پانی سے کڑھے رنگ

801

جون 2006 میں جب صابر ظفر صاحب کا مجموعہ ’’سانول موڑ مہاراں‘‘ شائع ہوا تو اس کے فلیپ پر ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں ’’صابر ظفر مشاق اور پر گو شاعر ہیں، پچھلے تیس‘ پینتیس برس سے مسلسل شعر کہہ رہے ہیں اور دل چسپ بات یہ ہے کہ آج بھی ان کی شاعری میں تھکن کا احساس نہیں ہوتا اور یہ یقینا بڑی بات ہے۔‘‘ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک ایسا مجموعۂ کلام ہے جسے آج کے خوش ذوق قاری کے ساتھ ہمارے شعرائے کرام کو بھی پڑھنا چاہیے۔‘‘ہمیں جالبی صاحب کی یہ سطور دہرانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں شائع ہونے والا صابر ظفر کا 43 واں مجموعۂ کلام ’’جمالِ آب سے وصال‘‘ پڑھنے کے بعد یہ مضمون لکھنے کا خیال آیا۔ جالبی صاحب نے یہ سطور آج سے 14 برس قبل تحریر کی تھیں، آج 2020 میں بھی جب صابر ظفر کے تازہ مجموعے کو پڑھا تو سب سے پہلا خیال یہی آیا کہ عام قاری کے ساتھ ساتھ آج کے نوجوان شعرا کو بھی اس شاعری کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
صابر ظفر کے نئے مجموعۂ کلام کا بنیادی استعارہ ’’پانی‘‘ ہے۔ مجموعے کے مطالعے کے وقت دو مضامین بھرپور احساس کے ساتھ قاری کو جگہ جگہ رکنے اور سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں، ایک تو پانی جیسا عنصر جسے صابر ظفر نے الگ الگ انداز میں کہیں علامت، کہیں استعارہ تو کہیں زندگی کی بنیادی ضرورت و اکائی کے طور پیش کیا اور دوسرا سامراجی ظلم و استبداد کے خلاف اپنی شعری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک حساس شاعر ہونے کا ثبوت بھی پیش کیا۔ یہ دونوں موضوعات یعنی پانی اور ظلم دورِ حاضر کے مسائل کو اجاگر کرتے نظر آئے جہاں کہیں ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کا لہجہ عام آدمی کی نمائندگی کرتا دکھائی دیا تو کہیں جمال آب سے وصال جیسی خالص شعری تراکیب رومانوی اور عشقیہ داستانوں کو اپنے اندر سمیٹتی دکھائی دیں۔ اس مجموعے میں یہ امتزاج نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ لفظیات کی انفرادیت اسے دور حاضر کی اس جدید حسیت سے جوڑے رکھتی ہے جس کا روایتی تعلق اپنا سفر کرتے ہوئے میرؔ و غالبؔ سے صابر ظفر تک پہنچا ہے۔ غزل کا آہنگ اور ڈکشن صابر ظفر کے پچھلے چالیس‘ پچاس برس کے شعری تجربے کا نچوڑ بھی ہے اور موجودہ عہد کے ساتھ مضبوطی سے پیوست بھی۔ مجموعے میں غزل اپنے خالص انداز میں جلوہ گر ہے، جہاں محبوب کی مختلف صورتیں ہمیں چمکتی دمکتی نظر آتی ہیں۔ یہ صورتیں کہیں تراکیب کے آئینۂ خانے میں ہزار سمت میں یک دم نمایاں ہوتی ذہن و نظر کو خیرہ کرتی ہیں تو کہیں صرف موہوم سے جھلک دکھلا کر قاری کو اپنے تعاقب پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ تعاقب کبھی کبھار سیدھا اور سہل راستہ ہوتا ہے تو کبھی بھول بھلیوں جیسا پیچ دار اور مشکل جس میں قاری کے کھو جانے کا امکان ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ صابر ظفر کے ہاں عشق، وصال کی منزل کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے، ادھر نہ محبوب کی بے وفائی کا دکھڑا ہے اور نہ ہی روتے پیٹتے محبوب کے لیے طعنہ زنی۔ اس مجموعے کی غزل میں جذبات اپنی تکمیل کو پہنچتے دکھائی دیتے اور سرشاری کی وہ کیفیت دکھائی دیتی ہے جو شاعر کے انتہا درجے کا رومان پرور ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ رومانویت، عشق و مستی غزل کی بنیادی صفات ہیں جو اس شعری مجموعے میں قدم قدم پر قاری کو ایک سرمستی کی کیفیت سے روشناس کراتی ہیں۔ ان غزلوں کی جڑیں روایت کی مٹی میں دور تک پھیلی دکھائی دیتی ہیں، ان میں ایک ایسا جوشِ نمو ہے جو سال کے ہر موسم کو اپنا بتلاتا ہے، موسموں سے طاقت کشید کرتا ہے اور پھر اشعار کی صورت میں مختلف رنگوں کے خوشنما پھولوں کی چادر تان لیتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:۔

حباب تیر رہا تھا جو آب کوثر پر
مؤدب ایسا کہ انداز تھا پرستش کا
رتجگا کرے رنگیں، لمس ناف سیمیں کا
ذکر پھر چھڑے کیا کیا، لذت مضامیں کا
خواہشیں جواں لہریں، دھڑکنیں کہاں ٹھہریں
شور گرم سسکی کا، زور موجِ نمکیں کا
٭
بے وجہ نہیں تھا مست موسم
سبزے کے وجود میں نمی تھی
٭
وہ بوسۂ ہائے لب نہ گنوں اور اگر گنوں
میرے حساب سے تو وہ تخمینہ اور ہے

صابر ظفر کا ایک اہم کارنامہ وہ جدید حسیت ہے جس سے وہ ہمہ وقت جڑے دکھائی دیتے ہیں، زود گوئی کے باوجود ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ روایت کا ساتھ نہ چھوڑیں اور جدت کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ یہ جدت آج کل کے اکثر شعراء کی طرح وہ انگریزی الفاظ یا سائنسی تراکیب میں نہیں تلاش کرتے ہے، بلکہ الفاظ کے استعمال سے نئے معانی اور معانی سے موضوع کا نیا رخ پیش کرتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کے ماحول سے جڑے رہنے اور طاقتور مشاہدے کی وجہ سے وہ اپنی غزل میں ایسا رنگ پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جس میں قاری نہ صرف اپنے عہد کی آسائش بلکہ اس کی مشکلات میں چھپے کرب کو بھی صرف محسوس ہی نہیں کرتا بلکہ خود پر بیتا ہوا جانتا ہے۔
بڑے شہر میں رہنے والا شاعر زندگی کو ایک مختلف اور مشکل انداز میں دیکھتا ہے۔ بڑے شہروں میں زندگی اس وقت سفاک ہوجاتی ہے، جب ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے بہ مشکل ہی ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوں، ملاقات کا یہ نہ ہونا صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ روحانی معنوں میں بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ کراچی شہر میں رہتے ہوئے صابر ظفر نے خود کو اس بڑے شہر کے ماحول میں ضم کرکے شاعری کی۔ ان کے ہاں صرف خواب وخیال اور فکشن ہی نہیں بلکہ ان مسائل کا ادراک بھی جو شہری زندگی میں فرد کو درپیش آتے ہیں۔ یہ مسائل روزمرہ کے ذاتی معاملات کے بھی ہیں تو شہری زندگی کی گوناگوں مصروفیات کے بھی۔ صابر ظفر نے اس مجموعے کی غزل میں جگہ جگہ اپنی قادرالکلامی کا ثبوت دیا ہے، غزل کا ایسا انداز تکلم جو اساتذہ کی روایت کے رنگ کو تروتازہ کرتا ہوا نظر آئے یہ کام آسان نہیں، غزل کہانی بیان نہیں کرتی، وہ تو ان لوگوں کے خیالات کی ترجمان ہے شش جہات میں سرگرداں رہتے ہوئے ہرج مرج کھینچتے ہیں، جو خود کہانی میں کوئی ایسا اساطیری کردار لیے ہوتے ہیں جو نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے بھی اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں

خواب دہراؤں میں کیسے کہ ان آنکھوں اندر
اک سلائی کی طرح خواب کی تعبیر پھرے
کام چلتا ہے کسی کا مجھے رسوا کرکے
مرے رد میں کوئی کرتا ہوا تقریر پھرے
٭
اپنی تجسیم کو پہنچا نہیں رشتہ کوئی
یعنی فی الحال ہے یہ، رشتے کا خاکہ رشتہ
٭
میں دے چکا ہوں وہ عبد الستار ایدھی کو
ملا خزانۂ درد اور بہت کثیر ملا
٭
نہیں رہا ہوں کسی آب جو سے میں غافل
کہ ڈوب ڈوب جیا اور تیر تیر جیا
٭

’’جمالِ آب سے وصال ‘‘کا بنیادی خیال ’’آب‘‘ یا ’’پانی‘‘ ہے۔ پانی زندگی ہے اور زندگی پانی کا ثبوت۔ صابر ظفر نے اپنے 43 ویں مجموعے میں پانی کو درجنوں مرتبہ بالکل نئے انداز میں برتا، کہیں استعارہ، کہیں علامت، کہیں اکائی تو کہیں ضرورت بنا کر۔ استادانہ انداز میں نئی تراکیب وضع کیں جن سے نئے معانی جنم لیتے دکھائی دیے۔ کہیں یہ چادرِ آب اور جمال آب دکھائی دیتا ہے تو کہیں موجِ ماورا، کہیں آب جوئے ملال تو کہیں آبِ پرشکن اور آبِ آزما۔ مختلف غزلوں میں دریا اور سمندر ردیف میں استعمال کیے۔اس مجموعۂ میں آپ کو جگہ جگہ پانی اور آب کی تکرار نظر تو آئے گی لیکن اس کے ساتھ انیسؔ کا یہ مصرع بھی ذہن میں گونجے گا
’’اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘
صابر ظفر کے ان آبی رنگوں میں آپ کو کہیں گدلا پن نظر نہیں آئے، کہیں کوئی ٹھہرا ہوا جوہڑ دکھائی نہیں دے گا بلکہ رواں اور شفافیت کے ساتھ بہتی ندی کی گنگناہٹ ملے گی یا پھر ایک پُر زور دریا‘ جو برف کے پگھلنے پر پہاڑوں سے گرتی آبشاروں سے تخلیق پاتا ہے یا موجوں بھرا نیلگوں سمندر جو ہر شے کو اپنے دامن میں سمونے کو بے تاب ہے۔ اس پانی میں آپ کو زندگی ملے گی، تہہِ آب چمکیلے قیمتی پتھر ملیں گے اور کناروں پر آباد پُر امن و پُر سکون بستیاں ملیں گی۔ جہاں جل تھل اور سیراب کرتی بارشیں ملیں گی وہیں تدبیر اور تدبر کی کمی و کجی کی وجہ سے بارش سے ہوئے نقصان کا ملال بھی۔ صابر ظفر قطرۂ آب میں زندگی کی اچھوتی تصویریں نہ صرف خود دیکھتے ہیں بلکہ ان کو enlarge کر کے اور مزید واضح کر کے اپنے قاری کو بھی دکھاتے ہیں۔ خیال کی چار سوتی چادر پر پانی سے تصویریں کاڑھتے صابر ظفر جمال آب سے وصال کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیے:۔

تم اوڑھ سکو تو اوڑھ لو
اک چادرِ آب سا پڑا ہوں
٭
آب جو آنسوؤں کی خشک ہوئی
اور پھر موجۂ نشاط چلا
٭
خاک ایسی روانیوں پہ ظفر
تشنگاں سے الگ فرات چلا
٭
ادھر سے ابر تو گزرا نہیں برستا ہوا
یہ کیسی آب رسانی ہے لہر سے آگے
٭
کچھ س سطرح سے کہ جیسے گرتا ہو جلتی آتش پہ سرد پانی
میں سرسراتا رہا ہوں جوئے وصال میں تیرتا رہا ہوں
٭
میں بوند بوند سرِ آب جُو مچلتا تھا
اچھالتا تھا کسی موج ماورا میں اسے
٭
تا دیر اس کے ساتھ رہا تھا میں گھاٹ پر
وہ جو لباس تن پہ نہیں تھا دھلا بہت
٭
پانی میں نہیں تھا کوئی پانی
شاید تھا سراب پانیوں میں
٭
پیغام رساں ہیں لہریں گویا
رکھ دی کتاب پانیوں میں

اس مجموعے کا دوسرا وصف مزاحمتی شاعری ہے، ظلم و جبر، معاشرتی ناہمواریاں، طاقتور اور کمزور کی جنگ اور سامراجی قوتوں کا جبر، ایک حساس شاعر اس کو کس انداز میں دیکھتا ہے صابر ظفر اسے خوب جانتے ہیں، کہیں ریاستی ظلم و زیادتی پر آواز اٹھائی گئی ہے تو کہیں قبیح قبائلی رسومات کے نام پر ہونے والے ظلم پر۔

ماتھے کو بڑھ کے چوم لیں مائیں تو عید ہو
کھوئے ہوئے اگر پلٹ آئیں تو عید ہو
٭
مت پوچھ مزاحمت کہاں ہے
یہ چیخ غنیم پر گراں ہے
٭
تم ایک تو ہو کوئی دوسرا بھی ہے کہ نہیں
نوا گری ہے بہت، ہم نوا بھی ہے کہ نہیں
٭

اس مجموعے میں صابر ظفر نے کئی جگہ اپنے مخصوص انداز میں دوسری زبانوں کے الفاظ بھی استعمال کئے اور ایک آدھ جگہ پنجابی کے تلفظ والا لفظ بھی بہ حالت مجبوریٔ وزن استعمال کیا لیکن اس کی وضاحت فٹ نوٹ میں کردی۔ اس کے ساتھ عام قارئین کے لیے مشکل الفاظ کے معانی بھی فٹ نوٹ میں درج ہیں تاکہ وہ لغت دیکھنے کی زحمت سے بچیں اور موقع پر ہی شعر کا لطف لیں۔اردو شاعری میں یہ مجموعہ اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے، خوش ذوق قارئین اور نوجوان شعراکے شعری سفر کو بڑھاوا دینے کے لیے کے لیے ایک اچھا انتخاب۔92 غزلیات سے مزین 128 صفحات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ ’’جمال آب سے وصال‘‘ رنگ ادب پبلی کیشنز کے تحت شائع کیا گیا، جس کے جملہ حقوق شاعر کی اولاد کے نام محفوظ ہیں۔ سرورق جناب سجاد خالد کی خطاطی کے ساتھ سادہ مگر پروقار ہے۔ پانی کے رنگ کی نسبت سے سرورق کا رنگ نیلا ہے۔

حصہ