ساڈا حق اتھے رکھ !۔

490

زخم خوردہ ، ایک پرانا زخم ہو جیسے ، جس سے رستہ ہوا رکیک لعاب ، دیکھنے والے کو نظر پھیرنے پر مجبور کردے ۔
میں کرا چی ہوں ، زخم خوردہ کراچی ! جس کا ہر محلہ ، ہر بستی چیخ چیخ کر اپنے اوپر جاری تسلط کی جنگ اور اجارہ داری قائم رکھنے کا فسانہ سنا رہی ہے۔
میں کراچی ہوں ۔ وہی کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا ۔ میں بہ یک وقت غریب کی ماں بھی تھا اور مزدور کا باپ بھی ۔ میرے انگ انگ سے ماں کی ممتا پھوٹتی تھی۔ میرا رواں رواں شفقت سے معمور ہوتا ۔ میں پاکستان کا دل بھی تھا اور جان بھی ۔ میرے یہاں پورے پاکستان کی نمائندگی تھی ۔ میں فخر سے اپنا سینہ پھلا کر کہتا کہ دیکھو میں ” پاکستان ” ہوں۔
مگر اب اس حال میں ہوں کہ تین کروڑ آبادی والا شہر قبرستان اور یہاں کے عوام چلتے پھرتے لاشے بن چکے ہیں ، مہنگائی نے کمر توڑی ، منہ سے نوالے چھین لیے گئے ،و الدین بازاروں میں فروخت کرتے جا بجا، دریا اور پُل سے کود کر بچوں سمیت جان دیتی ماں، اب اس شہر کا عام منظر نامہ بن چکے ہیں ، میرا کراچی جہاں ساری دنیا کے لوگ آباد تھے لیکن رفتہ رفتہ گولیاں ، پٹاخے ،قتل ، بوری بند لاشیں ،بھتا ، دہشت گردی اس شہر کی شناخت ہو گئے ۔ گزشتہ35 برس سے کراچی کی یہی شناخت ہے لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اور ان کی ٹیم نے کراچی کا مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ بجلی کی بندش ، جعلی بلوں ، تانبے کے تاروں کی چوری اور دیگر بد عنوانیوں کا پردہ چاک کیا ۔ پھر سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے تین کروڑ آبادی والے شہر کی مردم شماری میں ہیر پھیر کیا گیا اور تین کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ ظاہر کر کے اس شہر کا حق مارا گیا ۔
گنتی کیوں کم کی گئی ؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر کراچی والے کی زبان پر ہے ۔ گنتی آدھی کرکے یہاں کی صوبائی ، قومی اور بلدیاتی سیٹوں پر ڈاکا زنی کی گئی ، یہی نہیں بلکہ اسی بنیاد پر شہروں کو فنڈز فراہم ہوتے ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ کراچی سے ساتھ فیصد لگ بھگ ٹیکس وفاق اور پنچانوے فیصد صوبے میں جاتا ہے مگر اس پر تین فیصد بھی نہیں لگایا جاتا ۔ اسی وجہ سے یہاں مردم شماری میں دنیا کی سب سے بڑی دھاندلی مچائی گئی ۔ اس بے ایمانی اور فراڈ پر کراچی خاموش رہا ، کیوں کہ اس کے منتخب نمائندوں نے ‘اپنا حصہ ‘ وصول کرلیا تھا ۔
یہاں کے سرکاری ہسپتالوں کی سرپرستی سے وفاق نے ہاتھ اٹھالیا ، مریض بلکتے رہے ، مرتے رہے ، غریب نیلی پیلی دوا سے ٹھیک ہوجاتا تھا، مگر وہ دوا تک مارکیٹ میں فروخت کی جاتی رہیں ۔
سڑکوں ، گلیوں ، بازاروں کاجو حال ہے وہ سب کے سامنے ہیں ، کراچی خاموش رہا ،کے الیکٹرک کی بدمعاشی اور ہٹ دھرمی کراچی کے شہری پندرہ سالوں سے بھُگت رہے ہیں ، اپنے جگر گوشے بجلی کے کرنٹ سے مرتے دیکھ رہے ہیں ، مگر خاموش رہے ۔
بےاختیار شہری حکومتوں کی عیاشیوں ،ان کے اللے تللوں اور یہاں کے مسائل پر اپنے منتخب نمائندوں کی بے حسی کو دیکھتے رہے ، چپ رہے ۔
سوسائٹیز ، بلڈرز اور تعاون پلانرز کی دھوکا دہی کے ہاتھوں زندگی بھر کی جمع پونجی لٹانے کے باوجود کچھ نہ کر پائے ۔ مسمسا کر بیٹھے رہے ۔
ملک کی سیاست پر پچاس سال سے قابض لوٹ مچانے والے سیاستدانوں کی خر مستیوں پر چپ رہنے والے اپنے اوپر ظلم کو برداشت بھی کرتے اور ان کے حق میں نعرے بھی مارتے ،ایک ایک دن میں صوبائیت ، لسانیت اور مذہبی فرقہ واریت کے جال میں پھنس کر بیس بیس لاشوں کو کاندھا دیتے رہے ، امن وامان کی خراب صور ت حال پرچپ رہے،گٹر ابلتے رہے ، سیلابی ریلے آبادی کی آبادیاں لے گئے یہاں کے باسی چپ رہے ۔بڑھتی بے روزگاری اور کوٹا سسٹم کی ناانصافی پر خاموشی کے ساتھ اپنی نوکریوں کا حق کسی اور کو دے کر کڑھتے رہے ، خاموش رہے ۔تین کروڑ کی آبادی وا لا شہر مرغیوں کی مانند صبح سے شام چنگچیوں میں دفتر جاتا اور آتا ہے ، ذلت اور تہذیب سے گرا ہوا سفر اس کا مقدر ہے ، مگر یہاں کا رہنے والا خاموش رہا ۔
لیکن ظلم ، نا انصافی اور مسلسل استحصال کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ مگرکراچی نے دیکھا کہ اس کے دکھ درد میں اگر کوئی شریک ہے ، غم خوار اور ہم نوا ہے مشکل پریشانی میں ساتھ دینے والا ہے تووہ ہے جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن اور ان کی بے لوث ٹیم اختیار نہ ہونے کے باوجود دن رات یہاں کے شہریوں کی آواز بنی ہوئی ہے تب آج یہ کراچی بے دار ہوا ہے ، اس کی آواز ملک گیر آواز بن چکی ہے ۔ اور اب حقوق کراچی کی بازگشت جو پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے ۔
ایک عظیم تبدیلی رونما ہونے کو ہے ، سیاسی بازی گروں نے چالیس سال کراچی کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ طشت ازبام ہوچکا ہے ۔ آج کراچی کی گلیوں بازاروں،دفتروںگھروں میں ہر طرف ریفرنڈم اور چودہ نکات کی بات ہورہی ہے ۔
حافظ نعیم الرحمن اور ان کی ٹیم کے میدان میں کھڑے رہنے کی وجہ سے کراچی کو گویا ان کی زبان مل گئی اب سب بول رہے ہیں کہ
اب کراچی بولے گا کہ ‘ کراچی کو حق دو ،آدھا نہیں پورا دو ، اور ساڈا حق اّتھے رکھ !۔

حصہ