اے میرے کشمیر!۔

330

جب سے آنکھ کھولی، تُو میرے خوابوں کی جنت ہی رہا۔ تیری وادیوں کے حسن نے مجھے جنت کی جھلک دکھائی، اور جنت نظیر کہنے والوں کے حُسنِ نظر پہ پیار آیا۔ یہ یقین ہمیشہ دل میں راسخ رہا کہ جنت کسی کافر اور مشرک کی جاگیر نہیں ہوسکتی۔ جنت جیسا مقام تو اہلِ توحید کا مقدر ہے۔ مگر اب ہر دردمند دل میں خیال آتا ہے کہ جنت کے سبزہ زار، پہاڑ، اس کے پھلوں سے لدے درختوں کی بہار پہ خزاں کے ڈیرے کیوں ہیں؟
اس جنت کے باسی پریشان حال کیوں ہیں؟ اس کی فضائوں میں محبت کے ترانے گانے والے طائران کے بجائے گدِھ کیوں منڈلا رہے ہیں؟ جنت تو ابدی خوشیوں کا مظہر ہوتی ہے، اس جنتِ ارضی میں دکھوں کی لامتناہی فصل کیوں اُگ رہی ہے؟ اے جنت نشاں منزل! یہ کیسا نوحہ ہے جس کی صدا کسی ذی روح کے دل میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی؟ پہاڑوں کی بلندیوں پہ کھڑے ہوکر آواز دینے پر بھی دنیا کی نظر تحت الثریٰ کی تلاش میں ہے۔
اے کشمیر! تیرے ارض و سما میں سلامتی کا سکون کہاں گیا؟ یہ خوف و دہشت تو جنت کی خوبی نہیں ہوتی۔ میں ایک بے بس پرندے کی مانند کسی ٹنڈ منڈ درخت پہ بیٹھی آشیانہ نہ بنا سکنے کا کرب کس کو سنائوں؟ وادیوں میں خنک فضائوں کی جگہ دھویں کی گھٹن میں سانس لینے کی مشقت کیسے کم کروں؟ تیرے نوجوان بیٹوں کی اَن گنت لاشوں سے لپٹی بہنوں، مائوں اور جوان بیوائوں کو کس لہجے میں تسلی دوں؟ اور معصوم بچوں اور مظلوم بزرگوں کے دل سے نکلتی بے آواز آہوں کا کرب کس منصف کے پاس جاکر ظاہر کروں؟
آخر کب بت پرستوں کے حلق سے نکلتے فلک شگاف استہزائیہ قہقہے کسی توحید پرست صاحبِ اختیار کے کانوں پہ گراں گزریں گے؟ آخر کب تیرے ہم عقیدہ خوابِ غفلت سے جاگیں گے؟
اے میرے پیارے کشمیر! تُو دنیا میں ہر اُس جنت نظیر وطن کی علامت ہے جہاں بھی ظلم کی فصل اگائی جاتی ہے۔ تیرے باسیوں پہ ہونے والا ظلم ہر اُس وادی کا ظلم یاد دلاتا ہے جہاں بے حس حکمران دوسروں کے لیے دنیا جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ سارے دکھی لوگ اگر ایک اُمت بن جائیں اور اپنے دکھوں کو حوصلے بلند کردینے کی علامت بنا لیں تو ظالم کے ہاتھ ٹوٹ سکتے ہیں۔
اے کشمیر! ان بے حس ظالم طاقتوں کی طاقت سے نہ گھبرا۔ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اور جو ظالم کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھیراتا ہو اُس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دشمنی ہوتی ہے، اور یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آنے والا قدموں میں ثبات رکھتا ہو۔ وہ بزدل ہوتا ہے، کسی کمزور سہارے پہ کھڑا ہوتا ہے، اور کمزور سہارے دیکھنے میں کیسے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، آخرکار شکست ان کا مقدر ہوتی ہے۔ اے میرے محبوب کشمیر! غم نہ کھا، میں ایک ماں کے روپ میں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ اپنی نسلوں کو جنت نظیر کی بہاروں سے ناآشنا نہیں رکھوں گی۔ میں تیرے غم کو حوصلے کی ردا بنا لوں گی۔ تیری وادی کے ہر ذرے سے میری وفا کی خوشبو آئے گی۔
اے مرے کشمیر! میں اگرچہ تجھ سے دور اداسیوں کے ناآشنا سے صحراؤں میں آبلہ پا پھرتی ہوں۔ میں تجھ سے دور ہوں مگر میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں تیرا ہی درد ہے، اور یہ درد دل میں آکر ٹھیر گیا ہے۔ ایک کانٹے دار شاخ دل میں پیوست ہے جس کا ہر کانٹا مجھے تری یاد، تری کسک اور ترا احساس دلاتا ہے۔
اے مرے کشمیر! میرے دل میں تیرے نام کی ایک شمع فروزاں ہے، اس سوزش میں احساسِِ تپش بھی ہے اور عزمِِ نو کی حرارت بھی۔
اے مرے کشمیر! اپنے پیچھے ایک واضح غم چھوڑ آئی ہوں۔ کوئی اس غم کا احساس نہیں کرپاتا۔ یہ غم آشنائی میرے وجود میں سرایت کرگئی ہے۔ فرقت کا وہ لمحہ جب چشمِ نم ہر در و دیوار کو دھندلا دیکھ رہی تھی، آج بھی اسی طرح آنسو میرے حلق میں تلخی کا پھندا بنے ہوئے ہیں اور وہی تلخی میری رگِ جاں میں گھل گئی ہے۔ خاموشی سے ٹپکنے والے آنسو دل کی زمین کو آج بھی سیراب کررہے ہیں۔ ہاں اے مرے کشمیر! میرے دل پہ ٹپکنے والے یہ آنسو ہی میرے لیے زندگی کی علامت ہیں۔ میں یہ آنسو جھلمل کرتے موتی بنا لوں گی، اور ان موتیوں سے حسین مستقبل کی، تری آزادی کی مالا بناؤں گی۔ میرے خیالوں میں یہ موتی تیرے ملن کی آس دلائیں گے، آگہی و شعور کے پیارے پیارے ساتھی مجھے ایمان و ایقان کا نور عطا کریں گے، حوصلے کا پیغام دیں گے۔ اس موسم کا، ان لمحوں کا جو ہم نے ساتھ گزارے ہیں، اور سوچ کی پیاری پیاری سکھیاں رنگِ حنا دے جائیں گی ان لمحوں کو، اس موسم کو جو ہم ساتھ گزاریں گے۔ اے مرے کشمیر!۔

حصہ