مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا انٹرویو

1657

ڈاکٹر طاہر مسعود کا شمار ملک کے معروف کالم نویسوں اور انٹرویو نگاروں میں ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں روزنامہ جسارت کے ادبی صفحہ پر شائع ہونے والے ان کے انٹرویو تہلکہ خیز ثابت ہوئے تھے۔ ان کے یہ انٹرویوز ’’یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ انٹرویو اتنے اہم ہیں کہ انہیں ہر نسل کے مطالعے کا حصہ ہونا چاہیے۔ ہم ڈاکٹر طاہر مسعود کی اجازت سے سنڈے میگزین میں ان کے انٹرویوز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کررہے ہیں۔ آج کے سنڈے میگزین میں مولانا مودودی کا جو انٹرویو شائع ہورہا ہے وہ اگرچہ یہ ’’صورت گر کچھ خوابوںکے‘‘ کی دوسری جلد کا حصہ ہے مگر یہ انٹرویو طاہر مسعود نے 1978ء میں لیا تھا۔
۔(شاہنواز فاروقی۔ چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت)۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی 25 ستمبر 1903ء کو اورنگ آباد، حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد سید احمد حسن نے گھر پر ہی آپ کی عربی، فارسی اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم کا انتظام کیا۔ پھر مدرسہ فوقانیہ کی جماعت رشدیہ میں داخلہ لیا۔ پہلا مضمون 1914ء میں سیرت پاکﷺ پر لکھا۔ 1916ء میں میٹرک کے بعد دارالعلوم حیدر آباد دکن کی جماعت ’’مولوی عالم‘‘ (انٹرمیڈیٹ) میں داخلہ لیا لیکن والد کی بیماری کے سبب تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ 1918ء میں بڑے بھائی سید ابوالخیر مودودی کے ساتھ ڈیڑھ ماہ تک اخبار مدینہ بجنور میں کام کیا۔ تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ (تاج) جبل پور اور اخبار (مسلم) دہلی کی ادارت کے بعد اخبار (الجمیتہ) کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1926ء میں مولانا محمد شریف اللہ خان سواتی مدرس دارالعلوم فتح پوری دہلی سے علوم عقلیہ و ادبیہ و بلاغت اور علام اصلیہ و فرعیہ میں سند حاصل کی۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے حدیث، فقہ اور ادب میں سندِ فراغت ملی۔ مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر سے متاثر ہو کر 1930ء میں ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی۔ 1933ء میں ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کا اجرا کیا جو آج بھی جاری ہے۔ 1936ء میں علامہ اقبال نے فقہ اسلامی کی تدوین نو کے لیے پنجاب آنے کی دعوت دی۔ جس کے دو سال بعد جمال پور، پٹھان کوٹ (پنجاب) منتقل ہوگئے۔ 1939ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں اعزازی پروفیسر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ 1941ء میں جماعت اسلامی قائم کی۔ اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ 1942ء میں قرآن حکیم کی جدید اسلوب میں تفسیر لکھنے کا آغاز کیا جو بعد میں چھ جلدوں میں شائع ہوا اور آج بھی اس کا شمار اردو کی مقبول ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ پاکستان بنے کے بعد آپ پٹھان کوٹ سے لاہور آگئے۔ 1948ء سے اسلام کے مختلف پہلوئوں پر ریڈیو سے تقاریر نشر ہوئیں۔ پہلی تقریر کا موضوع تھا: ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘۔ ساتھ ہی آپ نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک بھی شروع کردی۔ چناں چہ 4 اکتوبر کو گرفتار کرلیے گئے۔ بیس ماہ بعد رہائی ملی۔ 1953ء میں پنجاب میں قادیانی تحریک کے نتیجے میں لاہور میں مارشل لاء لگا تو آپ کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے کے الزام میں فوجی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 1954ء میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں رہا کردیے گئے۔ صدر جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں مولانا مودودی کو ایک بار پھر گرفتار کرکے جماعت اسلامی کو کریمنل لاء ایکٹ 1908ء کے تحت خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے پابندی کے فیصلے کو کالعدم کردیا۔ مولانا بھی رہا کردیے گئے۔ 31مئی 1970ء کو آپ کی اپیل پر ملک بھر میں جوش و خروش سے ’’یوم شوکت اسلام‘‘ منایا گیا۔ 1971ء میں علالت کے باعث جماعت کی امارت سے مستعفی ہوگئے۔ 1979ء میں آپ کی علمی و دینی خدمات کے اعتراف میں حکومت سعودی عرب نے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا۔ اسی سال 26 مئی کو علاج کے لیے اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے ساتھ بفیلو (امریکا) روانہ ہوئے جہاں دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے 22 ستمبر کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو جگر کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ امریکا اور برطانیہ کے مختلف مقامات کے علاوہ کراچی ایئرپورٹ اسٹیڈیم میں بھی جسد خاکی پہنچنے پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ 26 ستمبر کو عالم اسلام کے معروف اسکالر علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں نماز جنازہ کی امامت کی اور اپنے ہی مکان ذیلدار پارک، اچھرہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کی جملہ تصانیف کی تعداد تقریباً پچاس ہے جس میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ (جسے پروفیسر خورشید احمد نے بہ قول ان کے چند جملوں کو حذف کرکے اور غیر متعلق حصوں کو ’’کچھ تبدیلی‘‘ کے ساتھ ’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ (دو جلدیں) کے عنوان سے مرتب کرکے شائع کیا)۔ ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ ’’پردہ‘‘ ’’سود‘‘ ’’اسلام اور ضبط ولادت‘‘ ’’اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘‘ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ ’’اسلامی ریاست‘‘ ’’تجدید و احیائے دین‘‘ ’’تفہیمات‘‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ دینی موضوعات پر تحریر کردہ کتابچے اس کے علاوہ ہیں۔

’’ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں ہی سے آسکتا ہے!‘‘
اگر آپ کسی بڑی شخصیت سے عقیدت رکھتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہوں تو آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ آپ کے اور اس کے درمیان کے فاصلے طویل سے طویل تر ہوتے جائیں کیوں کہ نزدیک سے دیکھی جانے والی تصویر میں کہیں رنگ، کہیں لکیر اور کبھی خیال کا نقص سامنے آ ہی جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی سے ملنے سے گر یزاں تھا۔ وہ عالم اسلام کے ایسے عالم دین اور مفسر قرآن تھے جن کی فکر کے اثرات پوری مسلم دنیا پر مرتب ہوئے تھے۔ ان کی عام فہم، سادہ مگر دل نشیں اسلوب میں لکھی گئی کتابوں نے جدید ذہن کو شدت سے متاثر کیا تھا۔ انہوں نے عہد حاضر میں پردہ، سود، ضبط تولید، جہاد اور اس جیسے بے شمار مسائل پر احکامات دین کی حقانیت کو عقل سے ثابت کرکے یہ دکھا دیا تھا کہ خدائی احکامات کی تعمیل ہی میں آج کی انسانیت کی نجات مضمر ہے۔ انہوں نے مذہب او دین کے فرق کو واضح کیا تھا۔ انہوں نے دین اور شریعت کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔ یوں انہوں نے ایک مجدّد کی طرح دین اسلام کو نیا کر دکھایا تھا۔ وہ اوّلین اسلامی مفکر تھے، جو نفاذِ شریعت اور اعلائے کلمتہ الحق کے لیے سیاسی اقتدار کو ضروری تصور کرتے تھے بلکہ ان کی رائے میں اسلامی ریاست کا قیام ہی مقصودِ دین ہے۔ انہوں نے دین کو ایک مکمل ضابطہ حیات بتلایا اور جدید مغربی دنیا جس نے ’’نظام (System)‘‘ پر اصرار کیا تھا، مولانا نے اپنی تصانیف میں اسلام کے سیاسی نظام، معاشی نظام، اخلاقی نظام کو اس طرح صراحت سے بیان کیا کہ دین کے خدوخال بہ حیثیت نظام کے واضح ہوگئے۔ اور معترضین کا یہ اعتراض کہ اسلام جدید دنیا اور جدید مسائل کا حل اپنے دامن میں نہیں رکھتا، رفع ہوگیا۔
مولانا مودودی کے بہت سے عقیدت مندوں کی طرف سے میرے تعلق کی ابتدا بھی بیزاری و استہزا سے ہوئی تھی۔ جب بھی دوستوں کی محفل میں ان کی ذات اور جماعت موضوعِ بحث بنتی، میں اُنہیں بُرا بھلا کہنے سے باز نہ آتا تھا۔ ایک دن میں یہ ’’اہم قومی فریضہ‘‘ انجام دے رہا تھا کہ میرے والد مرحوم، اللہ اُنہیں غریقِ رحمت کرے، نہایت امن پسند اور خاموش طبیعت آدمی تھے۔ انہوں نے مجھے بڑی درد مندی سے روکا اور کہا کہ جس شخص کے بارے میں تمہاری معلومات صفر ہیں، اس کے متعلق کیا حق پہنچتا ہے تمہیں کہ غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرو۔ وہ پہلا دن تھا میری زندگی کا، جب مجھے احساس ہوا کہ انسانوں کو سمجھنے، ان کے بارے میں رائے قائم کرنے اور اس کا بے ہنگم اظہار کرنے کے سلسلے میں ہمیں محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ والد مرحوم کی تنبیہ سے یہ ہوا کہ میں نے مولانا کی کتابوں سے رجوع کیا، ان کی پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگی ’’دینیات‘‘ تھی۔ یہ واقعہ مئی 1971ء کا ہے، جب میں میٹرک کا طالب علم اور مرحوم مشرقی پاکستان کے شہر راج شاہی میں مقیم تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب سے پہلی بار مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ بہ حیثیت دین، اسلام کیا ہے؟ اور یہ اپنے ماننے اور نہ ماننے والوں سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ آج بھی میں اس کتاب کو اُٹھا کر دیکھتا ہوں اور ان فقروں کو جنہیں دورانِ مطالعہ میں نے انڈر لائن (خط کشیدہ) کیا تھا تو مولانا کا ممنونِ احسان ہوتا ہوں جنہوں نے پہلی بار سادہ اور نہایت دل نشیں انداز میں مجھے میرے پیارے دین سے متعارف کرایا۔ اگر مولانا کا لٹریچر میں نے نہ پڑھا ہوتا تو کیا عجب کہ اپنے دین سے بے بہرہ ہو کر ماسکو یا پیکنگ کے انقلاب کو تاریخ عالم کا عظیم ترین انقلاب سمجھتا اور اُس انقلاب سے واقف ہی نہ ہوپاتا جو میرے دین نے نبی آخر صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بے پایاں رحمت و شفقت کے ذریعے انسانی قلوب اور انسانی کردار میں برپا کیا تھا۔ اس اللہ کو کبھی پہچان نہ پاتا جو سارے عالموں کا ربّ ہے اور جس کی محبت اور خوف ہی انسان کو اپنے محاسبے پر آمادہ کرکے اسے شرف انسانیت سے متصف کرتے ہیں۔ اس مطالعے سے یہ ہوا کہ مولانا کے علم اور ان کی اسلوبِ نثر نگاری کا دل فریب نقش قلب و ذہن پر جم گئے۔ پھر ان کی بابت معلوم کیا تو پتا چلا کہ مولانا مودودی ایک بڑے آدمی ہیں۔ معاف کردینے والے، پلٹ کر جواب نہ دینے والے، انسانوں کا احترام کرنے والے، بڑے ظرف کے عالی دماغ اور حوصلہ مند آدمی!۔ ان کے عالی حوصلہ ہونے کا ایک مشاہدہ جماعت کے ایک سابق ہمدرد لئیق انصاری نے بیان کیا کہ 1970ء کے قومی انتخابات میں توقع کے برخلاف جماعت اسلامی کی بدترین شکست کے بعد کارکنان اور وابستگان جماعت اچھرہ میں مولانا کے مکان کے کشادہ لان میں جمع تھے اور احساسِ شکست دے نڈھال۔ لئیق انصاری کے بیان کے مطابق جب مولانا اندر سے نکل کر باہر آئے تو نہایت نارمل تھے۔ ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ بتارہی تھی کہ شکست نے انہیں اندر سے پُرعزم اور توانا کردیا تھا۔
میں جامعہ کراچی میں شعبہ صحافت کا طالب علم ہوا اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اختیار کی تو جمعیت کی مجلس شوریٰ کے رکن اور میرے سینئر دوست جناب محمود فاروقی نے جمعیت کے اخبار ’’تحریک‘‘ کا مجھے ایڈیٹر بنادیا۔ اگلے ہی برس جمعیت کی یونین کے رسالے ’’الجامعہ‘‘ کی ذمہ داری بھی مجھے سونپی گئی۔ یہ بھی فاروقی صاحب کی مہربانی تھی کہ ان کی سعیٔ مبارک سے اپنی زندگی کا اوّلین انٹرویو مولانا مودودی کا میں نے کیا۔ مولانا داڑھ کی تکلیف میں مبتلا تھے اور انہیں شاید ڈینٹسٹ کے ہاتھوں اپنے کسی دانت کو داغ مفارقت بھی دینا تھا اس لیے بہ ذریعہ خط انہوں نے ایک ہفتے بعد ملاقات کا وقت عطا کیا تھا۔
محمود فاروقی صاحب کی قیادت میں ہم تین دوست میں، اظہر نیاز اور یوسف سعید لاہور پہنچے تھے۔ مولانا عصر کی نماز کے بعد اچھرہ میں اپنے مکان کے لان میں عام آدمیوں کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ دور دراز سے آنے والے ان سے مختلف مسائل پر سوال کرتے اور وہ جواب دیتے۔ ہمیں وہاں پہنچنے کے بعد ایسی ہی دو ایک نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ مجھے ذاتی طور پر یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ اتنے بڑے اسکالر کے سامنے کتنے ناسمجھ اور واجبی علم رکھنے والے لوگ بیٹھے تھے۔ وہ انتہائی بچکانہ نوعیت کے سوال کررہے تھے اور دو ایک تو محض مولانا کو اپنی آواز سنانے کے لیے مستقل بولے چلے جارہے تھے جب کہ مولانا اپنے مخصوص دھیمے پن اور صبر و تحمل سے ان کی باتیں سن رہے تھے اور ان کی پیشانی پر اُکتاہٹ کا کوئی تاثر نہ تھا۔
میرے ایک ساتھی نے مولانا سے اسلامی آرٹ اور شاعری کے متعلق چند باتیں پوچھیں جن کا جواب مولانا نے اپنے مخصوص اور مدلل انداز میں دیا۔ ایک بات انہوں نے کہی کہ میں اپنے لکھنے کے ابتدائی دور میں اپنے مضامین کے اندر اشعار کے خاصے حوالے دیا کرتا تھا لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے جیسے دن گزرتے گئے، میرے مضامینِ خالص تجزیاتی نوعیت کے ہوتے گئے اب بھی اگر لکھنے کے دوران بے ساختہ کوئی شعر یاد آجائے تو درج کردیتا ہوں ورنہ باقاعدہ ارادے اور شعوری کوشش کے تحت ایسا نہیں کرتا۔
غالباً فیصل آباد سے نوجوانوں کی کوئی جماعت مولانا سے ملنے آئی تھی۔ وہ ساٹھ ستر کی تعداد میں تھے، گفتگو ختم ہونے والی تھی کہ ایک لڑکا جو، اب تک خاموش تھا، اُٹھ کھڑا ہوا، کہنے لگا:
’’میں اپنے ایک گناہ کا آپ کے سامنے اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اتنے عظیم آدمی ہوں گے۔ میں نے آپ کے خلاف اتنی شدید اور نفرت آمیز باتیں کی ہیں کہ بیان نہیں کرسکتا۔ براہِ کرم آپ مجھے معاف کردیں!‘‘۔ مولانا نے جذبات سے عاری لب و لہجہ میں جواباً فرمایا: ’’آپ پریشان نہ ہوں، جو لوگ میری مخالفت کرنے اور مجھے بُرا بھلا کہنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرچکے ہیں، میں اُنہیں بھی معاف کرچکا ہوں‘‘۔
جب ہم مولانا سے ملنے کے لیے ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو میری آنکھوں نے دیواروں کے ساتھ قطار سے سجی ہوئی الماریوں میں ضخیم مجلد کتابیں دیکھیں، ٹیوب لائٹ کی روشنی کی سنجیدہ فضا میں مولانا اپنی دیرینہ ساتھی کرسی پر اپنے مخصوص باوقار انداز میں بیٹھے تھے۔ یہیں بیٹھ کر نصف صدی تک تلخ و سنگین حالات اور ذہنی دبائو کے ماحول میں انہوں نے اپنی زندگی کے تیس سال پڑھتے، لکھتے اور سوچتے ہوئے گزار دیے تھے۔
انٹرویو ریکارڈنگ کے لیے ٹیپ آن کیا گیا تو مولانا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا ’’اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔
’’اصل میں ہم اس لمحے کو آواز کی صورت میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے وضاحتاً عرض کیا۔
اُن کی اجازت پر ٹیپ آن ہوگیا اور گفتگو شروع ہوئی۔ جو بات میں نے استعجاب کے ساتھ نوٹ کی، وہ مولانا کا مرتب و منظم ذہن تھا۔ دورانِ گفتگو کوئی فون آجاتا تو وہ ٹیلی فون سنتے اور پھر یہ کہنے کے بجائے کہ ’’ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا‘‘ سلسلہ کلام کو بنا کسی استفسار کے وہیں سے جوڑ دیتے تھے جہاں سے وہ منقطع ہوا تھا۔ میرا پہلا سوال مولانا کا اوائل عمر میں دینی رجحان کی بابت تھا۔ چوں کہ یہ میری صحافتی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا، اس لیے مجھے معلوم نہ تھا کہ معاشرے میں جن شخصیات کو برگزیدہ سمجھا جاتا ہے، ان سے کچھ پوچھنے ماتنے کے آداب کیا ہیں، اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے الفاظ کے چنائو میں کتنی احتیاط درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے نہایت بے تکلفانہ انداز میں آغاز کیا:
’’مولانا! میں گفتگو کی ابتدا آپ کے عہد شباب سے کرنا چاہتا ہوں…‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے مولانا کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ میں گھبرا سا گیا۔ ذہن میں یہی خیال لپکا کہ ’’عہدِ شباب‘‘ کی ترکیب کا استعمال مولانا کے شایان شان نہ تھا۔ میں نے فوراً اپنی ہی کہی ہوئی بات چھوڑ کر اپنے سوال کو ٹھیک کیا اور پوچھا:
طاہر مسعود: بنیادی طور پر آپ مذہبی رہ نما ہیں اس لیے میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کا ذہن مذہب کی طرف کیسے راغب ہوا؟
مولانا مودودی: جب مجھ میں کچھ شعور پیدا ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوں، اس لیے مسلمان ہوں۔ یہ بات اپنی جگہ درست نہیں اور نہ ہی یہ کسی دین کے حق و صداقت کی دلیل ہے کیوں کہ اس طرح اگر میں عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتا تو عیسائی ہوتا۔ اس وجہ سے میں نے دوسرے مذاہب کا بھی مطالعہ کیا اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ جب میرا پوری طرح سے اطمینان ہوگیا کہ دراصل دین حق اسلام ہی ہے تو میں نے پورے شعور کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ میں مسلمان دین آبائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی تحقیق کی وجہ سے ہوں۔ اسی وجہ سے میں نے خود کو نو مسلم بھی لکھا ہے۔
طاہر مسعود: پوری دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی آرہی ہے اور نوجوان، بوڑھی اور پرانی قیادت سے بغاوت کررہے ہیں لیکن ہمارے یہاں معاملہ مختلف ہے۔ نوجوان اپنے بزرگوں ہی کی قیادت کو پسند کرتے ہیں۔ کیوں؟
مولانا مودودی: اصل میں دنیا میں جہاں نوجوان اس طرح بغاوت کررہے ہیں ان کی رفتار، گفتار، کردار ہر چیز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت بھی بگاڑ پیدا کررہے ہیں اور بھی بگاڑ پیدا کریں گے۔ صرف یہ بات کہ نوجوان ایسا چاہتے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ صحیح بھی ہے، جو نوجوان بھی صحیح العقل ہوں گے وہ اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے صرف اچھے مقاصد ہی کافی نہیں ہوتے بلکہ تجربہ کاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ جو قومیں ترقی کررہی ہیں ان کے معاملات کی باگیں سن رسیدہ اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جہاں نو عمر لوگ کسی سازش یا کسی بغاوت کے ذریعے سے اپنے ملک کے معاملات پر قابض ہوگئے ہیں۔ وہاں ان کی ناتجربہ کاری اور ناپختگی اپنے بُرے اثرات دکھا رہی ہے۔
طاہر مسعود: مولانا ایک طبقے کا خیال ہے کہ چوں کہ ہمارا ملک پس ماندہ ہے، اس لیے اس کے نوجوانوں کو اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ جب کہ سیاست دان نوجوانوں کو اپنی قوت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آپ کے نزدیک دونوں میں کون سا نقطہ نظر درست ہے؟
مولانا مودودی: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ طلبہ کو اپنی تعلیم توجہ سے حاصل کرنے اور اپنی قابلیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جن نوجوانوں کو آگے چل کر خود ملک کا انتظام سنبھالنا اور چلانا ہے وہ اس بات سے آنکھیں بند کرلیں کہ ان کے حق میں کانٹے بوئے جارہے ہیں جنہیں آخر کار انھیں ہی چنا ہوگا۔ اگر وہ دیکھ رہے ہوں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا نظام ہے وہ ان کے حق میں کانٹے ہونے کاسامان کر رہے ہیں، بڑے بے حس اور بے عقل ہوں گے اگر وہ اس طرح کے لوگوں کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہ کریں۔ اس معاملے میں دو چیزیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔کسی سیاسی پارٹی کو طلبہ کو اپنا آلہ کار بنانا اور طلبہ کو ان کے ہاتھ میں آلہ کار بننا سراسر غلط ہوگا اگر وہ پارٹی ان پارٹیوں میں سے ہو جو مستقبل کے لیے ان ہی جوانوں کے حق میں کانٹے بونے کی تیاری کررہی ہو۔ آخر نوجوان طلبہ جو اپنے علم کی تکمیل کا ایک حد تک راستہ طے کرچکے ہیں اور جن میں معاملات کو سمجھنے کے لیے شعور پیدا ہوچکا ہے وہ کسی کا آلہ کار بننے سے پہلے اس بات کو ضرور دیکھیں گے اور نہیں دیکھیں گے تو غلطی کریں گے۔
(دروازہ کھلا اور ایک نوجوان داخل ہوا، مولانا اُسے دیکھ کر مسکرائے: ’’کہیے کیا حال ہیں؟‘‘ نوجوان جھک کر کچھ باتیں کرتا رہا پھر وہیں بیٹھ گیا۔ یوسف سعید نے آہستہ سے مجھ سے کہا ’’شاید یہ مولانا کے صاحبزادے ہیں‘‘)
طاہر مسعود: اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں میں قیادت کی باگ ڈور اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے باوجود وہاں مذہبی نقطہ نظر سے کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔ کیوں؟
مولانا مودودی: بات یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنے کا کام جتنے وسیع پیمانے پر ہورہا ہے۔ اس کے اثرات لامحالہ کچھ نہ کچھ تو عام نوجوانوں پر بھی پڑتے ہیں اور یہ سلسلہ ایک مدت دراز سے چل رہا ہے۔ صرف یہ بات کہ ان تعلیمی اداروں کے انتخابات میں اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کو کامیابی حاصل ہوجاتی ہے بجائے خود کافی نہیں بلکہ ان قیادت کے سنبھالنے والوں کو بڑے پیمانے پر طلبہ کے اصلاحِ حال کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
طاہر مسعود: لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ایسے افراد سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو اسلام سے محض عقیدتاً اور جذباتی لگائو رکھتے ہیں اور عملاً شعائر اسلام کی پابندی نہیں کرتے جب کہ حقوق العباد کے معاملات ان کے بہتر ہوتے ہیں، ا س کی کیا وجہ ہے؟
مولانا مودودی: اس کی دو وجوہ ہیں یا تو یہ کہ وہ علم کے بغیر اسلام کا ساتھ دے رہے ہیں، جذباتی وابستگی ایسے لوگوں میں پائی جاتی ہے جو مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں، اس قسم کی وابستگی اسلام کے لیے اتنا عشق پیدا کرسکتی ہے کہ اس کی خاطر انسان جان دے دے لیکن اسلام کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے ساری زندگی گزار دینا یہ ممکن نہیں یا پھر دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک آدمی کو شعور بھی ہے، اسلام کو سمجھتا بھی ہے، لیکن اس کی سیرت میں ایسی کم زوری موجود ہے کہ ایک چیز کو فرض جاننے کے باوجود وہ اسے ادا نہیں کرسکتا۔ ایک چیز کو حرام جاننے اور ماننے کے باوجود اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان دونوں میں جو صورت بھی ہو، اس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی حقوق العباد ادا کرنے میں پوری طرح راست باز ہوسکے۔ اس لیے کہ مضبوط سیرت و کردار کا پیدا ہونا صرف خدا اور آخرت پر یقین ہی کے نتیجے میں ممکن ہے۔ جو شخص خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا وہ بعض چیزوں میں حقوق العباد ادا کرے گا اور بعض چیزوں میں حقوق العباد کو پامال کرے گا۔ جہاں کہیں بھی وہ محسوس کرے گا کہ حقوق العباد کرنے میں اسے نقصان سے سابقہ پیش آئے گا وہاں اس کی اخلاقی قوت جواب دے جائے گی۔ ایسی حالت میں حقوق العباد وہی ادا کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ اگر یہاں کسی کا حق مار کر میں دنیا کی گرفت سے بچ جائوں گا تب بھی یہ عقیدہ اسے ایسا کرنے سے باز رکھے گا کہ مرنے کے بعد اسے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
بعض لوگ اس معاملے میں بعض مغربی قوموں کی مثال پیش کرتے ہیں کہ ان کے ہاں کے معاملات میں بڑی ایمان داری پائی جاتی ہے۔ لیکن وہ نہیں سوچتے کہ اگر واقعی وہ ایسے لوگ ہیں تو وہ قومی حیثیت سے دنیا کی دوسری قوموں کے حقوق کیوں مارتے ہیں اور ستم ڈھاتے ہیں۔ فرداً فرداً جس قوم کے لوگ ایمان دار ہوں مجموعی طور پر وہ ایک قوم بننے کے بعد بے ایمان کیوں ہوجاتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کیریٹر کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
طاہر مسعود: اسلامی جمعیت طلبہ میں بے شمار طلبہ شامل ہوتے ہیں لیکن آگے چل کر جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو اُن مقاصد کے لیے کام نہیں کرتے جن کے لیے وہ اس میں شامل ہوئے تھے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
مولانا مودودی: یہ بات نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو طالب علمی کے زمانے میں بڑے بلند مقاصد رکھتی ہے اور اچھے ارادے اپنے دل میں پرورش کرتی ہے لیکن جب ان کو تعلیم سے فارغ ہو کر اس سوال سے سابقہ پیش آتا ہے کہ انہیں عملی دنیا میں قدم رکھنا ہے اور اپنے مستقبل کو خود ہی تعمیر کرنا ہے تو اس وقت وہ اپنی اس خیالی دنیا سے نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کے اندر وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں زندگی بسر کررہے تھے۔ اس وجہ سے یہ ممکن تو نہیں کہ وہ سارے کے سارے آگے چل کر تحریک اسلامی کے کارکن بن جائیں۔ ان میں سے ایک قلیل تعداد ہی ایسا کرتی ہے لیکن یہ سمجھ لینا صحیح نہیں کہ عملی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ملازمت یا تجارت یا کسی اور کام میں جو لوگ لگ گئے ہیں، ان کے دماغ کے وہ خیالات بھی نکل گئے ہیں، جو زمانہ طالب علمی میں وہ رکھتے تھے۔ مجھے بہ کثرت ایسے لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جو پہلے جمعیت طلبہ میں تھے اور بعد میں کسی شعبہ زندگی سے وابستہ ہوگئے۔ میں نے کم ہی ایسے شخص کو پایا ہے کہ اس کے خیالات بالکل بدل گئے ہوں۔ چوں کہ ان کے ساتھ روابط رکھنے کی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں اس لیے یہی گمان پیدا ہوگیا ہے کہ وہ سب لوگ دنیا میں کھو گئے اور اب ان کے خیالات میں ان کے سابق عقائد و افکار کی جھلک باقی نہیں رہی۔
طاہر مسعود: مولانا! نوجوانوں کا فکری مستقبل آخر کیا ہوگا؟ نوجوانوں کو کون سی اقتصادی ضمانت دی جاسکتی ہے؟ کیا آپ کے ذہن میں کوئی نقشہ موجود ہے؟
مولانا مودودی: اقتصادی ضمانت کوئی بھی ایسی حالت میں نہیں دے سکتا، جب تک اسے اقتصادی نظام پر گرفت حاصل نہ ہو بلکہ جنہیں گرفت حاصل ہے وہ بھی تمام نوجوانوں کو کوئی اقتصادی ضمانت نہیں دے سکتے۔ حقیقت میں صحیح عقیدہ وہی ہے جو کسی اقتصادی نظام کا محتاج نہ ہو اور جو اس یقین پر مبنی ہو کہ ہم جس چیز کو حق سمجھتے ہیں وہ حق ہے اور ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے خواہ وہ ہمارے لیے تابناک مستقبل کی ضمانت دیتا ہو یا نہ دیتا ہو۔ جو شخص بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو، وہ تحریک اسلامی کے لیے کام نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے یقین شرطِ اوّل ہے۔
طاہر مسعود: کیا اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں سے ہی لانا چاہیے؟ جب کہ دوسری نظریاتی تحریکیں ایسی موجود ہیں جنہوں نے قوت اور ہتھیار کو بھی انقلاب لانے کا ذریعہ بنایا۔
مولانا مودودی: ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں ہی سے آسکتا ہے بلکہ جو بات ہم یقین سے سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی مصنوعی ذریعے سے اگر کوئی ایسا انقلاب برپا کردیا جائے جس کے لیے معاشرہ ذہنی و اخلاقی حیثیت سے تیار نہ ہو۔ وہ انقلاب کبھی پائے دار نہیں ہوسکتا اور معاشرے کو تیار کرنا ایک محنت طلب کام ہے۔ ایک اچھی خاصی مدت لوگوں کو اس حق کا قائل کرنے پر صرف کرنی پڑتی ہے کہ جس حق کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب معاشرے کو ایک حد تک تیار کرلیا جائے، اس کے بعد انقلاب برپا کرنے کے لیے ہر وہ تدبیر کی جاسکتی ہے جو جائز بھی ہو اور ان حالات میں کارگر بھی ہو جن میں ہم کام کررہے ہیں۔ اپنے وقت اور اپنے ملک کے حالات کو نظر انداز کرکے کوئی اسکیم نہیں بنائی جاسکتی۔ اور اگر بنائی جائے تو یہ ناکامی پر منتج ہوگی۔
طاہر مسعود: اسلام اپنی مکمل حالت میں عملاً صرف پندرہ برس خلافتِ راشدہ تک نافذ رہا۔ اکثر ذہنوں میں یہ سوال گونجتا ہے کہ کیا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی آمد، علاوہ ازیں کائنات کی تخلیق سے لے کر اب تک خیر و فلاح کے سارے کام صرف اسی پندرہ سال کے مختصر عرصے کی خلافتِ راشدہ کے لیے انجام دیے گئے تھے اور جس کے آئندہ بھی نافذ ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے؟
مولانا مودودی: اصل میں یہ محدود نقطہ نظر ہے اس معاملے پر غور کرنے کا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ اخلاقی حسن اور فتح کے تصورات پائے جاتے ہیں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے جو صالح اصول نوعِ انسانی کو ملے ہیں وہ آخر کہاں سے آئے؟ ان سب کے پہنچنے کا ذریعہ محض انبیا ہیں۔ یہ تو بہت بڑی بات ہے کہ کسی نبی کی تعلیم کا اہتمام کسی معاشرے میں کیا جائے اور ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے لیکن جہاں ایسا نہ ہو، وہاں یہ سمجھنا کہ انبیا کی تمام کوششیں بے کار گئیں، غلط ہے۔ وہ انبیا کی تعلیمات سے انحراف کی وجہ سے ہے اور دنیا میں جتنی تعلیم و تہذیب بھی پائی جاتی ہے، وہ ہم تک انبیا کے ہی ذریعے پہنچی ہے۔
طاہر مسعود: بعض مفکرین کا خیال ہے کہ آنے والا زمانہ عقائد و نظریات کا زمانہ نہیں ہے بلکہ انسان کے تنظیم سازی کے مسائل اتنے بڑھ جائیں گے اور معاشرتی اداروں کی اہمیت دو چند ہوجائے گی کہ مختلف نظریات رکھنے والے لوگ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر ایک حل پر متفق ہوجائیں گے۔ آپ کی رائے کیا ہے؟
مولانا مودودی: یہ خیال دعویٰ ہے، اس کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے، جن لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے یہ ان کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔ ضروری نہیں کہ حقیقت بھی اس کے مطابق ہو۔ اس میں سب سے پہلی بات تو یہی غلط ہے کہ عقائد و افکار کا دور گزر گیا۔ جب تک انسان کے سر میں دماغ ہے اور دماغ میں سوچنے کی قوت موجود ہے اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں اور پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ حل کیا ہوگا جس پر سب متفق ہوجائیں گے۔ آیا یہ ان کا نظریہ ہے یا وہ کوئی واقعہ بیان کررہے ہیں۔ بنیادی بات یہ کہ انسان تنظیم کے اثر میں آکر نہیں سوچتا بلکہ تنظیمات اس کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ جب تک انسان، انسان ہے، اس وقت تک ممکن نہیں کہ خیالات و افکار کامل یک سانی پیدا ہوجائے اور لوگوں میں اختلافِ خیال باقی نہ رہے، جس وقت ایسی صورت پیدا ہوگی اس وقت انسان کے بجائے کوئی اور مخلوق کام کرنا شروع کردے گی۔
طاہر مسعود: آپ نے اپنی کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں ابتدا سے لے کر شاہ اسماعیل شہید تک کی اسلامی تحریکوں کا جائزہ لیا ہے اور ان کی ناکامی کے اسباب بیان کیے ہیں، اگر آپ کے نزدیک کامیابی کا معیار رضائے الٰہی کا حصول ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے رضائے الٰہی نہیں حاصل کی؟
مولانا مودودی: کامیابی اور ناکامی کا لفظ ہم مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی گروہ جس مقصد کے لیے کام کررہا ہے، وہ اس میں کامیاب ہوجائے، کامیابی کا یہ ایک مفہوم ہے۔ کامیابی کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے جو ذمہ داری سونپی گئی ہو، اس کو پورا کرنے میں ہم کوئی کوتاہی نہ برتیں۔ اس طرح سے جو گروہ بھی رضائے الٰہی کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاشرے اور ماحول کو اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے اُٹھتا ہے، اس کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے اور فطرتاً ہونی چاہیے کہ جس اصلاح کے لیے وہ کوشش کررہا ہے، وہ عملاً رونما ہوجائے۔ اس غرض کے لیے یہ ضرور دیکھنا ہوتا ہے کہ جو تدابیر اختیار کی گئی ہیں، ان میں کوئی ایسی خامی تو نہیں ہے جو اصلاح کے مقصد کو پورا کرنے میں مانع ہے۔ اس لیے ہم تاریخ کا مطالعہ کرکے یہ کوشش کرتے ہیں کہ پہلی تحریکوں میں اگر تدبیر کے لحاظ سے کوئی خامی نظر آئے تو اس سے بچیں۔

حصہ