ستم کا آشنا تھا وہ

275

شخص نہیں، وہ تو تحریک تھا…مسکراتا چہرہ۔ کئی بار بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔گفتگو کا عجب انداز تھا۔ بین الاقوامی حالات کے ساتھ جوڑ کر اسلامی دنیا کو اس طرح پیش کرتے کہ سامع خود کو وہاں موجود پاتا تھا۔ عربی، فارسی، انگریزی اور کئی بڑی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ تقریر کے دوران الفاظ کا استعمال اس طرح کرتے کہ جیسے موتیوںکی لڑی ہو۔ ان خوبیوں کی وجہ دراصل ان کا اپنے کام کے ساتھ اخلاص تھا۔
محترم عبدالغفارعزیز اس شعر کے مصداق تھے

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

وہ رہتے تو پاکستان میں تھے مگر ان کا دل پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ یہ مردِ مجاہد ہر وقت تیار رہتا تھا کہ کب دنیا کے کسی کونے سے کوئی پکارے تو میں اس کے پاس پہنچوں۔ اسلامی دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی اجتماع ہوتا، اللہ کا یہ بندہ پہنچتا اور اپنی پوری قوت سے امت کے مسائل کو اجاگر کرتا، اور اپنی کوشش کی آخری حد تک جاتا کہ مسئلہ حل ہوجائے۔
کشمیر میں بھارت کی سفاکی ہو، فلسطین میں صہیونی مظالم ہوں، لیبیا اور شام میں خانہ جنگی ہو، یا عراق اور افغانستان میں امریکی بمباری… ہر ایک کے لیے تڑپتے۔آپ کی جدوجہد صرف مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہ تھی، بلکہ یہ جدوجہد مظلوم انسانیت کے لیے تھی۔ ایک بہت بڑا خلا ہے جو اُن کی رحلت سے پیدا ہوا ہے۔ نہ صرف جماعت اسلامی اپنے ڈائریکٹر امورِ خارجہ سے محروم ہوئی ہے بلکہ ایک توانا آواز خاموش ہوگئی ہے جو کہ اہلِ کشمیر، اہلِ فلسطین اور دنیا کے مظلوم انسانو ں کے لیے اٹھا کرتی تھی۔
عبدالغفار عزیز ایک دینی اور متمول خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی پرورش دینی ماحول میں ہوئی۔ اسلام کی محبت گھٹی میں پڑی تھی۔ ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے قطر تشریف لے گئے جہاں معہد العلوم الشرعیہ سے عربی زبان اور عربی ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آپ کو قرآن و حدیث اور سیرت سے بڑی وارفتگی تھی۔ آپ ایک کہنہ مشق قلم کار تھے۔ آپ کی تحریریں اس بات کی گواہ ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی سے فیض پایا اور تعلیم و تربیت کی منازل طے کیں۔ علامہ ان سے بے حد محبت کرتے۔ علم کی جستجو ان کی زندگی کا نمایاں حصہ رہا۔ اس کے بعد انہوں نے قطر یونیورسٹی سے جرنلزم کی ڈگری حاصل کی۔ آپ شیخ الاستاذ عبدالغفار عزیز بھی کہلاتے تھے، اس کی وجہ آپ کی علمی شخصیت تھی۔
عبدالغفار عزیز نے اپنی زندگی دین کے لیے وقف کررکھی تھی۔ آپ کو زندگی میں بڑے مواقع ملے جب آپ اِس دنیا میں جاہ و منصب حاصل کرسکتے تھے، مگر آپ نے اپنے آپ کو دنیا میں الجھانے کے بجائے اقامتِ دین کے راستے کا انتخاب کیا۔ آپ نے بحیثیت ڈائریکٹر امورِ خارجہ جماعت اسلامی اپنے فرضِ منصبی کا حق ادا کیا۔
عبدالغفار عزیز پوری دنیا میں مظلوموں کے حق کے علَم بردار تھے۔ جرأت اور بہادری سے اہلِ فلسطین، کشمیر، برما، شام اور لبنان کے لیے آواز اٹھاتے۔ آپ عالمی اسلامی تحریکوں سے ہر وقت رابطے میں رہتے اور فکرمندی کے ساتھ اپنے کام کو کرتے۔ آپ اتحادِ بین المسلمین کے داعی تھے۔
دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں، ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی تمام جدوجہد کا مرکز و محور ان کی اپنی ذات ہوتی ہے، وہ اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں۔ جب کہ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ جلد بھلا دیے جاتے ہیں، اور دوسری قسم کے لوگ دنیا میں لوگوں کے دل و ذہن میں زندہ رہتے ہیں۔ ان کی زندگی اپنے بعد آنے والوں کے لیے مینارۂ نور کا کام کرتی ہے۔ اپنی ذات کے لیے زندہ رہنا تو آسان ہے مگر دوسروں کے لیے زندگی جینا مشکل ہے۔ لیکن جب انسان دوسروں کے لیے جیتا ہے تو دیکھنے والے کو وہ مشکل میں نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہوتا ہے اور اس پر سکینت نازل ہوتی ہے۔
عبدالغفار عزیز ایک سال سے زائد عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ گاہے بگاہے دعائے صحت کے پیغامات آتے رہے۔ مگر شیخ صاحب اطمینان سے اپنے فرض کو ادا کرتے رہے اور جو عہد اپنے رب سے کیا اُس کو نبھاتے رہے۔ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے، آمین۔

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا
کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی
وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دیئے جلا گیا
سکوت میں بھی اس کے اک ادائے دلنواز تھی
وہ یار کم سخن کئی حکایتیں سنا گیا

حصہ