سراپا شفقت، درویش صفت حکیم محمد سعیدؒ

340

پاکستان بننے کے بعد ایک لڑائی ختم ہوئی تو دہلی کے ایک امیر گھرانے میں ایک نئی ’جنگ‘ شروع ہوگئی۔ اس کا ایک نوجوان یہ کہتے ہوئے ’’یہاں جس انداز کی حکومت ہے اس کی تابعداری نہیں کی جا سکتی‘‘ پاکستان جانے پر تُلا تھا۔ والدہ اور بڑا بھائی سمجھا سمجھاکر ہار مان چکے تو اجازت ملی۔
’’اب جا ہی رہے ہو تو یہ چادر اور تکیہ میری نشانی کے طور پر اپنے ساتھ رکھنا‘‘، ماں نے ایک گٹھڑی بڑھاتے ہوئے کہا، جو اس نے نم آنکھوں کے ساتھ تھام لی۔ اس ’نشانی‘ نے ہی کچھ عرصے بعد زندگی بدل ڈالی۔ اس کے بعد اس نوجوان نے واپس پلٹ کر نہیں دیکھا اور عمر بھر پاکستان نہیں چھوڑا، حتیٰ کہ پاکستان کے لیے جان دے دی۔ یہ نوجوان حکیم محمد سعید تھے جنہوں نے ہمدردی سے بھرپور ’ہمدرد دواخانہ‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی ان کے طے کیے ہوئے خطوط پر خدمات بجا لا رہا ہے۔
تعارف
پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے 9 جنوری 1920ء کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ دو برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا، پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔ لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
حکیم محمد سعید کے آبائی خاندان کا تعلق چین کے شہر سنکیانگ سے تھا جو سترہویں صدی کے اوائل میں پشاور منتقل ہوا، پھر ملتان اور وہاں سے دہلی منتقل ہوا، اور حوض قاضی میں رہائش پذیر ہوا۔
ابتدائی زندگی
حکیم سعید، حکیم عبدالمجید کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ دو سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ اٹھ گیا۔ ان کی تربیت والدہ اور بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے کی۔
تعلیم
حکیم سعید کو صحافت کی طرف رغبت تھی مگر بڑے بھائی کے کہنے پر حکمت کی طرف آگئے۔ انہوں نے 1936ء میں طبیہ کالج دہلی میں شعبہ طب میں داخلہ لیا۔ 1940ء میں تعلیم مکمل کرکے بطور معالج کام شروع کیا۔ انہی دنوں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور آزادی کی جدوجہد زور پکڑنے لگی جس نے ان کے اندر بھی تحریک پیدا کی۔
پاکستان آمد
تقسیم کے ساتھ ہی انہوں نے برملا کہنا شروع کردیا کہ ’’میں مزاجاً پاکستانی ہوں، یہاں رہنا مشکل ہوگا‘‘۔ وہ پاکستان جاکر مسلمانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ٹھیک 72 برس قبل 9جنوری 1948ء کو حکیم سعید بیوی، بیٹی اور ماں کی دی گئی ’نشانی‘ لیے دہلی سے نکلے اور کراچی پہنچ گئے۔ جب وہ پاکستان پہنچے تو کسی امیر خاندان کے چشم و چراغ نہیں بلکہ ایک عام سے انسان تھے۔ خالی ہاتھ، سب کچھ بھائی کو سونپ آئے تھے۔
’ہمدرد مطب‘ کا قیام
شہزادہ سدارتھ کی طرح وہ سب کچھ خیرباد کہہ کر جب کراچی آئے تو دہلی میں پیکارڈ کار پر سفر کرنے والے محمد سعید نے اپنے ساتھ لائی ہوئی روح افزا اور گرائپ واٹر کی شیشیاں بیچنے کے لیے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا، یہاں تک کہ ان کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے۔ پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان، اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کر اپنے کام کا آغاز کیا، پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فائونڈیشن کی راہ ہموار کی، اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمت کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔ یہاں رہائش کے مسائل بھی تھے اورغم روزگار بھی۔ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھے، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا۔ کچھ روز بعد بارہ روپے ماہوار پر ایک دس بائی دس کا کمرہ حاصل کیا اور وہیں مطب کی بنیاد رکھی۔ کاغذ پر ’ہمدرد مطب‘ اپنے ہاتھ سے لکھ کر لگایا۔
ماں کی نشانی جو نعمت ثابت ہوئی
ماں کی چادر اور تکیہ انہوں نے ہمیشہ اپنے پاس رکھا۔ اسی تکیے پر سوتے۔ شروع کے سخت ایام میں ان کی اہلیہ نعمت بیگم نے تکیے کا غلاف دھونے کے لیے اتارا اور ہاتھ سے روئی کو ٹھیک کیا تو محسوس ہوا کہ اس میں کچھ ہے۔ انہوں نے کھول کر دیکھا تو اندر نوٹ تھے جو قریباً 25000 روپے تھے۔ انہوں نے حکیم سعید کو دکھائے تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہیں یہ بات سمجھ میں آئی کہ ماں نے یہ نشانی کیوں دی تھی۔ اسی پیسے سے، جو اُس وقت خاصی بڑی رقم تھی، انہوں نے مطب اور دواخانے کو وسعت دی اور دوسرے شہروں میں بھی شاخیں کھولیں۔ کام وسیع ہوتا گیا، ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی شہرت پھیلتی گئی۔
مطب کے معمولات
حکیم سعید کی خاص بات یہ تھی کہ وہ فیس نہیں لیتے تھے، مستحق مریضوں کو دوائی بھی مفت دیتے، بلکہ کچھ مریضوں کی پرچیوں پر لکھ دیتے کہ ’’دوائی دینے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کردی جائے۔‘‘
بچے ان کی کمزوری تھے، ان کی دراز میں ٹافیوں کے پیکٹ اور کھلونے پڑے ہوتے، کسی مریض کے ساتھ بچہ ہوتا یا مریض ہی بچہ ہوتا اُن کو وہ چیزیں دیتے۔ مریضوں سے انتہائی نرمی سے بات کرتے اور موقع کی مناسبت سے کوئی چٹکلہ بھی سنا دیتے جس سے مریض اپنا مرض بھول جاتا۔
حکیم سعید کہا کرتے تھے ’’معالج میں روحانیت کا عنصر ہونا چاہیے، جب وہ نبض چھوتا ہے تو انگلیوں سے شعاعیں نکل کر مریض میں منتقل ہوجاتی ہیں، اگر معالج پاک باز ہوگا تو مریض شفایاب ہوگا۔‘‘
وہ روزے کے حامی تھے اور رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے سخت خلاف تھے بلکہ یہاں تک کہا کرتے تھے کہ ’’میرا بس چلے تو لنچ پر پابندی لگا دوں۔‘‘
وہ کہتے تھے ’’تین وقت کا کھانا انسانی جسم اور ضروریات کے حساب سے مناسب نہیں۔ اس سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
گورنر ہاؤس نہیں، دواخانہ
’’اس عہدے کی وجہ سے میں مریضوں کی بہتر خدمت نہیں کر پا رہا‘‘، یہ جملہ انہوں نے گورنر سندھ کا عہدہ ملنے کے محض ایک ماہ بعد استعفے کے طور پر لکھا جسے تین ماہ بعد منظور کرلیا گیا، حالانکہ انہیں گورنرشپ پانچ سال کے لیے دی گئی تھی۔ وزارت ملنے کے بعد بھی مطب جانے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔
ہمدرد یونیورسٹی کا قیام
انہوں نے ہمدرد دواخانہ، ہمدرد فاؤنڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے ادارے قائم کیے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے 14 اگست 1958ء کو ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا، جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔ حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔
بچوں کا نونہال
حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھیرے۔ انہوں نے بچوں کی تربیت کے لیے رسالہ ’ہمدرد نونہال‘ جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگراموں کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لیے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردیے۔
ستارہ امتیاز
خدمات کے صلے میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
یوم وفات
سراپا شفقت اور امن، درویش صفت حکیم سعید، جن کی کسی سے دشمنی نہیں تھی، 17 اکتوبر 1998ء کو ان کا جسم اُس وقت گولیوں سے چھلنی کردیا گیا، جب وہ اپنے مطب جا رہے تھے۔ وہ اس وقت بھی روزے کی حالت میں تھے۔ حکیم سعید کے قتل کا سانحہ آج بھی پاکستان کے اُن بڑے حادثات میں شامل ہے جو منطقی انجام کے منتظر ہیں۔

حصہ