دین اور نظام

637

ملک کے ممتاز دانش ور، نقاد، شاعر اور ڈرامہ نگار سلیم احمد نے روزنامہ جسارت میں طویل عرصے تک کالم نگاری بھی کی۔ ان کے کالم گہری فکر کے حامل ہوتے تھے۔ ان کے منتخب کالموں کا مجموعہ اسلامی نظام، مسائل اور تجزیے کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ یہ مجموعہ سلیم احمد کے انتقال کے بعد 1984ء میں شائع ہوا تھا۔ سنڈے میگزین میں اسلامی نظام، مسائل اور تجزیے میں شامل سلیم احمد کے کالم ان کے اہل خانہ کی اجازت سے قندِ مکررّ کے طور پر شائع کیے جارہے ہیں۔ (ادارہ)۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے۔ آپ نظام مصطفی سے کیا چاہتے ہیں۔ مثال کے طورپر آپ کی وہ کون سی خواہشیں ہیں جو دنیا کے کسی اور نظام میں پوری نہیں ہو سکتیں اور صرف اور صرف نظام مصطفی میں پوری ہو سکتی ہیں۔ آپ کے وہ کون سے مسائل ہیں جو دنیا کے کسی اور نظام میں حل نہیں ہو سکتے اور صرف نظامِ مصطفی میں حل ہو سکتے ہیں۔ زندگی کا وہ کون سا نقشہ ہے جو دنیا کے کسی اور نظام میں نہیں ملتا، صرف اور صرف نظام مصطفی میں ملتا ہے۔ کیا یہ سوال جو غالباً سب سے بنیادی سوال ہے، کبھی خود سے کیا ہے۔ وہ کیسی زندگی ہو گی جو آپ نظام مصطفی کے تحت بسر کریں گے۔ کیا یہ سوال ضروری نہیں ہے نظام مصطفی کو سمجھنے کے لیے اور اس کے ساتھ خود کو سمجھنے کے لیے؟ ہم کہتے ہیں نظام مصطفی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ اچھا تو پھر ہمارے مسائل کیا ہیں؟ میں غریب ہوں، میرا سب سے بڑا مسئلہ غربت کو دور کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں میں بھی امیر بن جائوں۔ میرے پاس بھی کوٹھی ہو۔ کار ہو، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہو، بینک بیلنس ہو۔ میں بھی دنیا کی لذتوں سے فیض یاب ہو سکوں۔ کیا نظام مصطفی مجھے امیر بنا دے گا۔ کیا اس کے معنی ہوں گے کہ ملک کا ہر آدمی لکھ پتی ہو جائے۔ اس کے مقابلے پر ایک امیر آدمی ہے۔ اس کے مسائل کچھ اور ہیں۔ وہ امیر سے امیر تر بننا چاہتا ہے یا اسے خوف ہے کہ اس کی دولت اسکے پاس نہیں رہے گی، یا اسے نقصان ہوجائے گا یا سوشل ازم کے علم بردار اس کا سرمایہ اس سے چھین لیں گے۔ کیا نظامِ مصطفی کے معنی اس کے لیے یہ ہوں گے کہ وہ امیر سے امیر تر بنتا چلا جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ منافع کی اجازت ہو اور اسے اس بات کی ضمانت دی جائے کہ دنیا کا کوئی اور نظام اس کا سرمایہ ضبط کرنے کا خطرہ نہیں بن سکے گا۔ کیا نظام مصطفی کے یہی معنی ہیں ہم جب مسائل کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے۔ سوشل ازم کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرتا ہے۔ اس کے صاف سیدھے معنی یہ ہوتے ہیں کہ سرمائے پر حکومت کا کنٹرول ہو گا۔ کوئی فرد واحد سرمایہ کاری کا مجاز نہ ہو گا۔ ہر شخص کی محنت حکومت اور حکومت کے لیے ہو گی اور اسکے جواب میں حکومت ہر فرد کے روٹی، کپڑا،مکان کی ضمانت دے گی۔ اس کے برعکس سرمایہ داری کا دعویٰ ہے کہ لوگوں کے مسائل کا حل ایک ایسی فلاحی ریاست میںہے جس میں ہر شخص کو آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کے حقوق حاصل ہوں اور ہر شخص آزادانہ طور پر اپنی محنت کو بیچنے کا مجاز ہو۔دونوں کے لیے انسانوں کے مسائل ان کے مادی مسائل ہیں۔ وہ انسانوں خو خوش حالی کا، مادی آسائش کا، تعیش اور آرام کی زندگی کا خواب دکھاتے ہیں۔ کیا نظام مصطفی میں بھی ہمارے مسائل کا تصور یہی ہے۔ سوشل ازم محنت کشوں کو جنت کا خواب دکھاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ داروںکے لیے جنت ہے۔ کیا نظام مصطفی کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرمایہ دار او ر مزدور دونوں کے لیے جنت ہو گا۔ آپ نے ملی جلی معیشت کا نام سنا ہو گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ ذرائع پیداوار پر حکومت کا کنٹرول ہو اور کچھ کو آزادانہ سرمایہ کاری کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔ کیا نظام مصطفی بھی ملی جلی معیشت کا نام ہے؟ آپ نے دیکھا یہ سوالات الجھے ہوئے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں ان کا کوئی واضح تصور نہیں ہے۔ ہم جب ان پر زیادہ غور کرتے ہیں تو ہماری سمجھ میں صرف اتنی بات آتی ہے کہ نظام مصطفی بھی سرمایہ داری اور سوشل ازم کی طرح کا ایک نظام ہے جو دونوں نظاموں کی خوبیوں پر مشتمل ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ تعریف ہے جو نظام مصطفی کے اس تصور پر صادق آتی ہے، لیکن سرمایہ داری ار سوشل ازم دنیاوی نظام ہیں اور انسانوں کے مسائل کا صرف مادی تصور رکھتے ہیں۔ کیا نظام مصطفی کو سرمایہ داری اور سوشل ازم کے مقابل رکھ کر ہم اسے بھی ایک دنیاوی نظام نہیں سمجھنے لگتے۔ ایک ایسا نظام جو انسانوں کے مادی مسائل سے تعلق رکھتا ہو اور سرمایہ داری اور سوشل ازم کی طرح ان کا کوئی حل پیش کرتا ہو، لیکن ہم مانتے ہیں کہ اسلام کوئی دنیاوی نظام نہیں ہے۔ اسلام ایک دین ہے اور دین کی حیثیت سے نظام مصطفی کا مقابلہ نہ تو سرمایہ داری سے کیا جا سکتا ہے نہ سوشل ازم سے۔ سوشل ازم اور سرمایہ داری اپنی روح میں کچھ اور ہیں اور اسلام کچھ وار اسلام اور سرمایہ داری اور سوشل ازم میں یہ فر ق نہیں ہے کہ اسلام سوشل ازم اور سرمایہ داری کی خوبیوں پر مشتمل ہے یا ان دونوں سے بہتر کوئی نظام ہے۔ ان کا فرق یہ ہے کہ اسلام ’’دین‘‘ ہے اور سرمایہ داری اور سوشل ازم صرف ’’نظام‘‘ ہیں۔ دین اور نظام کے اس فرق کو سمجھے بغیر نہ ہم اسلام کو سمجھ سکتے ہیں، نہ سوشل ازم اور سرمایہ داری کو۔ دین اور نظام کا پہلا بنیاد فرق یہ ہے کہ دین خدا کی طرف سے ہے جب کہ نظام انسانوں کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور دوسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ دونوں انسانی ’’مسائل‘‘ کا ایک دوسرے بالکل جدا تصور رکھتے ہیں۔ دین میں انسان کا سب سے پہلا، سب سے بنیادی، سب سے اہم مسئلہ نجات اخروی ہوتا ہے جب کہ نظاموں میں انسانوں کا واحد مسئلہ نجات دنیوی ہوتا ہے یعنی دین آخرت کے لیے ہوتا ہے اور نظام دنیا کے لیے۔
دین اور نظام کا تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ دین کا مرکز خدا اور نظاموں کا مرکز انسان ہوتا ہے، اب ان تینوں امتیازات کی روشنی میں آئیے اپنے پہلے سوال کی طرف لوٹیں، نظام مصطفی سے ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے چوں کہ دین کا لفظ نظام سے بدل دیا، اس لیے ہمارا سارا تصور الجھائو کا شکار ہو گیا اور ہم اسلام کو بھی سرمایہ داریاور سوشل ازم کی طرح انسان کے مادی مسائل کا حل سمجھنے لگے اور اسلام کامقابلہ دنیا کے دوسرے نظاموں سے کرنے لگے، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام انسانوں کے مادی مسائل کا حل پیش نہیں کرتا؟ اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ اسلام مادی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ انسان کے سارے کے سارے مسائل روحانی ہیں۔ آئیے اس تصور کو ذرا وضاحت سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہم مادی مسائل کن مسائل کو کہتے ہیں۔ میں ایک انسان ہوں، مجھے بھوک لگتی ہے، اس لیے رزق کا حصول، یہ ایک مادی مسئلہ ہے۔ سرمایہ داری اور سوشل ازم کے نزدیک انسانی مسائل کل کے کل ایسے ہی مادی مسائل ہیں۔ اس کے مقابلے پر ایک تصور یہ موجود ہے کہ انسان کے کچھ روحانی مسائل بھی ہیں۔ اس نقطہ نظر کے لوگ کہتے ہیں کہ خدا کوماننا بھی انسان کا ایک مسئلہ ہے۔ رزق کا حصول مادی مسئلہ ہے، خدا کو ماننا روحانی مسئلہ ہے، اس لیے اس نقطہ نظر سے خدا کی عبادت کرنا روحانی بات ہوئی اور رزق کا حصول مادی معاملہ، لیکن اس نقطہ نظر میں خرابی یہ ہے کہ یہ زندگی کو ایک ثنویت اور دوئی کا شکار بنا دیتا ہے۔ انسان کی روحانی زندگی کچھ اور ہو جاتی ہے اور مادی زندگی کچھ اور۔ وہ عبادت کرتا ہے اور اسے روحانی بات سمجھتا ہے، اور دنیا کے کام کرتا ہے اور انہیں مادی معاملہ تصور کرتا ے۔ اسلام اس ثنویت یا دوئی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کے نزدیک انسان کی کل زندگی عبادت ہے اور خدا کے حکم پر نماز پڑھنے کی طرح خدا کے حکم پر خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر رزق حلال کمانا بھی روحانی عمل ہے۔ اب دین اور نظام کا ایک فرق یہ نکلا کہ نظام انسان کے کل مسائل کو مادی مسائل سمجھتا ہے جب کہ دین انسان کے کل مسائل کو روحانی مسائل سمجھتا ہے۔ آئیے اب اس بات کو پھر اپنے سوال سے ملا کر دیکھیں۔ نظام مصطفی سے ہم کیا چاہتے ہیں۔ نظام مصطفی سے ہم کیا چاہتے ہیں۔ اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ روٹی، کپڑا مکان یا معاشی انصاف یا اسی قسم کی وہ تمام باتیں جو ہم نظام مصطفی کے ذریعے اللہ سے اپنا تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں، ایک ایسا تعلق جو ہماری انفرادی زندگی پر بھی حاوی ہو اور اجتماعی زندگی پر بھی نافذ ہو۔ اللہ سے ہمارا یہ تعلق پیدا ہو جائے تو ہمارے تمام اعمال روحانی اعمال بن جائیں گے اور ہماری زندگی کل کی کل عبادت بن جائے گی۔ تب ہمارا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا سب اللہ کے لیے ہو گا۔ تب ہم روٹی بھی کمائیں گے تو اللہ کے حکم پر اللہ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے احکام کے مطابق کمائیں گے۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں جب کبھی فساد کا دور دورہ ہوتا ہے اور انسان مصائب اور مسائل میں گھر جاتا ہے تو اس کا ایک ہی سبب ہوتا ہے تعلق باللہ کا خاتمہ، یا اس میں کمزوری کا پیدا ہونا۔ تب انسان خود اپنے نفس اور دنیا کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اور اس جال کی کڑیوں کو جتنا توڑنے کی کوشش کرتاہے۔ اس میں اور زیادہ پھنستا جاتا ہے۔ سوشل ازم اور سرمایہ داری کے نظام دنیا کے مسائل کا حل اس لیے نہیں پیش کر سکتے کہ وہ خدا کے اس قانون سے بے خبر ہیں یا منکر ہیں۔ وہ انسان کے مسائل کا حل انسان کے نفس کے ذریعے پیش کرنا چاہتے ہیں جب کہ انسانوں کے ہر مسئلے کا حل اس کے نفس میں نہیں اللہ سے اس کے تعلق میں ہے۔ اب غالباً یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ نظام مصطفی کے معنی سرمایہ داری یا اشتراکیت کی طرح انسان کی مادی مسائل کا حل پیش کرنا نہیں ہے بلکہ انسانی مسائل کے تصور کو بدلنا ہے اور خالص مادی نقطہ نظر اختیار کرنا یا مادی اور روحانی کی ثنویت میں مبتلا ہونے کے بجائے اسلام کے توحیدی تصور کو قائم کرنا ہے۔ نظام مصطفی نے اگر ہمیں یہ نہ دیا تو کچھ نہ دیا۔
اسلام کی بنیاد ایمان اور عمل صالح پر ہے۔ ایمان کی ایک کیفیت قلب ہے جو اللہ سے شدید اور گہرے تعلق پر مبنی ہوتی ہے یہ تعلق دل سے پھوٹ کر انسان کے تمام اعمال میں ظاہر ہوتاہے اور یوں ایک مسلمان کی پوری زندگی کو اپنے قالب میں ڈھال لیتا ہے۔ ایمان کے بغیر عمل کی کوئی حیثیت نہیں۔ عمل ایمان کے بغیر نفاق ہے، لیکن ایمان عمل کے بغیر معتبر نہیں۔ قلب کی وہ کیفیت جو عمل میں ظاہر نہ ہو ایمان کے ضعف کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے ایمان کے لیے عمل اور عمل کے لیے ایمان ضروری ہے۔ اب اس بنیادی بات کی روشنی میں نظام مصطفی، نظامِ اسلام کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے۔ جب ہم نظام مصطفی کے نفاذ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ ہم اسلام کے قوانین کو مملکت کے قوانین بنا دیں گے۔ یہ ایک اور ضروری اوربنیادی بات ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پوری بات نہیں ہے، کیوں کہ قوانین ہمیشہ خارج سے نافذ ہوتے ہیں۔ اور خارج سے نافذ ہونے والے قوانین ممکن ہے کہ ہمارے عمل کو کسی شکنجے میں جکڑ دیں، لیکن ہماری کیفیت قلب ان کی دسترس سے دور ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں قوانین ہمارے عمل کی بنیاد بن سکتے ہیں ایمان کی نہیں۔ ایمان قوانین سے نہیں پیدا ہوتا۔ قوانین ایمان سے موثر اور بامعنی بنتے ہیں۔ اس حقیقت کی روشنی میں خارجی قوانین کا نفاذ جتنی اہم بات ہے اتنی ہی اہم بات کیفیت قلب کی اصلاح بھی ہے، بلکہ کیفیت قلب کی اصلاح خارجی قوانین پر تقدم رکھتی ہے۔ آئیے اس بات کو اپنے موجودہ ماحول کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں مسلمان ہوں۔ میری زندگی میں اسلام کے کیا معنی ہیں؟ سب سے پہلی بات یہ کہ میرے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور خوف ہو، دوسری بات یہ کہ یہ خوف اور محبت میرے عمل میں ظاہر ہوں۔ نماز پڑھوں، روزہ رکھوں، زکوٰۃ دوں، حج کروں۔ پھر یہ ایمان میری اخلاقیات میں ظاہر ہو۔ میں سچ بولوں، دیانت سے کام لوں، رزق حلال کے لیے سعی کروں، عزیز و اقار، غرباء اور مساکین، یتیم اور ہمسائے کے حقوق ادا کروں، جھوٹ نہ بولوں، بددیانتی نہ کروں، حرام نہ کھائوں لوگوں کے حقوق غصب نہ کروں۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر میرے ایمان کی کیفیت میری معاشرت میں حسن معاشرت بن کر ظاہر ہو، میں بڑوں کا ادب کروں، چھوٹوں پر شفقت کروں۔ لوگوں سے نرمی اور خوش خلقی سے بات کروں۔ لغو گوئی، بے ہودگی، گپ شپ، غیبت اور بہتان سے پرہیز کروں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی بات ہے جس کے لیے مجھے کسی قانون کی ضرورت ہے۔ میرے دل میں ایمان ہو۔ خدا کا خوف ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتو یہ سب باتیں میرے لیے ایسی ہیں جیسے سانس لینا۔ کیا ہمارے معاشرے میں جو فساد ہے وہ صرف اسی بات سے نہیں ہے کہ میں اسلام کے ان تقاضوں پر عمل نہیں کرتا، اس لیے نہیں کہ ان پر عمل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے صرف اس لیے کہ میرے ایمان میں ضعف ہے۔ میرے قلب کی کیفیت بگڑ گئی ہے۔ اس میں اللہ کا خوف اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی جگہ دنیا کا خوف اور دنیا کی محبت پیدا ہو گئی ہے۔ میں اپنے باطن میں حرص و ہوس کا شکار ہوں۔ کیاان باتوں کی اصلاح صرف قوانین سے ہوسکتی ہے؟ قوانین خارجی رکاوٹوں کو دور کر سکتے ہیں مثلا موجودہ نظام میں آپ سود دینے پر مجبور ہیں۔ قانون سے سود کا نظام ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح خارجی ترغیبات بھی راستے سے ہٹائی جا سکتی ہیں۔ مثلا شراب فروشی کو ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن دل میں اللہ کا خوف پیدا کرنا اور اس کیفیت قلب کو درست کرنا جو ایمان کی بنیاد ہے۔ یہ قانون کے بس کی چیز نہیں۔ اب اس بنیادی بات کو ہم واضح طور پر دوسرے لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔ قوانین کے نفاظ کا مطلب ایک ایسا خارجی عمل ہے جو اجتماع سے تعلق رکھتا ہے جب کہ ایمان اور کیفیت قلب کی درستی ایک ایسا داخلی عمل ہے جو فرد سے تعلق رکھتا ہے دنیا کے دوسرے نظام خارجی اجتماعی عمل کو کافی سمجھتے ہیں۔ جب کہ اسلام بطور دین کے فرد کے داخلی عمل کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنی اجتماع کے خارجی عمل کو، ہم ان دونوں کو جمع کر کے ہی اسلام کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔

حصہ