ضد

209

آٹھ سالہ ریان جنگل کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے شہر میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کو سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا، آج بھی ریان ٹیوشن پڑھ کر گھر آیا اور سائیکل نکال کر گھر سے باہر جانے لگا تو اس کی امی نے آواز دے کر روکا ’’بیٹا مغرب کا وقت ہونے والا ہے، جلدی اندھیرا پھیل جائے گا، اب کل سائیکل چلانا۔‘‘
’’امی علی باہر میرا انتظارکررہا ہوگا۔ وعدہ کرتا ہوں کہ جلدی آجاؤں گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ امی کی بات سنی اَن سنی کرکے نکل گیا۔ ریان نے علی کے گھر کے باہر جاکر آواز لگائی تو علی دروازے پر آکر بولا ’’یار! بہت اندھیرا ہوگیا ہے۔ امی منع کررہی ہیں۔ میں نہیں آسکتا۔‘‘
’’تو کیا ہوا! میری امی بھی منع کررہی تھیں لیکن میں ضد کرکے آگیا، تم بھی آجاؤ۔‘‘ ریان بولا۔
’’ریان یہ بری بات ہے۔ امی کا کہنا نہیں ٹالنا چاہیے۔ اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ سوری، میں تو اب کل ہی آؤں گا۔ اور ہاں کل تم جلدی سے سبق یاد کرلینا تاکہ جلدی چھٹی مل جائے۔ آج بھی تمہاری وجہ سے دیر ہوئی، میں تو کب سے تمہارا انتظار کررہا تھا۔‘‘
یہ سن کر ریان کا موڈ تھوڑا اور خراب ہوگیا۔ وہ ناراضی سے بولا ’’تمہیں نہیں آنا تو نہ آؤ، لیکن بہانے نہ کرو۔‘‘ یہ کہتا ہوا وہ تیزی سے سائیکل چلاتا آگے بڑھ گیا۔
اسے ویسے ہی دیر سے چھٹی دینے پر باجی پر غصہ تھا، پھر امی نے بھی ٹوکا، اور جب علی نے بھی منع کیا تو اسے بے حدغصہ آگیا اور غصے میں یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ سائیکل چلاتا ہوا کہاں تک نکل آیا ہے۔ جب اس کا غصہ کم ہوا تو اسے احساس ہوا، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ خوف سے اس کی ٹانگیں کانپ گئیں کہ پیچھے سڑک بادلوں میں دھندلا گئی تھی اور آگے دیکھا تو وہاں سے بڑے درخت تھے۔ اس نے زور زور سے آوازیں لگائیں ’’کوئی ہے؟‘‘ مگر کوئی جواب نہ آیا۔
آہستہ آہستہ اندھیرا بڑھا تو اس کے خوف میں بھی اضافہ ہوگیا اور وہ رونے لگا۔ اسے خیال آرہا تھا کہ امی کی بات نہ مان کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی تھی، اور علی نے بھی تو ٹھیک ہی کہا تھا۔ اسی نے ٹیوشن میں باتیں کرنے میں سارا وقت ضائع کردیا تھا اور سبق یاد کرنے میں دیر ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے سب سے آخر میں چھٹی ملی۔ اب اس کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے تو وہ دوسروں پر ہی غصہ کرتا تھا۔ اس نے درخت سے ٹک کر بیٹھتے ہوئے سر گھٹنوں میں دیا اور اللہ سے اپنے رویّے پر توبہ کرنے لگا ’’اب میں کبھی ایسی بدتمیزی نہیں کروں گا بلکہ امی اور علی سے بھی معافی مانگ لوں گا۔‘‘
وہ آنکھیں بند کیے دعا مانگ ہی رہا تھاکہ اسے لگا امی اس کا سر سہلا رہی ہیں۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ واقعی امی ہی اس کے سرہانے کھڑی کہہ رہی تھیں ’’بیٹا! صوفے پر ہی سوگئے تھے۔ چلو اٹھو شاباش! کھانا کھا لواور ناراضی ختم کرو۔‘‘
’’ارے ہاں! میں تو امی کے منع کرنے پر ناراض ہوکر صوفے پر لیٹ گیا تھا۔ شاید میری آنکھ لگ گئی‘‘۔ پھر اس نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ خواب تھا، اور وعدہ کیا کہ اب کبھی کسی پر غصہ نہیں کروں گا اور ہمیشہ امی کا کہا مانوں گا۔

حصہ