ایک جہاں کا وہ عزیز تھا

298

اس دنیا کی وقعت ہی کیا ہے جو ہم کسی کے جانے کا افسوس کریں؟ ویسے بھی جس کے اعمال اچھے ہوں اور جسے اگلے جہاں میں جنت ملنے اور اللہ سے قرب کا امکان ہو تو اُس کا اِس دنیا سے جانا تو دراصل جھنجھٹوں سے جان چھوٹ جانے جیسا ہے۔ اکثر لوگ کاروبار، سیاست، شہرت کی دھن میں لگ جاتے اور آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس رویّے کو عرفِ عام میں پیچھے مڑکر نہ دیکھنا کہتے ہیں۔ عبدالغفار عزیز نے بھی ایک راستہ چُنا۔۔۔ اللہ کے دین کی سربلندی کی جدوجہد کا راستہ۔۔۔ پھر اپنے اس انتخاب پر ایسے یک سو ہوئے کہ دولت، مستقبل، جاہ و منصب جیسا کوئی جذبہ راہ کی رکاوٹ نہ بنا۔ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا کسے کہتے ہیں، عبدالغفار عزیز نے یہ کرکے دکھایا۔ وہ نفس مطمئنہ کے ساتھ اپنے رب کی رضا کی طرف بڑھتے ہی چلے گئے۔ اللہ ان سے راضی ہو- مجھے موقع تھا کہ میں اُن سے تعارف حاصل کرتا، اُن کی یادداشت میں اپنا نام محفوظ کروا دیتا، لیکن نامور لوگوں سے دور رہنے کی عادت نے اُن سے تعلق کی سعادت سے محروم رکھا۔ بعض لوگ نامور ہوتے ہیں پر موافق نہیں ہوتے۔ یہ جانے والا نامور بھی تھا، موافق بھی تھا، دل پسند بھی تھا۔ وہ جتنا خوش شکل تھا اتنا ہی خوش لحن بھی تھا۔ بات کہنے کا انداز ایسا دلربا و دل نواز کہ وہ کچھ بھی کہے کان میں رس گھولتا تھا۔ لیکن وہ کچھ بھی کہنے کا تو عادی ہی نہ تھا۔ ہمیشہ بھلی بات کہتا تھا، جو کہتا تھا ناپ تول کر، ٹھوک بجا کر کہتا تھا- عالمی معاملات و مسائل اتنے الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ عام عقل کا آدمی انھیں سمجھ ہی نہیں پاتا، اور اگر معاملہ اسلام اور مسلمانوں کا ہو تو حقیقت پر اتنی تہیں چڑھا دی جاتی ہیں کہ معاملے کا سرا سُجھائی ہی نہیں دیتا۔ لہٰذا حماس ہو، حسن نصراللہ ہوں، طالبان ہوں، داعش ہو، مصر کی اخوان المسلمون، ترکی کی رفاہ پارٹی سے اردوان کی جسٹس پارٹی کا برآمد ہونا ہو، الجزائر کے راشدالغنوشی کا مذہبی سیاست سے تائب ہونا ہو، قطر کا یوسف القرضاوی کا میزبان ہونا ہو۔۔۔ ایسی مشکل ڈور کا سرا عبدالغفار عزیز آسانی سے اپنے سامع کو پکڑا دیتے تھے- ایک اچھے مقرر کی طرح اُن کی تقریر میں فہم وفراست، علم، سادگی، ابلاغ، وضاحت کے ساتھ اخلاص، سچائی، دل سوزی منفرد تھی- ان کے جملے ادا زبان سے ہوتے تھے پَر نکلتے دل سے تھے، اور سیدھے سامع کے دل میں کھب جاتے تھے- دنیا کا ذرا سا نقصان کرنے والے بھی رٹ لگائے رکھتے ہیں: میرے سامنے دنیا کھلی ہوئی تھی، میں ہر طرح کا عیش کرسکتا تھا، مجھے سارے آرام میسر تھے، دنیا میرے آگے بچھی جارہی تھی، پَر میں نے اسے چھوڑ دیا- عبدالغفار عزیز نے کبھی اپنے سامع کو یہ بتایا ہی نہیں کہ انھوں نے کہاں سے پڑھا، کون کون ان سے جڑا ہوا ہے، کس کس صاحبِ اختیار و اقتدار کی گڈ بک میں ان کا نام درج ہے، دنیا کمانے کے کیسے کیسے مواقع ان کو حاصل ہیں، کیریئر بنانے کے کتنے راستے انھیں ملے- میں نے کئی دہائیاں انھیں سنا اور دیکھا لیکن ان کی ذات کے بارے میں کچھ نہ معلوم ہوا۔ غالباً اپنا آپ وہ صرف اللہ کے سامنے بیان کرتے ہوں گے- کہا جاتا ہے کہ جانے والے کی کمی بہت دیر تک محسوس ہوگی- کسی بھی جانے والے کی کمی کبھی پوری نہیں ہوتی، سب کے اپنے اپنے وصف ہوتے ہیں، لیکن یہ جانے والا تو اخلاص، قربانی،بے غرضی، استغنا کا اتنا بڑا پہاڑ کھڑا کرگیا ہے کہ نجانے کون اسے سر کر پائے گا! وہ نام کا ہی عزیز نہ تھا اور کسی خاص کا ہی عزیز نہ تھا، وہ تو ایک جہان کو عزیز تھا- خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ، ہم نےسونا سپردِ خاک کیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون

حصہ