سوشل میڈیا پر قلم کاری کا چرچا

569

اس ہفتہ کے سوشل میڈیا اہم ٹرینڈز میں یہ نمایاں ہیش ٹیگ شامل رہے۔’’جلسہ تو ہوگا ، مشن ووٹ کو عزت دو، چلو چلو گجرانوالہ چلو، قوم نے چور نواز کو مسترد کیا، عوام کا فیصلہ عمران خان، سیٹزن پورٹل فیلڈ، ہارٹ اٹیک ہوا تھا، جمہوریت آزاد کرو، رسیداں کڈو رسیداں، ہمارا ٹرک تیار ہے ، پاکستان ڈکیت موومنٹ، گجرانوالہ ہم آرہے ہیں، آصف زرداری محافظ جمہوریت، چور اپوزیشن کو ڈیل نہ ڈھیل ‘‘۔ اس کے علاوہ معروف ایپل فون کے نئے ورڑن کی لانچ پر ’ایپل ایونٹ ، آئی فون12‘،اس دوران سابق وفاقی وزیر و جمعیت علمائے اسلام کے مفتی محمود کے یوم وفات پر جے یو آئی کی جانب سے فاتح قادیانیت مفتی محمود اور امام احمد رضا بریلوی کے102ویں عرس پر عشق و محبت اعلیٰ حضرت،اعلیٰ حضرت احمد رضا معیار حق، کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں رہے۔کورونا بڑھنے پر کووڈ19، بھارت کے داعش سے تعلقات پر جاری ہونے والی امریکی رپورٹ ٹائم ٹو بلیک لسٹ انڈیا اور حکومت کی جانب سے ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر پابندی پر ٹک ٹاک مہم چلتی رہی۔ اسلام آباد ہائی کو رٹ میں پابندی کے خلاف درخواست گزارشہری اشفاق جٹ نے اپنے مؤقف میں کہا کہ ملک میں تقریباً دوکروڑسے زائد افراد ٹک ٹاک ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہیں، ٹک ٹاک پر پابندی آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر مختلف دلائل پر مبنی باتیں جاری رہیں  جنہیں وقار ذکا لیڈ کرتے رہے۔ اسی تناظر میں عثمان غازی لکھتے ہیں کہ ’اگر گھر کی دیواروں کا رنگ خراب ہوجائے تو ہم گھر کو مسمار نہیں کرتے بلکہ نیا رنگ کرواکر مسئلے کو حل کرلیتے ہیں۔اسی طرح اگر ٹی وی فریج یا کوئی گھریلو استعمال کی چیز خراب ہوجائے تو اسے گھر سے باہر نہیں پھینکتے بلکہ یا تو اسے تبدیل کرلیتے ہیں یا اس کی مرمت کرواتے ہیں۔یہ ہمارا عمومی ذاتی و سماجی رویہ ہے تاہم سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر حکومتی پابندیاں اس عمومی رویئے کے برعکس ہیں۔ٹک ٹاک پر غیراخلاقی مواد بالکل موجود ہوتا ہے تاہم اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، غیر اخلاقی مواد کو کنٹرول کرنے کے بجائے ایپلی کیشن پر ہی پابندی لگا دینا ایک انتہائی بھونڈا رویہ ہے اور ہر بار یہ مطالبات معاشرے کے پسماندہ نیم مذہبی طبقے یا اس طبقے کے متاثرین کی جانب سے سامنے آتے ہیں، ہمارے سماج میں بدقسمتی سے یہی وہ طبقہ ہے جسے عام آدمی کی کوئی خوشی برداشت نہیں، اسی مائنڈ سیٹ کے ہاتھوں PUBG پر پابندی لگی تھی کہ نوجوان زیادہ وقت کھیلنے میں لگا رہے ہیں اور اس طبقے کے نزدیک یہ ’’گناہ‘‘ ہے۔ اسی طرح ٹک ٹاک پر غیراخلاقی مواد شیئر کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جاسکتے ہیں، ان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے، اس مواد کو ہٹانے سے متعلق معاہدے کیے جاسکتے ہیں تاہم ایپلی کیشن پر پابندی پاکستانی کلچر، رویوں اور آرٹ کے پوری دنیا میں پھیلائو کو روک دے گی۔ بے راہ روی کو بنیاد بنا کر #TikTok پر پابندی تو ایک بہانہ ہے، عمران خان نے دراصل یہ پابندی لگا کر پی ٹی آئی کی تبدیلی کا پول کھولنے والے پاکستانی نوجوانوں کی آواز دبانے کی کوشش کی ہے اور اس کا خمیازہ تبدیلی ٹولے کو بھگتنا ہوگا کیوں کہ عوام کی آواز کو دبانا فطری طور پر ممکن نہیں اور آوازوں کے کچلنے کا یہ ردعمل ٹک ٹاک پر نہیں تو کہیں اور آئے گا۔‘‘
اس ہفتہ 10 اکتوبر کو دماغی صحت کا بھی عالمی دن آیا‘ اس پر بھی عالمی سطح پر ہیش ٹیگ بنے اور عالمی سطح پر یہ موضوع شدت سے زیر بحث رہا۔ پاکستان میں بھی کانفرنس و دیگر سیمینار کی صورت ڈاکٹروں و سماجی تنظیموں نے اس ضمن میں آگہی پھیلانے کی کوشش کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان کے لیے یہ موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دُنیا بھر میں دماغی امراض کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 50 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان بیماریوں میں فالج، مرگی، الزائمر، ڈیمینشیا، رعشہ، مائیگرین، ڈپریشن، اینگزائٹی سمیت کئی امراض شامل ہیں۔کورونا کے بعد اور لاک ڈائون کی صورت حال نے دماغی و ذہنی امراض پھیلنے کی شرح میں تیزی پیدا کی ہے۔ خود اسکرین کے استعمال کو دماغی امراض کی ایک بہت اہم وجہ قرار دیا جاتا ہے یورپ اور امریکا کی تو بات ہی نہیں کرتے صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ اقدام خودکشی کے کیسز غفلت سے بیداری کے ایک زور دار الارم کے سوا کچھ نہیں لیکن اگر ہم نے ہاتھ بڑھا کر الارم بند کر دیا اور نیند کو ہی بہتر جانا تو یہ شرح تیزی سے بڑھتی جائے گی اور سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہاکہ کورونا لاک ڈائون کے دوران مرگی کے مریضوں میں خاص قسم کے دورے پائے گئے جو کہ مخصوص حالات اور ذہنی دبائو کی وجہ سے دماغ پراثرات کی وجہ سے ہوئے۔ پاکستان سائیکاٹری سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر اقبال آفریدی کے مطابق ’’کورونو فوبیا‘‘ کے نام سے نئی نفسیاتی بیماری سامنے آئی ہے جس نے دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ معروف ماہر امراض دماغ و اعصاب ڈاکٹر محمد واسع کے مطابق پاکستان میں روزانہ 1000 فالج کے مریضوں کا اضافہ کا مطلب یا تو 1000 معذور افراد یا 1000 افراد کا موت کی جانب تیز سفر کہا جا سکتا ہے جب کہ پاکستان میں صرف 250 نیورو لوجسٹ دستیا ب ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے بھی امسال اپنے ٹرینڈ میں اس دن کے موقع پر حکومتوں کو بھی سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس ہفتہ ایک اور قدرے ہٹ کر مثبت چیز ملی جسے قارئین کے علم میں لانا ضروری ہے۔ اس مثبت و پر اثر کوشش سے جہاں بڑے پیمانے پر ابلاغ ہوا وہاں ساتھ ہی متعلقہ اداروں نے ایکشن بھی لیا اور کام بھی شروع ہوا۔ ڈاکٹر فیاض عالم بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں اور دعا فائونڈیشن نامی این جی او سے وابستہ ہیں۔ اپنے فیس بک اکائونٹ پر انتہائی متحرک رہتے ہیں اور تمام تر سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ کورونا ایام میں بھی انہوں نے عوام کی آگہی کے لیے خاصا متحرک و منفرد عملی کام کیا اور سماجی میڈیا سے کورونا سے متعلق معلومات کا موثر ابلاغ بھی کیا۔اپنے مطالعہ و تجربات کی روشنی میں تھرپارکر کے صحرا میں زیتون و دیگر پودوں کی کامیابی سے کاشت کاری کی اور ایگرو فارم کی بنیاد ڈالی۔ اس کام کے دوران اُن کے علم میں آیا کہ پاکستان میں کروڑوں کی تعداد میں جنگلی زیتون کے درخت ہیں جن پر دیسی زیتون کی قلم کاری کر کے اچھے پھل حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس منصوبے پر پہلے سے کام جاری تھا لیکن اس خزانے کے بارے میں کوئی تشہیر یا حکومتی توجہ ویسی نہیں تھی جیسی ہونی چاہیے تھی۔ ڈاکٹر فیاض نے فیس بک پر پوسٹوں کا سلسلہ شروع کیا اور نہ صرف پوسٹ بلکہ کچھ دوستوں کے لے کر پاکستان کے شمالی علاقہ جات دیر میں پہنچ گئے اور درختوں کی قلم کاری دیکھی، سیکھی اور سکھائی۔ یہ سب واقعات ویڈیو اور پوسٹ کی صورت ڈالتے رہے یہاں تک کہ ایک نجی چینل پر سینئر صحافی و تجزیہ نگار ہارون رشید نے معاملے میں دل چسپی لی اور اس موضوع پر اُن کے ساتھ ایک مختصر پروگرام کر لیا۔ اس پروگرام کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس کے بعد اس ہفتے کامران خان کے پروگرام میں ڈاکٹر فیاض کا کلپ وائرل ہوا۔ ان سب نے ایک ہوا چلا دی اور عین ممکن ہے کہ جو لوگ ماضی میں اس پراجیکٹ پر بات کرتے رہے یا حکومتی افسران کی ٹیبل پر اس پراجیکٹ کی جو فائلیں گرد مٹی میں دبی تھیں وہ سب نکل آئیں۔ ڈاکٹر فیاض نے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کو‘ جن کا تعلق خود دیر سے ہے اُنہیں اِس معاشی‘ انقلابی اور زرعی منصوبے کی تفصیل و اہمیت سے آگاہ کیا۔ جماعت اسلامی نے اپنے دیرینہ علاقے دیر میں ایک باغ زیتون کا افتتاح کر دیا۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن نے قلم کاری قرارداد جمع کروا دی۔ جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ مالاکنڈ ڈویژن کو وادی زیتون قرار دینے، تیل نکالنے کے کارخانے و قلم کاری کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتا چلا کہ محکمہ زراعت باجوڑ نے بھی باجوڑ میں جنگلی زیتون کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک سروے کیا جس کے مطابق صرف باجوڑ میں تقریباً ایک کروڑ جنگلی زیتون کے درخت مختلف تحصیلوں میں موجود ہیں۔ اِن کو قابلِ استعمال اور تیل دینے والی ورائٹیز میں قلم کاری کے ذریعہ باآسانی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سال باجوڑ کے مختلف علاقوں بشمول تحصیل برنگ میں جنگلی زیتون کے پودوں کی قلمکاری کی جائی گی اور ساتھ میں مقامی زمین داروں کو قلم لگانے کے حوالے سے تربیت بھی دی جائے گی۔
ڈاکٹر فیاض کی تیار کردہ وڈیو کو کئی زراعت سے جڑے پیجز نے اپنے پاس سے اَپ لوڈ بھی کیا‘ جن میں باغبان، ایگری سولوشن و دیگر شامل ہیں۔ آزاد کشمیر سے شبیر حسین مذکورہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’کشمیر کے اکثر علاقوں میں ایک درخت پایا جاتا ہے جس کا نام ’’کہو‘‘ ہے‘ یہی جنگلی زیتون کہلاتا ہے۔ اس درخت پر اچھی نسل کے زیتون کی قلم کاری ہو سکتی ہے۔ جن بھائیوں کے گھروں میں یہ درخت ہے وہ ضرور کریں۔‘‘
ڈاکٹر فیاض کے مطابق اس کام میں پیسہ بالکل شامل نہیں ہوتا کیوں کہ درختوں کی تراش خراش سے ہی قلم کاری کی شاخیں حاصل کی جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے حکومت اپنا لے تو اس وقت زیتون کی امپورٹ میں جانے والی بڑی رقم بچے گی بلکہ ایکسپورٹ کی صورت بڑا زر مبادلہ حاصل ہو گا اور یہ اللہ کی جانب سے خیبر پختونخوا کے عوام اور پاکستان کے لیے بڑا معاشی انقلابی منصوبہ ثابت ہوگا۔

حصہ