اندھیری سرنگ

585

موسلا دھار بارش کی بوندیں ہتھوڑوں کی طرح گاڑی پر گر رہی تھیں۔ گہرے بادلوں نے دن میں رات کا سماں بنایا ہوا تھا۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس دھند کی چادر کو بس کچھ دور تک کاٹتیں، پھر غلاف کی طرح سفید دھواں سڑک کو نگل لیتا۔
لگتا تھا گاڑی آسمان پر بادلوں میں تیر رہی ہو۔ اباجان کے ہاتھ اسٹیئرنگ پر اس سختی سے جمے تھے کہ رگیں مکڑی کے جال کی طرح ابھری نظر آتیں۔ صائمہ نے اپنی انگلی کھڑکی پر جمی دھند پر پھیری، لیکن وہ باہر کی جانب تھی۔ وائپر بجلی کی سی رفتار سے کھٹا کھٹ چل رہے تھے۔
’’ابا گاڑی کنارے پر روک لیجیے۔‘‘ اس نے بے چینی سے کہا۔
’’گڑیا! صحرا کی مٹی گیلی ہوکر خطرناک ہوجاتی ہے۔ بارش نہ جانے کب تھمے! پھر رکنے میں یہ بھی خطرہ ہے کہ پیچھے سے آنے والی گاڑی ٹکرا نہ جائے۔ بس اب چلتے ہی رہنا ہے۔‘‘ ابا نے پُرسکون لہجے میں کہا۔ پھر نظریں لمحے بھر کو ونڈ اسکرین سے ہٹاکر بیک مرر کے ذریعے اس پر ڈالیں۔ اس کی آنکھیں خوف سے کھنچ سے گئی تھیں۔ گہری سانس لے کر ابا دھیرے دھیرے گنگنانے لگے:
’’بارش کا موسم…صحرا کی خوشبو…دھیمے سے سانسوں میں سمائے… مجھ سے کہے آئو چلو…کہیں دور چلیں… جہاں ہوں پکوڑے‘‘
نوین کھکھلا کے ہنسی۔ ’’ابا! پکوڑے نہیں، مجھے تو سموسے کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘
’’نہیں، کڑھائی کی…‘‘ چٹوری خولہ نے چٹخارے لے کر کہا۔
’’اماں اماں بتائیے گھر جاکر کیا پکائیں گی؟ پکوڑے، سموسے یا کڑھائی؟‘‘ نوین نے ہلکے سے ہاتھ سے آگے سیٹ پر بیٹھی اماں کو ہلایا۔
’’ارے کیا ہوا بھئی، کیوں نیند خراب کردی ہماری!‘‘ اماں نے خفگی سے گردن موڑ کے ان تینوں کو گھورا۔ اماں کی نیند ایسی ہی تھی۔ اِدھر سر کو کوئی سہارا ملا اُدھر آنکھیں بند ہونا شروع، اور لمحوں میں میٹھی نیند کی آغوش میں ہوتیں۔
’’ہمیں کھانے ہیں سموسے، ابا کو پکوڑے، ان کو کڑھائی۔ کیا بنے گا آج آپ کے باورچی خانے میں؟‘‘ابا کی طرح خولہ نے گنگنا کے پوچھا۔
’’ہم تو تھک گئے ہیں۔ اتنا لمبا سفر دہران سے حفرالباطن کا۔ بس گھر جا کے آرام کریں گے۔ سنیے، راستے سے کچھ لیتے چلیے گا۔‘‘ اماں نے لاڈ سے دھند کی چادر اوڑھے سڑک پر بہ مشکل گاڑی چلاتے ابا سے کہا۔
’’جو حکم ملکہ عالیہ!‘‘ ابا نے مزاحیہ انداز میں کہا۔ وہ اکثر اماں کو ملکہ کہتے۔ اماں تھیں بھی ابا کی ملکہ، اور وہ تینوں شہزادی بیٹیاں۔ تیز برستی بارش، ہائی وے پہ پیچھے سے آتی گاڑیوں کے ہارن کی آوازیں، دھندلاتی ہوئی ونڈ اسکرین۔ ابا کے مضبوط اعصاب مشکل سے مشکل حالات میں ساتھ نہ چھوڑتے۔ سب بوجھ وہ اپنے اوپر لے کر لاڈلی بیگم اور بیٹیوں کی ہر طرح نگہبانی کرتے۔
گاڑی ہلکی رفتار میں آگے بڑھ رہی تھی۔ ابا کی گنگناہٹ میں خولہ اور نوین کی آوازیں بھی شامل ہوگئیں۔ صائمہ نے تھوڑی دیر صبر کیا اور پھر وہ بھی شروع ہوگئی۔ ابا مطمئن سے ہوکے اب خاموشی سے گاڑی چلا رہے تھے۔ بچیاں اپنا خوف بھول بھال کر اب آپس میں لڑ رہی تھیں کہ کس کی آواز زیادہ بے سُری ہے اور کس کی کم۔
کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ گاڑی ایک دم لرزی، تینوں بچیاں خاموش ہوگئیں، ابا نے فور وہیلر کو اپنی تمام مہارت استعمال کرتے ہوئے ہائی وے سے ذرا نیچے کچے میں اتار دیا۔ بارش کے شور نے ٹائر پھٹنے کی آواز دبا دی تھی۔ معجزہ ہی تھا کہ بجائے بریک لگانے کے ابا نے گاڑی کی سمت بدل دی۔ وہ سب دم بخود بیٹھے تھے۔ ابا خاموشی سے اتر کر جائزہ لینے لگے۔ ٹائر کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ اب بارش رکنے کے انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بارش کب تھمی، ٹائر کب بدلا گیا، یہ سارے لمحات ابا کی کہانیوں، دل چسپ قصوں، لطیفوں میں ایسے گزرے کہ وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔
صائمہ کو وہ دن پوری جزیات کے ساتھ یاد آرہا تھا۔ آج بھی برسات کی جھڑی تھی۔ دھیمی دھیمی خوشبو دیتی مہکتی پھوار۔ لیکن پچھلی سیٹ پر وہ نہیں، اس کے تینوں بچے بیٹھے تھے۔ دیور کے گھر کی دعوت سے واپسی پر انجن گرم ہوکر گاڑی بند ہوگئی تھی۔ گاڑی کا عین پُل پر خراب ہونا ہی کیا کم تھا کہ گاڑی کے خراب ہوتے ہی اطہر کا اترکر یہ کہتے ہوئے روانہ ہوجانا ’’مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے، بس میں گھر جا رہا ہوں، تم بچوں کو لے کر آجانا‘‘ سونے پہ سہاگا تھا۔
صائمہ پھٹی پھٹی نظروں سے اُس کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ زندگی کیسے کیسے موڑ لیتی ہے۔ آہنی دیوار کی طرح ان کو ہر چیز سے اپنی پناہ میں رکھنے والے باپ سے، ہر مشکل میں تنہا چھوڑ جانے والے شوہر تک… کیا ہی اعصاب شکن مرحلہ تھا۔
مائوف ذہن کے ساتھ نقاب درست کرتے ہوئے وہ اتری اور بونٹ کھول کر انجن دیکھنے لگی۔ بڑا والا فرید بھی اس کے پاس آگیا۔
’’اماں لائیں میں دیکھتا ہوں۔‘‘ آٹھ سال کی عمر میں وہ بڑوں کے سے انداز میں بات کرتا تھا۔ قریب کوئی موٹر سائیکل سوار مدد کے لیے آیا۔
’’باجی آپ اندر بیٹھیں، میں دیکھتا ہوں۔‘‘ پاکستانی معاشرے کے خوب صورت چہرے۔ سڑک پر کھڑی عورت ماں، بہن، بیٹی بن جاتی تھی۔ گاڑی تھوڑی کوشش سے اسٹارٹ ہوگئی۔ شکریہ ادا کرنے کی کوشش بیکار تھی۔
’’باجی! بہن، بیٹی سانجھی ہوتی ہیں۔‘‘ پرانی سی بائیک کو کک لگاکر اسٹارٹ کرکے وہ رحمت کا فرشتہ روانہ ہوگیا۔
’’مما! بابا ہمیں چھوڑ کے کیوں چلے جاتے ہیں؟‘‘ بابا کی لاڈلی آسیہ نے پوچھا۔ ’’بیٹے آپ کے بابا کو کچھ ضروری کام تھا۔‘‘
’’مما! بابا کو ہمیشہ ہی کام ہوتا ہے۔ میں اس دن گرا، بابا ایک دم وہاں سے چلے گئے۔ وہ یاد ہے جو شارٹ سرکٹ سے کچن میں آگ لگی تھی! آپ نے بجھائی۔ بابا تو باہر ٹہلنے چلے گئے تھے ناں۔‘‘ فائز نے یاد دلایا۔
’’وہ دیکھیے سڑک پر کیسے دریا بن گیا ہے۔‘‘ ماں کی سسکی کی آواز سن کر فرید نے اس کا دھیان بٹایا۔ وہ آگے آکر برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ بارش نے زور پکڑ لیا تھا۔ سڑکوں پر پانی جمع ہورہا تھا۔ وہ مہارت سے گاڑی چلاتی رہی تاکہ جلد از جلد گھر پہنچ جائے۔ ایک ساون باہر تھا اور ایک رم جھم کی جھڑی اندر۔ نہ جانے کب رستہ کٹا، کب منزل پر پہنچے۔ گاڑی گیراج میں رکھی۔ اندرونی حصے میں جالی والے دروازے کے باہر اطہر کے گیلے جوتے رکھے تھے۔ یعنی وہ آچکا تھا۔ گھر میں داخل ہوئی۔گیلا عبایا اتارا، بچوں کے کپڑے تبدیل کیے، بیڈ روم میں جھانکا۔ اطہر کے خراٹے گونج رہے تھے۔ بچوں کو کھیل میں مصروف دیکھ کر وہ فرید کو بتاتے ہوئے کہ ’’بہن بھائی کا خیال رکھیے گا، میں خالہ دادی کے گھر سے آتی ہوں‘‘، سیاہ پھولوں سے سجی چپل پائوں میں اڑستے ہوئے لان کے درمیان بنی دیوار میں لگے دروازے سے گزر کر برابر والے گھر میں آگئی۔ یہ اس کی خالہ ساس کا گھر تھا۔ برسوں پہلے جب دونوں گھر ساتھ ساتھ تعمیر ہوئے تو درمیان میں رابطے کی سہولت کے لیے دروازہ بنایا گیا۔
صائمہ کے ساس سسر امریکا میں رہتے تھے۔ سال دو سال میں ایک بار کچھ مہینوں کے لیے آتے۔ خالہ ساس بڑے بیٹے بہو کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے باقی بچے بھی آس پاس ہی رہتے تھے۔ صائمہ نے کبھی خالہ بی کو فارغ بیٹھے نہ دیکھا تھا۔ کبھی اُن کے پاس قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے آس پاس کی خواتین ہوتیں، کبھی کوئی محلے والی اپنے مسائل کے حل کی تلاش میں موجود ہوتی، تو کبھی اُون لیے سوئیٹر بنتی، کبھی نواسیوں اور پوتیوں کے کپڑے سیتی، کبھی کسی بیمار کے لیے کھانا پکاتی ہر دم مصروف خالہ جان ٹھنڈی میٹھی گدگداتی ہوا کے جھونکے کی مانند تھیں، جن سے مل کر روح کے سارے تار ہل سے جاتے۔
اطہر کے مزاج کو سمجھنے میں انہوں نے صائمہ کی بہت مدد کی تھی۔ شادی کے کچھ ہی دن میں اطہر کا بے نیاز رویہ، کسی ذرا سی اونچ نیچ پر اس کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر اس کا کہیں چلے جانا سب انہونا ہی تھا۔ بچوں کی پیدائش پر اس کے ساتھ خالہ بی ہی تھیں۔ اطہر کا حسبِ معمول کچھ پتا نہ تھا۔ اِدھر درد کی پہلی لہر اٹھتی، اُدھر وہ چابی اٹھائے کہیں چلا جاتا۔ بچے کی پیدائش کے ایک روز بعد اس کی خبر آتی، پتا چلتا وہ شکار کے لیے چلا گیا ہے۔ ہسپتال سے فارغ ہوکر گھر آتی تب ہی اطہر کی واپسی بھی ہوتی۔
’’بیٹی! چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ آپا اس کو آنچل سے باندھ کر رکھتیں۔ پانچویں کلاس تک گھر میں پڑھایا۔ اسکول بھیجا تو یہ حال کہ وہیں بیٹھی رہتیں۔ لاکھ پرنسپل ناراض، ٹیچر خفا۔ وہ آج کل تم لوگ کہتے ہو ناں ہیلی کاپٹر پیرنٹ، تو بس ہیلی کاپٹر کی طرح اطہر کے سر پر چکراتی رہتیں۔ اللہ کی شان دیکھو اطہر 12 سال کا ہوا تو اظہر میاں آگئے، ان کے بعد چھوٹے مظہر۔ اب آپا اور بھائی صاحب کی توجہ بٹ گئی۔ اطہر کے مزاج میں اسی وقت سے ہمت ہارنا اور ذمے داری سے گھبرانا آنے لگا۔ پھر اس وقت سے یہاں تک کا معاملہ تمہارے سامنے ہے۔‘‘ خالہ بی نے پالک کی ڈنڈیاں الگ کرکے ٹوکری میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’اب آپا اور بھائی صاحب چھوٹے بیٹے مظہر کے پاس امریکا چلے گئے ہیں۔ اطہر اور اظہر کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن یہ نہیں گئے۔ نہ جانے تمہارا رشتہ کیسے تیزی سے ہوا۔ آپا عمرے سے آئیں تو خبر دی کہ رشتہ طے کر آئی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اطہر کے مزاج کا بتایا؟ تو کہنے لگیں: لڑکی کے گھر والوں نے کراچی میں موجود رشتے داروں سے چھان بین کروالی ہے، سب مطمئن ہیں۔ اچھا خاندان، اعلیٰ تعلیم یافتہ، نیک، صالح، نمازی، برسر روزگار خوب صورت نوجوان۔ بھلا کوئی کیوں انکار کرے گا میرے بیٹے کو! بس بیٹی اب اسی کو قسمت کہتے ہیں۔ اسی میں تمہارے لیے خیر ہے۔‘‘
وہ خالہ بی کے پاس روز ہی جاتی، ان کی باتیں اس کی ہمت بندھاتیں۔ لیکن آج تو وہ بند ٹوٹ گیا جو اس نے اپنے جذبات پر باندھا ہوا تھا۔ برستی بارش میں خراب گاڑی، بچوں کی فکر، اکیلی عورت، کیا کیا ہوسکتا تھا! سوچ کر دماغ مائوف ہورہا تھا۔
خالہ بی بارش کے پانی سے اجلے نکھرے پودوں کے درمیان سرخ موڑھے پہ بیٹھی تھیں۔ پاس کھرپی اور خالی گملے رکھے تھے۔ گیلی مٹی کی مہک، نہایا ہوا سبزہ، کوئی چیز دل لبھانے والی نہ تھی۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ برآمدے سے دوسرا موڑھا لا کے برابر بیٹھ گئی۔
’’السلام علیکم خالہ بی‘‘۔ زرد رویا رویا چہرہ، پھیکے ہونٹ اس کے درد کو بیان کرنے سے قاصر تھے۔
’’ بیٹی! کیسی رہی دعوت؟ اظہر نے برا تو نہ مانا ہمارے نہ آنے کا؟‘‘
’’نہیں…‘‘ سوکھے ہونٹ لرزے تھے گویا۔
’’بیٹی کیا ہوا؟‘‘ اس کے لرزتے کانپتے ہاتھوں کو جھریوں بھری ہتھیلی نے نرمی سے دبایا۔
کب کا رکا ریلا آنکھوں سے بہہ نکلا۔ ٹوٹے الفاظ میں سارا قصہ کہہ سنایا: ’’خالہ بی اس دن آپ قوّام کی ذمے داریاں بتا رہی تھیں۔ نان نفقہ کے ساتھ ساتھ حفاظت اور نگہبانی بھی تو اس کا کام ہے۔ جب کوئی قوّام قوّام نہ بنے تو جدائی کے سوا کیا چارہ ہے؟ جب ہر فیصلہ خود کرنا ہے، ہر مصیبت میں سے خود نکلنا ہے، جب بچوں کی تربیت اور پرورش کے مراحل میں تنہا ہی رہنا ہے تو ایسے ساتھ کا کیا فائدہ! کما تو میں خود بھی سکتی ہوں۔ یہ ساتھ تو بوجھ ہے۔ اس کو اتار پھینکنے میں کیا حرج! جب ساتھی ساتھ نبھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو کیا ساتھ رہنا ضروری ہے؟‘‘ بے ربط الفاظ، خودکلامی کا سا انداز۔ وہ آج فیصلہ کرکے اٹھے گی۔
خالہ بی نے کمزور ہوتے گھٹنوں کو دبایا۔ اپنوں کا دکھ ہڈیوں کا گودا کھا جاتا ہے۔ عمر تو بس بہانا ہے۔ وہ موڑھے سے اٹھیں اور کنارے لگے پودے کے پاس آئیں۔ ’’بیٹی لان میں اس بیل کو ٹھیک کرنے آئی تھی۔ بہت کمزور ہے۔ کتنا ہی سہارا دو لیکن پھر نیچے گر پڑتی ہے۔ ارے بھئی دیکھو کیسے بنفشی پھول آئے ہیں۔ یہ تو خود ہی نہیں سنبھل پا رہی، پھولوں کی حفاظت کیا کرپائے گی۔ کچا تنا ہے۔ مگر پھول گر گئے تو سمجھو اس کی کہانی ختم۔‘‘
’’بیل کی؟‘‘ اس نے دھیمے سے پوچھا۔
’’بیٹی صرف بیل کی نہیں، پھول کی بھی۔‘‘
صائمہ نے نظر اٹھاکر دیکھا، کمزور تنے پہ چند پھول اندھیری رات میں چمکتے تاروں کی مانند لگ رہے تھے۔ وہ کھڑی ہوئی۔ ’’خالہ بی جب بیل اپنی ذمے داری نہیں نبھا رہی تو پھول کیوں جڑیں۔ ایسے ساتھ سے کیا حاصل۔ اب جدائی ہی بہتر ہے ۔‘‘
’’جدائی بہتر ہے۔ خالہ بی بڑبڑایں۔ جھک کے نیچے گرا بارش کے ٹھیرے پانی، مٹی میں لپٹا ایک کامنی سا پھول اٹھا کر ہتھیلی پہ رکھا۔ نرم ہاتھ سے پنکھڑی کھولی۔ اندر چھپے زرخیز زرد دانے بہار دکھا رہے تھے۔
’’ان کا کیا قصور تھا! جدائی نے تو اصل قیامت ان پہ ڈھائی۔ اب کچرے کا حصہ بنیں گے۔ تنے کے ساتھ رہتے تو مٹی سے جڑے رہتے۔ مٹی، زرخیز مٹی۔ اور اس کو دیکھو۔‘‘ انہوں نے گرتی ہوئی بیل سے مضبوطی سے جڑے پھول کی جانب اشارہ کیا۔
’’وقت گزر جائے گا۔ اس پہ پھل آئے گا۔ اس کے ذرات ضائع نہ ہوں گے۔‘‘
’’خالہ بی! پھول ختم ہوجائے گا اس ساتھ کو نبھانے میں۔‘‘
’’بیٹی! ختم تو جدائی کے بعد بھی ہونا ہے، بھلا کس شے کو زوال نہیں؟ بس یہ ہے کہ اس پھول کا مٹنا بھی کئی اور پھول کھلائے گا۔‘‘
’’خالہ بی…!‘‘ وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔
’’بیٹی قوّام قوّام نہ رہے، تم صالح بنی رہو۔ جوڑنے والی، جڑنے والی… بہت پھل پائو گی۔ تنے کو سہارا دیا جا سکتا ہے، لیکن پھول کے ذمے جو کام ہے وہ کوئی نہیں کرسکتا۔ نسلوں کی حفاظت۔‘‘
وہ ان کے گلے سے لگ کر رو پڑی۔ بس پھر زندگی بھر کے لیے اس بنفشی پھول کو دل کی تجوری میں چھپا لیا۔ جب تھکتی، نکال کے ہمت جوان کرلیتی۔
برسوں گزر جانے کے باوجود وہ ملاقات آج بھی اس کو لفظ بہ لفظ یاد تھی۔ سب سے چھوٹی بہو کو رخصت کرا کے دونوں گھروں کے درمیانی دروازے سے اندر لاتے، اس نے دیوار پر دور تک پھیلی بنفشی پھولوں سے لدی بیل کو دیکھا۔ خالہ بی کس شدت سے یاد آئیں۔ نئی دلہن کو بے شمار دعائیں دیتے، روشن پیشانی والے بیٹے کے ماتھے پہ محبت بھرا بوسہ دیتے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔ اطہر نے بڑی بہو کی بنائی چائے کا کپ تھماتے ہوئے مسکرا کے صائمہ کا ہاتھ دباکر دھیرے سے کہا ’’شکریہ ساتھ نبھانے کا۔‘‘
صائمہ دل سے ہنسی، شکر گزاری سے لبریز مسرور ہنسی، جلترنگ سا بجاتی ہوئی، اور سر کرسی کی پشت سے لگا دیا۔ حق کیا ہے کیا نہیں اس کی بحث بے کار! کامیابی اپنا فرض ادا کرنے میں ہے۔ باقی کوئی رگِ جاں سے قریب ہستی محنتوں کو ضائع نہیں ہونے دیتی۔ یہ یقین اندھیری سرنگ کے سرے سے آتی روشنی کی مانند راہ کا ساتھی بن جائے تو کٹھن سفر بھی طے ہوجاتے ہیں۔

حصہ