والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی ذمہ داری بھی اہم ہے

385

میں اپنے آس پاس نظر دوڑاتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ اس نفسانفسی کے عالم میں سب کچھ برا نہیں ہورہا ہے، بہت کچھ اچھا بھی ہورہا ہے۔ ہمارے اردگرد بہت سے ادارے، جماعتیں اور لوگ خلوصِ دل سے عوام الناس کی مدد کررہے ہیں اور ان میں دین کی تعلیمات بھی پھیلا رہے ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں کورونا اور بارشوں کی وجہ سے جس گمبھیر صورت ِحال کا سامنا کرنا پڑا، اس دوران یہی جماعتیں اور ادارے تھے جنہوں نے بلا تفریق عوام الناس کی مدد و خدمت کی۔ ان جماعتوں میں جماعت اسلامی سرفہرست ہے، جو گاہے بگاہے اپنے کارکنوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی دینِ اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروانے کے لیے عملی اقدامات کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔
دینی شعور و تعلیمات عوام الناس تک پہنچانا اوّلین فریضہ ہے، اور کوتاہیوں اور غلطیوں کا محاسبہ کرنا بھی لازمی امر ہے، لہٰذا اس سلسلے میں پچھلے دنوں حریم ادب کے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ موضوعِ بحث تھا ’’معاشرے کے بگاڑ کا ذمہ دار کون؟‘‘
یہ ایک اہم اور حساس موضوع ہے جو آج اکثر و بیشتر کی زبانوں پر زیربحث ہے۔ ملک کی مایہ ناز اور مختلف مکاتب ِفکر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو موضوع دیا گیا تھا جنہوں نے مدلل انداز میں ایسے خیالات و نظریات پیش کیے کہ معاشرے کے بگاڑ کی کیا وجوہات ہیں اور ان کے نتائج کیا ہیں۔
میں ان تمام معتبر خواتین کی رائے سے متفق ہوں اور آپ سب بھی اس کی تائید کریں گے:
-1 ماں کی گود، جو پہلی درس گاہ ہے۔
-2 میڈیا کی لہو و لعب نشریات۔
-3 درپردہ دجالی اور طاغوتی طاقتیں۔ اور آخر میں اسماء سفیر (ناظمہ کراچی حلقہ خواتین جماعت اسلامی) کا بیان ’’دینی تعلیمات آج کی اہم ضرورت ہے‘‘۔
تمام معزز بہنوں کے خیالات سے میں متفق ہوں۔ یہ سب اہم عناصر کسی بھی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے لیے اہم جز ہیں، اور خاص طور پر یہ نقطہ جو میری معزز بہن اسماء سفیر نے پیش کیا یعنی تعلیماتِ اسلامی، جو ہماری زندگی و آخرت کو سنوار سکتی ہیں، لیکن صد افسوس کہ ہم میں سے اکثریت کا اس طرف دھیان نہیں۔ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے آگہی بلکہ اپنی ذات کو اس سے سنوارنا آج کی اہم ضرورت ہے۔ تعلیمی درسگاہ ہو یا گھر… اساتذہ کرام اور والدین کا یہ اوّلین فرض ہے کہ شاگردوں و اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا اپنا اوّلین فرض سمجھیں۔ دنیاوی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو آج اہمیت دی جارہی ہے، بے شک یہ سب بھی ضروری ہیں، لیکن ہمیں دینی تعلیمات سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ میرا تعلق شعبہ تعلیم سے رہا ہے، زندگی کے بائیس سال کراچی کے ایک معروف تعلیمی ادارے میں پڑھانے کا موقع ملا۔ مجھے اسکول کی مالکہ کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اوّل دن سے ہی انہوں نے تمام اساتذہ کرام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی کہ یہ بچے جو ہمارے اسکولوں تک آرہے ہیں اب یہ ہم اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہیں۔ آج کے والدین کے پاس ان کے لیے اتنا زیادہ وقت نہیں، ہمیں ان کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کرنی ہے، انہیں اچھائی اور برائی میں تمیز بھی ہمیں سکھانی ہے۔
بے شک دینِ اسلام نے اسی لیے اساتذہ کرام کو اعلیٰ مقام بخشا ہے۔ علم لینا اور دینا نبیوں کا شیوہ ہے، آپؐ کو اس کائنات میں معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔ قرآن پاک میں بھی آپؐ کی ذاتِ اقدس کو ’’معلم‘‘ کہاگیا ہے۔ آج معاشرے کی بگڑتی صورت حال میں والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کا بھی فریضہ ہے کہ نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی ذمہ داری بھی اٹھائیں، خصوصاً نئی نسل کو دینی تعلیمات سے بھی آراستہ کریں۔ اساتذہ کرام کو اسی لیے روحانی والدین کا درجہ دیا گیا ہے تاکہ وہ بچوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھ کر ایمان داری سے انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں۔
ایک وقت تھا کہ اساتذہ کرام اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد سمجھ کر ان کی صحیح تربیت بھی انجام دیتے تھے، بوقتِ ضرورت انہیں بغیر لالچ و طمع کے اضافی وقت بھی دیتے تھے۔ آج بھی ہمارے آس پاس ایسے اساتذہ کرام موجود ہیں، بے شک ان کی تعداد بہت کم ہوگی لیکن وہ اپنے اہم فریضے سے غافل نہیں ہوں گے۔ آج ایسے بچے خوش نصیب ہیں جنہیں والدین اور اساتذہ کرام کی طرف سے مثبت و صحیح رہنمائی حاصل ہے۔ میں پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتی ہوں تو اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتی ہوں کہ نہ صرف والدین کی طرف سے بلکہ اساتذہ کی طرف سے بھی رہنمائی حاصل ہوئی ہے، خصوصاً اچھے برے کی تمیز انہی معتبر اور معزز ہستیوں کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ آج اگر زندگی میں سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانے کے اہل ہیں تو ان معتبر ہستیوں کی وجہ سے ہیں۔ لہٰذا ان سطور کے ذریعے میں والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام سے بھی مخاطب ہوں کہ اپنے فرائض میں کوتاہی نہ برتیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اولاد و شاگرد بھی اپنے ایسے ہی والدین اور اساتذہ کرام کے نقشِِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے دل میں بھی اپنے ان رہنمائی کرنے والوں کی قدر و عزت قائم رہتی ہے۔
اس ایک جملے میں کہ ’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ بہت گہرائی ہے۔ آج اس بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح اس ’’معلمِ انسانیتؐ‘‘ کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ نہ صرف یہ معاشرہ سدھر سکتا ہے بلکہ آخرت میں بھی فلاح ہے۔
آئیے ہم سب مل کر اپنے اپنے طور پر اس معاشرے کی اصلاح میں ایک ایک قدم آگے بڑھائیں، اللہ ہم سب کو کامیابی عطا فرمائے گا۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

حصہ