ترقی اور کامیابی کے سیلوکر پیمانے

486

سیکولر اور لبرل عالمی لٹریچر اور عالمی نظامِ تعلیم کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ پیغمبر، سائنس دان، سیاست دان، فاتح، تاجر اور دیگر اہم افراد کی عظمت، بڑائی اور کامیابی کو جانچنے اور انہیں ’’کامیاب‘‘ انسان کے منصب پر فائز کرنے کا ایک ہی پیمانہ ہونا چاہیے، اور آج کے دن تک وہ ہر کسی کو اس پیمانے کا قائل کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’دی ہنڈرڈ’’(The 100) جو تاریخ کے سو کامیاب ترین انسانوں پر 1992ء میں لکھی گئی، پہلے دن سے مقبول ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب میں جو ترتیب یا رینکنگ دی ہے، اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پہلے نمبر پر لکھا ہے، اور ساتھ ہی اس نے آپؐ کے نام کو پہلے نمبر پر رکھنے کا جو پیمانہ بتایا ہے وہ یہ ہے کہSupremely successful in both the religious and secular realms (مذہبی اور سیکولر دونوں دائرۂ اثر میں انتہائی شاندار کامیابی)
یعنی کتاب میں پیغمبرِ خداؐ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے فرستادہ رسول نہیں بلکہ ایک مصلح، مذہبی رہنما اور عام حکمرانوں کے معیار پر رکھ کر پرکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فہرست میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے ایک اور پیغمبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ درمیان میں انسانی تاریخ کا دوسرا سب سے کامیاب شخص ’’سر آئزک نیوٹن‘‘ ہے۔ لوگ اسے ایک سائنس دان کے طور پر جانتے ہیں، لیکن اس کا ’’جدید سودی معیشت‘‘ کے قیام میں اہم ترین کردار رہا ہے۔
تاجِ برطانیہ نے آٹھ سالہ طویل جنگ کے دوران 1692ء میں ’’چارلس ایرل آف ہیلی فیکس‘‘ سے قرض حاصل کیا۔ یہ انسانی تاریخ کا ’’پہلا‘‘ حکومتی قرضہ تھا، جس نے موجودہ ’’عالمی سودی مالیاتی نظام‘‘ کی بنیاد رکھی۔
برطانیہ کی حکومت کو جب قرض کی دلدل میں پھنسا لیا گیا تو 1694ء میں چارلس ایرل آف ہیلی فیکس نے حکومت سے’’بینک آف انگلینڈ‘‘ کے چارٹر کی منظوری حاصل کرلی اور ساتھ ہی ’’کاغذ کے نوٹ‘‘ (Promissory note) جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل کرلیا۔ اب ایک عیارآدمی کی حکومت کے خزانوں پر تقرری کی ضرورت تھی۔ چارلس ایرل آف ہیلی فیکس کی نظر انتخاب کتاب کے مطابق ’’انسانی تاریخ کے اس دوسرے کامیاب انسان ’’سر آئزک نیوٹن‘‘ پر پڑی اور ملکہ برطانیہ نے اس کے دبائو میں آکر 1694ء میں نیوٹن کو برطانوی ’’خزانے کا سربراہ‘‘ (Chancellor of the Exchequer) مقرر کردیا، اور یوں جدید سودی نظام کے ان ’’آباو اجداد‘‘ کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ نیوٹن کو سکوں کے ٹکسال(Mint)کا نگران بھی مقرر کردیا۔
نیوٹن نے اپنے سائنسی علم اور سودی معیشت کی چال بازی کو ساتھ ملا کر ایک ایسا فیصلہ کیا، جس کے اثرات آج اکیسویں صدی تک جاری ہیں۔ قدرت نے سونے اور چاندی کے درمیان ایک اور بیس کی نسبت رکھی ہے، اور دنیا بھر کی آزاد منڈیوں کے تاریخی مطالعے سے یہی پتا چلتا ہے۔ نیوٹن نے اس’’قانونِ فطرت‘‘ کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 1717ء میں بحیثیت چانسلر خزانہ سونے اور چاندی کے درمیان شرح مبادلہ 15.5 مقرر کردی۔ اس طرح منڈی میں سونے کی رسد اور چاندی کی طلب میں اضافہ ہوگیا۔
بینک آف انگلینڈ کے مالکان نے نیوٹن کی ملی بھگت سے اس ’’غیر قدرتی‘‘ شرح مبادلہ کو قانونی تحفظ فراہم کیا، اور یوں سود خور بینکاروں کے خزانے بھرنا شروع ہوگئے۔
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف محسنِ انسانیت سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پہلے نمبر پر لکھا جاتا ہے، جو اس سودی نظام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، اور فوراً بعد نیوٹن کا نام آتا ہے جو نہ صرف عالمی سودی نظام کے قیام کا معمار ہے بلکہ اس کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ وہ اپنی ایک خوب صورت بھانجی کیتھرین بارٹون (Catherine Barton) کو لے کر چارلس آف ہیلی فیکس کے ساتھ بدنامِ زمانہ Kat Kit کلب جاتا تھا اور پورا برطانیہ جانتا تھا کہ دونوں کے تعلقات دوستی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسی تعلق کی وجہ تھی کہ برطانیہ میں کسی کو نیوٹن کے اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے پر حیرت نہ ہوئی۔ کامیابی کے سیکولر پیمانوں میں چوں کہ ذاتی اخلاقیات کی کوئی وقعت نہیں، اسی لیے نیوٹن کا نام دوسرے نمبر پر آنا اچنبھے کی بات نہیں۔
آپ مزید حیرت میں گم ہوجائیں گے جب یہ دیکھیں گے کہ سیدنا عیسیٰؑ کا نام تیسرے نمبر پر ہے۔ وہ پیغمبر برحق، جس کی آخری واضح جنگ ان ’’یہودی سود خوروں‘‘ کے خلاف تھی، جنہوں نے ہیکل کے اندر سود کی دکانیں سجا رکھی تھیں، جنہیں سیدنا عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں کے ساتھ جاکر الٹ دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد یہودی رومن گورنر کے پاس گئے تھے اور اس سے عیسیٰ ؑ کو ’’مصلوب‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ فہرست میں نویں نمبر پر امریکا دریافت کرنے والے ’’کرسٹوفر کولمبس‘‘ کا بھی نام ہے، جس کے قتل عام کی گواہی جنوبی امریکا کے ساحل آج بھی دیتے ہیں۔
یہ صرف ایک کتاب ہی نہیں جو ان سیکولر پیمانوں پر تحریر کی گئی ہے، بلکہ دنیا میں لکھی جانے والی جدید تاریخ اور شخصیات کے جائزے، ان کی دنیاوی کامیابیوں کے حساب سے ہی لکھے جاتے ہیں۔ اس پورے سیکولر علم کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو یہ بات ذہن نشین کروا دی جائے کہ یہی ایک دنیا ہے، جو اس میں کامیاب ہوا وہی کامیاب ہے، اور جو اس میں ناکام ہوا وہ ناکام ترین شخص ہے۔ اس سیکولر پیمانے کی کامیابی دیکھیے کہ آج دین کا پرچم اٹھانے والی بے شمار سیاسی تنظیمیں بھی دین کی طرف بلانے کی ترغیبات میں یہ فقرہ شامل کرتی ہیں کہ ’’اگر تم اللہ کے دین پر چلنے لگو گے تو خوش حال ہوجائو گے۔‘‘
جب کہ اللہ تو قرآن میں اس کے بالکل برعکس فرماتا ہے: ’’اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کے ہاں رسول بھیجے، اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلاکیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس جب ہماری طرف سے اُن پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ جو تم کررہے ہو خوب کررہے ہو۔ پھر جب انہوں نے اُس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوش حالی کے دروازے اُن پر کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئیں‘ خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے ان کو پکڑ لیا، اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا۔ اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لیے‘‘ (الانعام:42تا 45)۔ یہ ہے اللہ کے ہاں کامیابی و ناکامی کے معیارات کا اعلان۔کیا آج اس دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمان بحیثیتِ مجموعی اس بات کے قائل ہیں کہ جہاں کہیں بھی خوش حالی آتی ہے، وہ دراصل اللہ کی طرف سے آزمائش اور وارننگ ہوتی ہے۔ ہم نے بحیثیت اُمت اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے۔ ہمارے معیارات ِ حق و باطل اور کامیابی کے پیمانے اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اس کیفیت کو مسلمان قوم کے مزاج میں ڈھونڈیں۔ اگر جواب یہ ملے کہ ہم نے اللہ کی نصیحت کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے، تو پھر تیار ہوجائو کہ یہ تمام خوش حالی دراصل عذاب کی پیشگی اطلاع ہے جس کا ہم شکار ہونے والے ہیں۔

حصہ