار خیال فرمائیں۔
مجنوں گورکھ پوری: ’’امرائو جان ادا‘‘ اردو کا عظیم ترین ناول ہے۔
طاہر مسعود: جدید ناولوں میں آپ کس ناول کو اہم تصور کرتے ہیں؟
مجنوں گورکھ پوری: جدید ناولوں میں ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’اداس نسلیں‘‘ اہم ناول ہیں۔ ’’اداس نسلیں‘‘ کی خامی یہ ہے کہ اس کے ہر تیسرے صفحے پر تین گالیاں ایسی ہیں جو شرفا پسند نہیں کرتے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ میں قرۃ العین حیدر شعور کی رو کو لے کر چلی ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوئیں۔
طاہر مسعود: لیکن قرۃ العین حیدر نے اس امر سے انکار کیا ہے کہ انہوں نے ’’آگ کا دریا‘‘ شعور کی رو کی تکنیک میں لکھا ہے۔
مجنوں گورکھ پوری: وہ انکار نہیں کریں گی تو اور کیا کریں گی! ویسے وہ ذہین لڑکی تھی۔ بڑے باپ کی بڑی بیٹی۔ اس کی ماں بھی بڑی عورت تھی۔ دونوں افسانہ نگار تھے۔ قرۃ العین نے پڑھا بہت اور گھومی بھی بہت۔
طاہر مسعود: ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’اداس نسلیں‘‘ میں فنی اعتبار سے بڑا ناول کون سا ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: ’’آگ کا دریا‘‘ کے اثرات زیادہ دیر تک رہے لیکن ’’اداس نسلیں‘‘ کے اثرات محسوس نہیں کیے گئے۔ وہ پلاٹ‘ آئیڈیا لوجی یا نظامِ فکر کا ناول نہیں ہے۔ اس کی بس اتنی تعریف کی جاسکتی ہے کہ وہ بات کا بتنگڑ کرنا جانتا ہے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ میں مجموعی طور پر ’’وقت‘‘ کا صحیح احساس نہیں ہے‘ اس پر جیمز جوائس اور ورجینیا وولف کے اثرات ہیں اور خود وہ سدھارتھ کی زندگی سے متاثر ہے۔
طاہر مسعود: ادیبوں اور شاعروں کا ایک بڑا مسئلہ فکرِ معاش کا ہے۔ آپ اس مسئلے کا کیا حل تجویز کرتے ہیں؟
مجنوں گورکھ پوری: اسے فکر معاش نہ کہیے۔ یہ روز کی روٹی کا مسئلہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ادیب اس میں ضرورت سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری ضرورتیں غیر ضروری طور پر بدلتی اور بڑھتی گئی ہیں۔ اب افراد صبح کو کچھ اور شام کو کچھ اور لباس پہن کر نکلنا چاہتے ہیں۔ اپنی ضروریات کے دھارے میں لوگ بہے چلے جارہے ہیں اور یہ احساس تک نہیں کہ کدھر جا رہے ہیں۔ یہ دور آرٹ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ پہلے آرٹ ایک عیاشی تھی‘ فن کار سوچتا تھا کہ ایسی تصویر بنائوں‘ ایسے بت بنائوں‘ ایسے اشعار کہوں۔ اب اس کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ یہ درست ہے کہ معاش کا مسئلہ پہلے بھی تھا لیکن پہلے کے شاعر اس کا پروپیگنڈہ نہیں کرتے تھے۔ وہ شعر بناتے تھے اور اس میں مگن رہتے تھے۔
مجنوں گورکھ پوری صاحب مسلسل بولنے کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ اس لیے میں نے اجازت چاہی۔ اگلے دن دوبارہ پہنچا۔ اخبارات میں حفیظ جالندھری کے انتقال کی خبر چھپ چکی تھی۔ ابھی ان سے گفتگو کی ابتدا ہی ہوئی تھی کہ ’’قصہ نئی شاعری کا‘‘ کے مصنف احمد ہمدانی جو ریڈیو میں پروڈیوسر بھی ہیں‘ ٹیپ ریکارڈ سمیت آگئے۔ وہ حفیظ جالندھری کی شخصیت اور شاعری پر مجنوں صاحب کی رائے ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ مجنوں صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حفیظ جالندھری مرحوم کی شاعری کو خراج تحسین پیش کیا اور اس ضمن میں ایک واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک دن جب انہوں نے حفیظ مرحوم سے ان کی مشہور نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ سنانے کی فرمائش کی تو وہ کہنے لگے کہ ابھی نہیں اس وقت کچھ اور سنو‘ تمہاری فرمائش میں رات کے وقت پوری کروں گا، اور جب رات ہوئی تو حفیظ مرحوم نے ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ سنائی۔ مجنوں صاحب نے کہا کہ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ واقعی یہ نظم ہر اعتبار سے رات کو ہی سننے میں زیادہ لطف دیتی ہے۔ احمد ہمدانی رخصت ہوئے تو ہماری گفتگو کا آغاز ہوا۔
طاہر مسعود: آپ کی ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی؟
مجنوں گورکھ پوری: میں 1932ء میں ان سے الٰہ آباد میں پہلی بار ملا تھا۔ وہاں مسلم بورڈنگ ہائوس والوں نے ایک فنکشن کیا تھا اور حفیظ کو بلایا تھا۔ تاہم ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا جس کی وجہ سے انہیں خاصی تکلیف ہوئی۔ میں نے معاملہ رفع دفع کرایا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ آئندہ الٰہ آباد نہ آئیں۔ وہ خوددار آدمی تھے، واقعتاً دوبارہ الٰہ آباد نہ آئے۔ حکیم احمد شجاع نے اپنا رسالہ ’’ہزار داستان‘‘ نکالا تو وہ اس کی ادارت میں شامل ہوگئے، لیکن بعد میں اپنی مرضی سے علیحدہ ہوگئے۔
طاہر مسعود: ان کی شاعری آپ کو کیسی محسوس ہوئی؟
مجنوں گورکھ پوری: وہ غنا کا ماہر تھا اور اس کی اصل اہمیت غنائی شاعری کی وجہ سے ہے۔ وہ سماع کے مطابق راگ بناتا تھا اور راگ سے سماع پیدا کرتا تھا۔ موسیقی کا بھی ماہر تھا۔ اس وقت تک ادب میں مقصدیت کا دور دورہ نہیں تھا۔ مقصدیت فن پارے کی تہ میں موجود ہوتی تھی۔ آگے چل کر اس نے ’’شاہ نامہ اسلام‘‘ لکھا اور اس کی شاعری میں مقصدیت در آئی۔ خدا اسے جنت نصیب کرے‘ اچھا آدمی تھا۔
طاہر مسعود: مجنوں صاحب! آپ غالباً 1968ء میں پاکستان تشریف لائے۔ بھارت سے آنے والے چند ایک بڑے شاعروں اور ادیبوں کو یہ شکوہ رہا ہے کہ ان کی پاکستان میں پذیرائی نہیں ہوئی‘ کیا آپ کو بھی اس نوعیت کا کوئی شکوہ ہے؟
مجنوں گورکھ پوری: میں اس معاملے میں بڑا خوش نصیب ہوں۔ میں اپنی مرضی سے، خوشی سے یہاں آیا، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں اکیلا رہ گیا ہوں اور بہا چلا جارہا ہوں۔ جینے میں جی نہیں لگ رہا ہے۔ تمام دل چسپیاں وہی ہیں‘ لیکن جب سب کچھ میسر ہوتا ہے‘ بال بچے‘ اچھی گھریلو زندگی تو جی کچھ اور چاہتا ہے۔ میں تو شاید اسی وقت ختم ہوگیا تھا جب گورکھ پور چھوڑ کر علی گڑھ آیا۔ علی گڑھ میں بڑی پذیرائی ہوئی لیکن گورکھ پور چھوڑنے کا قلق ہمیشہ رہے گا، کیوں کہ جب میں اسے چھوڑ رہا تھا تو میرے والد کہہ رہے تھے کہ میں بری حالت میں ہوں‘ مجھے چھوڑ کر نہ جائو۔ لیکن میں چلا آیا۔ ان کی دیکھ بھال مَیں اور میری بیوی کرتی تھی۔ یہاں آنے کے بعد انہیں روپیہ بھیجتا رہا لیکن اس سے کیا ہوتا ہے! (رک کر) اور اب میرے سارے ساتھی دوست آہستہ آہستہ مرتے جا رہے ہیں‘ مر چکے ہیں۔ جوش‘ فراق‘ حفیظ… میں اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا ہوں۔ جیسے اب میں گرا تو کوئی سنبھالنے والا نہ ہوگا۔

حصہ