پی ڈی ایم کا سوشل میڈیا

299

موجودہ حکومت نے بڑی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے ’مخصوص متفقہ موقف ‘پر قدم بڑھائے۔27نکاتی سخت شرائط کو اسمبلی سے قبول کراکے ایف اے ٹی ایف کی بلیک یا گرے لسٹ کی لٹکتی تلوار سے کچھ عرصہ کے لیے جان چھڑا لی ۔اس ہفتہ سوشل میڈیا پر یہ موضوع بھی نمایاں رہا ۔اس میں نیا موڑ بدھ کو معروف صحافی صابر شاکر کے یو ٹیوب چینل پر ڈالے گئے وی لاگ کی صورت نکلا اور جمعرات کو سعودی عرب کے ٹرینڈ کے ساتھ سے پھیلتا چلا گیا۔ صابر شاکر نے خبر یہ اڑائی گئی کہ FATFوالے معاملے پر سعودی حکومت نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا بلکہ ترکی کو بھی ترغیب دلائی کہ وہ پاکستان کے خلاف ووٹ دے ۔ایک جانب یہ تڑکا اور ویڈیو دعویٰ دوسری جانب اگلے روز دفتر خارجہ کی جانب سے اسکی تردید آگئی۔اسی کے ساتھ بلیک لسٹ انڈیا مہم بھی سوشل میڈیا پر مختلف ہیش ٹیگ کی صورت ٹرینڈ بنا کرچلائی گئی جس میں بھارتی مظالم ، کلبھوشن اور دیگر بھارتی مظالم کو بطور بیانیہ پیش کیا گیا۔
پچھلے ہفتہ ملکی سیاسی منظر نامے یا حکمرانوں کے حواس پر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بعنوان پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم چھایارہا۔ بات جمعہ کوگجرانوالہ جلسے سے چلی اور ٹائیگر فورس کے لیے وزیر اعظم کے خطاب سے ہوتی ہوئی کراچی جلسے تک گئی ۔ہفتہ کے روز اخبارات میں حکومتی تعریف پر مشتمل بڑے بڑے اشتہارات بھی سوشل میڈیا کا موضوع بنے اور ماضی میں وزیر اعظم کے کیے گئے دعوے یاد دلائے گئے ۔کراچی جلسہ کے اگلے ہی روز ایک نیا ڈرامہ شروع ہوا جس نے اپوزیشن کو مزید نمایاں کرنے اور ہر جگہ مظلومیت کی آڑ میں ڈسکس ہونے کا موقع فراہم کیا۔یہاں تک کہ پی ڈی ایم کے جلسہ میں بلوچستان کی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے اردو زبان کی تضخحیک کا معاملہ بھی ا س شور میں دب گیا۔میاں نواز شریف کی بیٹی وداماد کراچی آئے مزار قائد پر حاضری دی جہاں جوشیلے کارکنا ن کے ساتھ داماد صاحب نے نعرے بازی کی ۔کچھ گھنٹے بعد مزار کی اس مبینہ بے حرمتی کے جرم میں تحریک انصاف کے ایک کارکن نے کیپٹن صفدر یعنی سابق وزیر اعظم کے داماد کے خلاف پرچہ بھی کٹوا دیا۔جلسہ تک تو سب چل گیا اگلی صبح مختلف ذرائع سے سوشل میڈیا پر مختلف جھوٹی خبروں یا افواہوں کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ کام لگ رہا تھا کہ منصوبہ بندی سے ہو رہا ہے۔ اسی میں بلاول بھٹو کی ایڈٹ شدہ تقریر کی کلپ بھی باہر آگیا جس میں بلاول نے انڈوں کو کلو کی قیمت سے پکارا۔بہر حال سندھ پولیس نے مسلم لیگ ن کے قائدین کی رہائش گاہ والے ہوٹل میں جا کر اُن کو گرفتار کر لیا۔یہ اب ایک ایسا کام ہوا جو کہ کسی طور کوئی حیرت انگیز کام نہیں تھا۔پاکستان بھر کی پولیس مشہور ہے اپنی بدمعاشی پر، ایک سپاہی سے لے کر آئی جی تک سب اپنی دانست میں بادشاہ ہیں۔پولیس مقابلوں ، گرفتاریوں ، ڈکیتیوں ، منشیات سمیت کونسا ایسا کام ہے جو پولیس سے منسوب نہیں۔ کسی بے گناہ کو گرفتار کرنا یا ملزم کو یا مجرم کو گرفتار کر کے چھوڑدینا ، عدالت سے فرار کروانا، سب معمول کے کام ہیں۔یہ کرنے کی مرضی ہو یا نا ہو، افسر بالا کا حکم ہو کہ نا ہو جو کچھ پولیس کرتی ہے سب واقف ہیں۔اسی سوشل میڈیا پر بے شمار کہانیاں ڈسکس ہوئی ہیں۔بس اس بار فرق یہ تھا کہ آئی جی کو کسی نے جبری طور پر مجبور کیا کہ صفدر کو گرفتار کیا جائے ۔گرفتاری تو ہو گئی اسکے بعد ردعمل شروع ہوا ۔پیپلز پارٹی نے ہاتھ اُٹھا لیے کہ ہمیں کچھ نہیں پتہ ، ہم سے پوچھ کر نہیں ہوا۔بس پھر کیا تھاسوشل میڈیا پر اچانک سے پولیس کے افسران بالا کی ایک ایک ،دو دو ماہ کی چھٹی کی درخواستیں وائرل ہوتی نظرا ٓئیں۔کیا آئی جی، کیا ڈی آئی جی، کیا ایس ایچ او سب ایک ہی راگ الاپ رہے تھے کہ ہمیں ’تنخواہ کے ساتھ‘ چھٹی دی جائے کہ پولیس کا مورال بہت گر گیا ہے ۔آئی جی کے اغوا پر خوب شور مچا یا گیا، بلاول زرداری ، وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس ، سندھ حکومت کی انکوائری کمیٹی کے اقدامات کے ساتھ سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں بھی یہ معاملہ مستقل گرم رہا۔ کسی نے کہاکہ کیپٹن صاحب تو گیارہ گھنٹے میں ضمانت پر چھوٹ گئے پی ڈی ایم کو پورا ہفتہ ڈسکس ہونے اور ابلاغ عامہ سے اثر انداز ہونے کا اچھا موقع دیا گیا ۔ یہی نہیں بلکہ جہاں ایک جانب پولیس کے گرتے مورال پر خوب تنقید کی گئی وہاں سندھ رینجرز کو بھی نکالنے کے لیے ایک ہیش ٹیگ sendbackSindhRangersfromSindhبھی لانچ کیا گیا ۔ رینجرز پر خوب تنقید اور پرانی ویڈیوز نکال کر ٹرینڈ بنایا گیا اور پیغام دیا گیا ۔دوسری جانب پولیس کے لیے WestandwithSindhPoliceکا ہیش ٹیگ ایک دن قبل ٹرینڈ بنا تھا۔ان کے جواب میں ’فوج ہے تو پاکستان ہے ‘ اور پھر ’پاک آرمی وی سیلیوٹ یو‘‘کےعلاوہ NationlovesPakArmy جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں آگئے ۔ اب آپ اس ترتیب سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیسی گرم جنگ جاری رہی ہے ۔
مریم نواز نے ٹوئیٹ میں پولیس کو شاباش دیتے ہوئے کہاکہ’دھونس اور جبر کے سامنے جھک جانے سے انکار کرتے ہوئے پوری سندھ پولیس نے چھٹی کی درخواست دے دی۔ اداروں کو تباہ کرنے کا راگ الاپنے والوں کو اچھے سے پتہ چل گیا ہو گا گیا ادارے کیسے تباہ ہوتے ہیں اور ان کو کون تباہ کرتا ہے۔ شاباش سندھ پولیس۔ ہمیں آپ پر فخر ہے‘۔ تحریک انصاف کے سرگرم سوشل میڈیا کارکن انور لودھی لکھتے ہیںکہ ’سندھ پولیس کا ضمیر صحیح وقت پر کبھی نہیں جاگتا۔ عزیر بلوچ کے مطابق اس نے قتل کرنے کےلیے پولیس کی گاڑی کا استعمال کیا اور اپنے اثرورسوخ سے پولیس افسران کےتبادلے کروائے۔ عزیر بلوچ کے اعتراف کےبعد ان پولیس افسران کا ضمیر نہیں جاگا۔ کیپٹن صفدر کی قانون کےمطابق گرفتاری پر جاگ گیا؟‘ اسی طرح جو لوگ کراچی میں 30-35سال قبل کے حالات جانتے تھے اُنہوں نے کہا کہ ’شکر کرو سیکٹر کمانڈر کے پاس گئے اگر سیکٹر انچارج کے پاس چلے جاتے تو نہ جانے کیا حال ہوتا؟‘۔ معروف صحافی حامد میر نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھاکہ ’سندھ پولیس کے بڑے بڑے افسران نے اپنی بے عزتی کے خلاف چھٹی کی درخواست دیدی تو ایس ایچ او تھانہ شاہراہ نور جہاں نے سوچا کہ وہ پیچھے کیوں رہے اس نے بھی دو ماہ کی چھٹی مانگ لی ہے تا کہ وہ اس صدمے سے باہر آ سکے جو اسکے سینئر افسران کی بے عزتی سے پیدا ہوا۔‘ اہم بات یہ تھی کہ تمام چھٹی کی درخواستوں کا مواد ایک جیسا ہی تھا ۔بعد ازاں سندھ پولیس کے آفیشل اکاؤنٹ سے 20اکتوبر کوٹوئیٹ سے اطلاع ملی کہ آئی جی سندھ نے قومی مفاد میں چھٹی کی درخواست دس روز کےلیے موخر کر دی ، ساتھ ہی آرمی چیف کا واقعہ پر نوٹس لینے پر شکریہ بھی ادا کیا گیا۔اِسی طرح صورتحال کا فائدہ پاکستان دشمنوں نے ہمیشہ کی طرح اٹھایا اور بھارتی میڈیا نے بھرپور افواہی جنگ لڑتے ہوئے خاصی افواہیں پھیلائیں جن میں ’سول وار ان کراچی ‘ بھی تھی ، حقیقت ٹی وی نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ’بھارتی میڈیا کے مطابق اس وقت تک سندھ حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے فوج نے ہر پولیس سٹیشن میں فوجی تعینات کر دئے ہیں اور کسی بھی وقت فوج کے نمائندے پارلیمنٹ پر قبضہ کر سکتے ہیں۔‘ ایک ٹوئیٹ میں اس جانب اشارہ دیا گیاکہ ’ڈیلی ڈان نے آج کے اداریہ میں آئی جی سندھ اور سندھ پولیس کی بےتوقیری کو ناقابلِ برداشت قرار دیا مگر اپنی پیشانی پر ہر روز قائداعظمؒ کی تصویر شائع کرنے والا ڈان یہ بات لکھنی بھول گیا کہ قائداعظمؒ کے مزار کی بیحرمتی قابل برداشت ہے۔‘ کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے ہوئی اسلیے دو دن بعد واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نشر ہوئی تو سب نے پی ڈی ایم کی جانب سے پولیس گردی ، دروازہ توڑنے زدو کوب کرنے وغیرہ کے لگائے گئے الزامات کی حقیقت دیکھ لی اور PDMExposedکے نام سے ٹرینڈ بنا۔یہی نہیں بلکہ CCTVکے نام سے بھی ایک ٹرینڈ لسٹ میں شامل ہوا مگراس میں دنیا بھر سے اس موضوع پر مواد ڈلتا رہا ۔فواد چوہدری ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ ’چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کرنے کا بدترین واقعہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس گردی تھی،بے گناہ لوگ جن میں حاملہ خاتون بھی شامل تھیں پولیس گردی کا نشانہ بنیں۔ صفدر کی گرفتاری کو چادر اور چار دیواری کی پامالی کہنا تو مذاق ہے خصوصاْ اس گروپ کی طرف سے جو ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ہے‘۔بہر حال یہ معاملہ حکومت و اپوزیشن کے درمیان مختلف اشکال میں جاری رہے گا ، دونوں جانب سے سوشل میڈیا کو متحرک انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔پی ڈی ایم کراچی جلسہ کے کوئی تین چار ہیش ٹیگ ٹرینڈ کی صورت سارادن چلتے رہے ، یہاں تک کہ لاہور میں حفیظ سینٹر خاکستر ہو گیا مگر نیوز چینل کے بلیٹن میں یہ تباہی کی خبر آخر آخر میں آتی رہی۔
کراچی میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام حقوق کراچی مارچ کے بعد ریفرنڈم 16-21اکتوبر جاری رہا ۔مہم کا مقصد کراچی کا مقدمہ لڑتے ہوئے کئی دہائیوں پر محیط زیادتیوں کےخلاف عوامی آگہی کا کام کیاگیا۔جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے کئی ہیش ٹیگ روزانہ کی بنیاد پر متعارف بھی کرائے گئے ۔ایسے ہی اس شور میں سوشل میڈیا پر جہاں ربیع الاول اُس طرح نہیں منایا جا سکا اسی طرح فرانس میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور ایک مسجد پر لگنے والی بے جا پابندی والے واقعہ کو بھی اہمیت نہ مل سکی۔اظہار رائے کے موضوع پر فرانس کے ایک اسکول میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے کا عمل کیا ، بات پھیلی اور مذکورہ استاد کے خلاف اس اسکول میں پڑھنے والی ایک بچی کے والد نے اُستاد کی جانب سے نفرت و تعصب پر مبنی حرکت پر ایک آن لائن مہم چلائی تھی۔وزارت داخلہ کے مطابق اس مسجد کو بدھ کی شب اگلے چھ ماہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہےکہ اس مسجد میں قریب 15 سو نمازی آیا کرتے تھے۔ وزیرداخلہ گیرالڈ ڈارمانی نے کہا ہے کہ جمہوریہ فرانس کے دشمنوں کو ایک منٹ بھی دستیاب نہیں ہو گا۔مذکورہ استاد کی حرکت کے خلاف چلائی گئی آن لائن مہم ایک چیچن مسلمان کو اُس شخص کے قتل کی جانب لے گئی۔استاد کے قتل کے واقعے کے بعد پولیس نے پیر کے روز سے ملک بھر خصوصاً پیرس اور اس کے نواحی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں گیس لیکیج سے تباہ ہونے والی عمارت بھی ایک دن کچھ دیر کے لیے موضوع بنی۔اسکے علاوہ بٹ کوائن ، ٹک ٹاک اور پب جی کے حق میں وقار ذکائ کی مہم ا س ہفتہ بھی زور و شور سے جاری ر ہی ۔

حصہ