مقصد ِزندگی ہے کیا؟ اسوۂ رسولؐ کے بغیر

211

اپنی بات

اپنی بات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے یہی خیال آیا کہ وقت کے کچھ لمحے آپ سب سے اپنے لیے مانگ لوں کہ انہیں پھر اُن لمحوںکی کتاب میں درج کیا جاسکے جو اُس پار کہیں رکھی جائے گی۔ بہت سے لوگ جنہوں نے اس کے دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں یاد دلایا اور بار بار یاد دلایا… بس پھر ارادہ باندھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں کچھ حرفِ حق کہا جائے، کیا پتا چند لفظوں کا وزن ہی شب و روز کو ہلکا کردے اور وہ شمعیں نصیب ہو جائیں جن کے بارے میں امجد اسلام امجد کہتے ہیں:
میں اُن کو طاقِ ابد سے اتار لایا ہوں
یہ شمعیں جن کی لویں میرے آنسوئوں سے جلیں
دنیا جو بھی ہے اور جیسی بھی ہے ایسی ہی ہے ہمیشہ سے اور رہے گی۔ ظلم اور ناانصافی… دکھ اور آزمائش… ہر انسان کو آزمایا جائے گا۔ ’’تم سمجھتے ہو یونہی جنت میں داخل ہو جائو گے اور تمہیں آزمایا نہ جائے گا۔‘‘
لیکن یاد رکھیں معاشرہ کیسے ہی لوگوں سے بھرا ہو… برے بھلے، لیکن اللہ ہر ایک کو کسی نہ کسی چیز سے ضرور نوازتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اُس نے اس خیر اور بھلائی کو بھلاوے کی نذر کر دیا ہو۔ دنیا کی چکا چوند اور شیطان کے دکھائے گئے سبز باغ کی خواہش میں بھلائی اور ضمیر کی پکار پر دھیان نہ دیا ہو۔ لیکن اگر آپ اس پوشیدہ بھلائی کو ڈھونڈ سکیں تو یوں جانیں کہ آپ نے چھپے ہوئے خزانے ڈھونڈ لیے ہیں اور انہیں اپنے لیے محفوظ کرلیا ہے۔ ورنہ وقت کا سیل رواں دواں ہے اور اس وقت کے سیلِ رواں کے پیچ و خم میں گم
ہم اور تم…
وقت کا سیل رواں
جس کے اس پار کہیں رکھی ہے
گمشدہ عمر کے لمحوں کی کتاب
دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا کاروں اور گناہ گاروں سے بھی کیسا خوش گمان رہتے تھے۔
ایک آدمی بارگاہِ نبویؐ میں لایا گیا۔ اس کا جرم شراب نوشی تھا، آپؐ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ وہ پھر شراب نوشی کے جرم میں لایا گیا اور پھر اسے سزا دی گئی، لیکن وہ باز آنے والا نہ تھا۔ چند دن بعد پھر اس نے شراب پی اور گرفتار کرکے لایا گیا اور پھر اس کو سزا دی گئی۔
سزا کے بعد ابھی وہ جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایک صحابیؓ نے کہا ’’اللہ اس پر لعنت کرے… کتنی دفعہ اس جرم کی پاداش میں سزا دی گئی ہے لیکن یہ باز نہ آیا۔‘‘ آپؐ نے ان صحابیؓ کی طرف دیکھا۔ آپؐ کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ آپؐ نے فرمایا ’’اس پر لعنت نہ کیجیے، واللہ جہاں تک میں جانتا ہوں یہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے۔‘‘
دیکھیے کہ جرم کتنا بڑا ہے لیکن رسولؐ اللہ کی محبت آمیز تڑپ کیسی ہے۔ وہ تو بتوں کو پوجنے والے مشرکوں کے لیے بھی شدید تڑپ رکھتے تھے۔ دعوت کا کام کیسی لگن اور اپنائیت سے انجام دیتے تھے۔
یہ ہے اسوۂ رسولؐ… اللہ کے رسولؐ کا طریقہ… لہٰذا لوگوں میں برائی نہیں بھلائی تلاش کیجیے، اس کو یاد رکھیے، اس کا انہیں بھی احساس دلایئے۔ یوں آپ فرد کے اندر دفن خیر کو نکال لائیں گے۔ یاد رکھیں کہ شر کا درخت اسی صورت میں اکھاڑا جا سکتا ہے جب خیر کے بیج کی آبیاری خلوص، لگن اور اپنائیت سے کی جائے۔ اللہ ہم سب کو اپنے لیے خزانے تلاش کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
(انچارج صفحہ خواتین)

حصہ