بدصورت

224

شہریار بستر پر اداس اور گم صم بیٹھا تھا۔ ’’کیا ہوا شہریار بیٹے!‘‘ امی جان نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ شہریار اپنی امی کے ساتھ اپنی خالہ جان کے گھر آیا ہوا تھا۔ دن کے کھانے کے بعد اب انہیں قیلولہ کرنا تھا مگر وہ اپنی امی سے باتیں کرنے لگا:۔
’’امی جان! کیا آپ نے دیکھا صبح کھیلتے ہوئے نبیل جب غصے میں تھا تو کیسا لگ رہا تھا؟‘‘
’’کیسا؟‘‘ امی نے اس کی جانب دیکھا۔
’’بدصورت‘‘۔ اس نے جواب دیتے ہوئے سر جھکایا۔ ’’چیختے ہوئے اس کی آواز کانوں کو بہت ناگوار لگ رہی تھی۔‘‘ اس نے آہستہ آواز میں کہا۔
’’امی جان! کیا جب میں گھر میں زوار پر غصہ ہوتا ہوں، چیزیں اِدھر اُدھر پھینکتا ہوں، چیختا ہوں تو میں بھی اتنا ہی بدصورت لگتا ہوں؟‘‘
شہریار کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ ہونے کی عادت تھی۔ چھوٹے بھائی زوار پر چیخنا چلّانا تو معمول تھا۔ آج جب اپنے خالہ زاد بھائی کو چھوٹی بہن پر غصہ ہوتے دیکھا تو اس کے آئینے میں اسے اپنا چہرہ نظر آگیا۔
’’جی بیٹا! صرف تم اور نبیل ہی نہیں، ہر غصہ کرنے والا شخص بدصورت بھی دِکھتا ہے اور غصہ کرکے اپنی بزدلی کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وہ اتنا بہادر نہیں کہ کسی کو معاف کرسکے، یا کسی بھی غلط کو درست کرسکے۔ اسی لیے تو پیارے نبی خاتم النبیین حضرت محمدؐ نے فرمایا غصہ نہ کرو۔‘‘
’’پیاری امی! میں اپنے پیارے نبی ؐ کی بات مانوں گا اور آئندہ غصہ نہیں کروں گا، ان شاء اللہ‘‘۔ امی نے اسے شاباش دی اور وہ قیلولہ کرنے کے لیے لیٹ گئے۔

حصہ