جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے

261

آپ نے کبھی اندھیرے میں بڑی تعداد میں چمکتے جگنوؤں کو دیکھا ہے؟ وہ پورے ماحول کو جگمگا دیتے ہیں اور ایک حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ دراصل ان کی ننھی سی کاوش اور یکجائی کا حسن ہے۔ میں نے یہ منظر 6 اکتوبر کی شام ارقم کے وسیع ہال میں دیکھا، جہاں نشرواشاعت ضلع شرقی کی کارکنان روشنیاں پھیلا رہی تھیں۔
یہ ذکر ہے اُس محفل کا، جو ضلع شرقی کے شعبہ نشر و اشاعت کے تحت’’ایک شام نشر و اشاعت جماعت وومن شرقی کے نام‘‘ کے عنوان سے منعقد کی گئی اور کووڈ 19 کے پیدا کردہ فاصلوں کو انمٹ محبتوں اور قربتوں سے نواز گئی۔
مقررہ وقت پر اسٹیج سے پروگرام شروع کرنے کا اعلان جماعت اسلامی کی وقت کی پابندی کی روایت کو تر و تازہ کر گیا۔ سورہ واقعہ کی تلاوت سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ نائب ناظمہ ضلع شرقی فرحانہ مظہر نے سورۃ الحج کی آخری آیت کی بہترین تفسیر پر مشتمل درسِ قرآن دیا۔ مختصر سے وقت میں مختصر سی آیت کے ذریعے ایک مکمل اور بھرپور راہنمائی مؤثر انداز سے پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی راہ میں جدوجہد پر آمادہ کیا ہے جو آخری سانس تک جاری رہے گی۔
یہ جدوجہد اُن تمام شیطانی قوتوں کے خلاف ہے جو حزب اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اس راہ میں ہمارا پہلا جہاد نفسِ امارہ سے ہے۔ اس کے بغیر ہم کسی محاذ پر جیت نہیں سکتے۔ ’’حق جہادہ‘‘ کی دلنشیں تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کیا یہ کام ہماری ترجیحات میں شامل ہے؟
آج پورا میڈیا اہلِ شر کی دعوت کا میدان ہے اور ہمارے لیے بھی سوشل میڈیا اور نیٹ دعوت کے بنیادی ستون بن گئے ہیں۔ اس میدان میں کام کرنے والوں کو مربوط ہوکر ایک نظم کے تحت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے کام کے لیے چن لیا ہے، یہ بلاشبہ فخر کا مقام ہے، لیکن اللہ سے حقیقی وابستگی کے بغیر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔
اس میدان میں پیش آنے والے خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے درست راہنمائی کی کہ سورۃ الحجرات کی ہدایات سوشل میڈیا ورکرز کے لیے ناگزیر محسوس ہوتی ہیں۔
’’ایک جہدِ مسلسل میڈیا کے محاذ پر‘‘۔ اس پُرعزم عنوان کے تحت نگراں نشر و اشاعت ضلع شرقی صائمہ عاصم نے ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کیا۔ میڈیا کی ٹیم نے اس سنجیدہ اور خشک موضوع کو اپنی مہارت سے بڑی اسکرین پر انتہائی واضح، عام فہم اوردلچسپ بنانے میں مدد فراہم کی۔ انہوں نے اپنے شعبے کے تقسیمِ کار، ذیلی شعبہ جات اور ٹیم کا تعارف کراتے ہوئے بتایاکہ ضلع شرقی آٹھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ ہر علاقے کی ایک نگراں مقرر ہے۔ اس تقسیمِ کار کی بہ دولت تمام کام مربوط انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔
ذیلی شعبہ جات میں سوشل میڈیا، ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام اور یوٹیوب پر مصروف ہے۔ ’’مائنڈ میکرز‘‘ اور ’’جے آئی ایسٹ‘‘ ہمارے تنظیمی گروپ ہیں۔ فیس بک واچ پارٹی کی کلاسز رکھی گئیں، مختلف اہم دعوتی اور تربیتی آن لائن پروگرامز کو وائرل کیا گیا۔ لٹریچر کی کلاسز منعقد کی گئیں۔
’’یوٹیوب‘‘: یوٹیوب پر سات افراد کے انفرادی چینل موجود ہیں۔
’’میڈیا مانیٹرنگ سیل‘‘: یہ کام جنوری میں شروع ہوا، اس میں 26 افراد کے ذریعے ٹی وی چینلز پر نظر، کرنٹ افیئرز پر جماعت کی پالیسی کی تشہیر، پیمرا کمپلینز، گوگل عوامی سرویز کیے گئے۔
انہوں نے ان اہم ایشوز کا مختصر ذکر کیا جن پر آواز اٹھائی گئی:۔
رمضان ٹرانسمیشن کا بائیکاٹ۔
مختلف غیر معیاری ڈراموں اور اشتہارات کے خلاف مہم۔
جناح یونیورسٹی میں میوزک کنسرٹ کے انعقاد کے خلاف کوشش۔
فہیم خان ٹک ٹاک شو پر عوامی سروے کیا گیا۔
اس پروگرام کے خلاف پوسٹس کی رینج 55000 تک پہنچی۔
نگراں نشرو اشاعت نے خاص طور پر بتایا کہ سروے کے ذریعے ایک امید افزا پہلو سامنے آیا کہ معاشرے میں وہ طبقہ بڑی تعداد میں موجود ہے جو میڈیا کی غلط چیزوں پر تنقید کرتا ہے اور اسے ناپسند کرتا ہے۔
پی ٹی اے نے چینلز کے خلاف جو کچھ ایکشن لیا اس کو 97 فیصد افراد نے پسند کیا۔
حریم ادب کے تحت 42 افراد منسلک ہیں، جو مختلف نوعیت کی تحریری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان میں مختلف اخبارات وجرائد میں لکھنے والوں کے علاوہ باصلاحیت بلاگرز بھی ہیں۔ حریم ادب کے تحت مختلف مواقع پر مہمات چلائی گئیں اور خصوصی بلاگز لکھوائے گئے۔
ایک بلاگ مقابلہ بعنوان ’’تکریمِ نسواں‘‘ منعقد ہوا۔ ایک کامیاب اور منفرد ادبی نشست زوم پر ہوئی جس میں بلاگز پڑھنے کے علاوہ بیت بازی کا دل چسپ مقابلہ بھی ہوا۔ حریم ادب کے تحت یوم آزادی پر بچوں کا تقریری اور قومی نغموں کا مقابلہ ہوا جس میں پاکستان کے علاوہ بیرونِ ملک سے بھی بچوں نے جوش و خروش سے شرکت کی۔
حریم ادب شرقی کے لیے یہ بات باعثِ شکر و انبساط ہے کہ اس کی کاوشوں سے کچھ ایسے پرانے لکھاریوں نے دوبارہ قلم تھام لیا جو ایک عرصے سے لکھنا چھوڑ چکے تھے۔ حریم ادب کی یہ کامیاب سرگرمیاں نگراں حریم ادب عصمت منیر کی کوششوں اور جانفشانی کا ثمر ہیں۔
’’کونٹینٹ اینڈ پوسٹ میکنگ گروپ‘‘: اس گروپ کے 14 ممبرز ہیں جو جانفشانی اور اطاعتِ نظم کے ساتھ جماعت کی ویب سائٹس اور لٹریچر سے کونٹینٹ نکال کر ان کی پوسٹ بناتے ہیں۔ یہ ایک مثالی ٹیم ورک ہے جس میں سینئرز نے انتھک محنت سے ایک پوری ٹیم تیار کی ہے۔ اہم موضوعات پر اردو اور انگریزی میں پوسٹس بنائی گئیں جن کو انسٹا گرام اور فیس بک کے ذریعے پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔ نگراں نشر و اشاعت نے اپنی ٹیم کے ذریعے سال بھر کے بھرپور کام کے دریا کو گویا کوزے میں بند کردیا۔
جائزہ رپورٹ کے اختتام پر اُن کی یاد دہانی دلوں کو ایک ولولۂ تازہ سے ہم کنار کرگئی، انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کے قول کے مطابق ’’تعمیری کام صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کا سوچا سمجھا منصوبہ یہی ہو کہ اپنی عمرِ عزیز اس کام میں کھپانی ہے۔‘‘
یہ متاثر کن کارکردگی دراصل اس اجتماعیت کا نتیجہ ہے جو جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا طرّۂ امتیاز ہے، جہاں ہر سطح کا کارکن ستائش اور صلے سے بالاتر ہوکر صرف اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے مثالی اطاعت اور جذبے سے کام کرتا ہے۔ ضلعی نظم کی پشت پناہی اور کراچی کی معاونت کی بدولت ہی ارادے اور پلاننگ پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ اس میں نگراں کے وژن اور کارکنان سے تعلق کا جتنا حصہ ہے اتنا ہی کونوا انصاراللّٰہ کی پکار پر نحن انصاراللّٰہ کہنے والوں کی دوڑ دھوپ کا ہے۔
وہ لمحہ بھی آن پہنچا جس کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا، یعنی حریمِ ادب کے تحت منعقد ہونے والے بلاگز اور پوسٹ میکنگ مقابلے کے نتائج کا اعلان، جس کا عنوان تھا ’’تکریمِ نسواں‘‘۔
انعام کا حصول ایک فطری خوشی کا باعث ہوتا ہے، لیکن قیّمہ پاکستان محترمہ دردانہ صدیقی کے ہاتھ سے انعام و اسناد کی وصولی ایک بڑا اعزاز اور یادگار موقع تھا جو بلاگرز نسرین خلیل، مدیحہ صدیقی، افروز عنایت، ماہ رخ سعیدہ، نوین خالد اور سعدیہ فرخ کے حصے میں آیا، جب کہ پوسٹ میکنگ کے انعام کی حق دار طاہرہ مجید، حریم صدیقی، جویریہ شجاع، لبنیٰ حسن، حنا واجد اور سائرہ سعد قرار پائیں۔ پوسٹ میکنگ کی استاد کی حیثیت سے خصوصی انعام زینب منیر اور شاہوار صدیقی کو دیا گیا۔ مقابلے میں حصہ لینے والے تمام افراد کو اعزازی اسناد دی گئیں۔
یہ وہ منفرد اجتماعیت تھی جہاں اپنے ساتھیوں کی کامیابی، پزیرائی اور انعام اپنی ذات جتنا ہی پر مسرت محسوس ہوتا ہے اور یہ خوشی اور انبساط شرکائے محفل کے مسکراتے چہروں سے عیاں تھا۔
قیّمہ پاکستان کا اپنے مصروف ترین شب و روز میں سے اس شام کے لیے وقت نکالنا اور خطاب کرنا یقینا شرکا کے لیے ایک یادگار اور زرّیں موقع اور پوری تقریب کا حاصل تھا، دل موہ لینے والے انداز میں ان کی وسیع مطالعہ سے پُر گفتگو کو شرکائے محفل نے پورے انہماک اور دلچسپی سے سنا۔ دلوں کو عزم وہمت سے بھر دینے والی آیتوں پر مؤثر گفتگو کی ابتدا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اس کلمے سے بڑی کوئی سچائی اس کائنات میں نہیں۔ اس سچائی کا شعور اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ اللہ کے چنیدہ بندوں کے لیے جہاں یہ عظیم احسان ہے وہیں یہ بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس جدوجہد کے لیے مولانا مودودیؒ کا وژن دیکھیے، وہ فرماتے ہیں ’’اربوں لوگ اس دعوتِ حق سے واقف ہوں،کروڑوں لوگ اس کو حق مانیں، لاکھوں اس کے پشت پناہ ہوں، ہزاروں اس جدوجہد میں ہر خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار ہونے چاہئیں۔‘‘ یہ فرد کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے اجتماعی کوشش ناگزیر ہے۔ آج کی ٹیکنالوجی نے کلمۃ اللہ کو اربوں افراد تک پہنچانا ممکن بنا دیا ہے۔
دردانہ صدیقی نے اپنی پُر مغز گفتگو میں بہت ساری بیش قیمت باتیں کیں جن کا احاطہ اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔ اقامتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے اخلاص، صبر اور حکمت انتہائی ضروری ہے۔ تعمیرِ معاشرہ کے لیے تعمیرِ ذات شرطِ اوّل ہے۔ جو خود نہ سنورے وہ دوسروں کو نہیں سنوار سکتا۔ قیّمہ نے دل کو چھو لینے والے واقعات سنا کر محفل کو رقتِ قلب اور عزمِ تازہ سے معمور کردیا۔
سوشل میڈیا ورکرز کی راہنمائی کرتے ہوئے انہوں نے کہا: سوشل میڈیا کے محاذ پر علم، صبر، تدبر، مضبوط ارادہ، معاملہ فہمی جیسی صفات بہت اہم ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہم سامنے نہیں ہوتے، ہماری ایکٹویٹیز ہمارا کردار متعین کرتی ہیں۔ آپ بلاگر اور ٹوئٹر نہیں بلکہ داعیِ الی اللہ اور اسلام کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ ان افراد کو اپنے اندر سمونے اور ان کی صلاحیتوں کو کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے استعمال کرنا ہے، کیوں کہ بکھرے موتی مل کر ہی مالا بنتے ہیں۔ آپ قیمتی لوگ ہیں اور اجتماعیت آپ کو اور زیادہ قیمتی بنائے گی۔ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔
آخری خطاب ناظمہ ضلع محترمہ ندیمہ تسنیم کا تھا۔ انہوں نے شگفتگی سے بتایا کہ مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ سب کچھ میری قابلِ احترام پیشرو کہہ چکی ہیں۔ بس میں اتنا کہوں گی کہ ہمیں اپنا نام گواہی دینے والوں میں لکھوا لینا چاہیے۔ انہوں نے اعترافِ کارکردگی کرتے ہوئے کہا کہ اس تیز رفتار دنیا میں تیز ترین محاذ آپ نے سنبھالا ہوا ہے اور بہت بڑے کام سے مجھے بے فکر کیا ہوا ہے۔ بلاشبہ دین کی سربلندی کے کام میں تقسیمِ کار ہمارے لیے آسانی فراہم کرتی ہے، لیکن ہمیں مل کر چلنا ہے۔
مہمانوں کی کثیر تعداد میں آمد کے باوجود تقریب کا بہترین حُسنِ انتظام آخر وقت تک قائم رہا اور نائب ناظمہ کراچی ثنا علیم کی مختصر دعا پر اختتام ہوا۔ نگراں علاقہ فیصل کینٹ حرا کاشف کے خوب صورت الفاظ، دلنشیں انداز اور برملا اشعار سے سجی نظامت نے تقریب کو چار چاند لگا دیے۔
اس یادگار شام کا ہر پروگرام اپنی جگہ انتہائی سودمند اور دل چسپ تھا، لیکن نشر و اشاعت کے ساتھیوں کے ’’میڈیائی‘‘ تعارف و تعلق اور روزانہ کی چیٹنگ کے بعد یوں روبرو ملاقات کا پُرلطف منظر دیدنی تھا جو ہر شریکِ محفل کے شگفتہ چہرے اور مسکراتی آنکھوں سے عیاں تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا اس تعلق سے بڑھ کر کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس محبت کو قائم و دائم رکھے اور اس کے طفیل نور کے میناروں کا قابلِ رشک مقام عطا فرمائے۔ اس تقریب کی سب سے اہم چیز جو خوشی، اطمینان اور امید کی پیام بر ہے، وہ جواں امنگوں، توانا جذبوں اور بیش بہا صلاحیتوں سے بھرپور نوعمر افراد کی موجودگی تھی۔ بے شک اس نئی نسل کے ذریعے باطل کی تمام چیرہ دستیوں کے باوجود:۔

ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے

حصہ