چڑیل اور زینب سوشل میڈیا پر

505

کوئی دوہفتے‘ بلکہ موٹر وے کیس کے بعد سے ہی مستقل کسی نہ کسی بہانے ’میڈیا سے پھیلتی فحاشی ‘کے خلاف ماحول بن رہا ہے ۔ایک بار پھر پہل کرنے والے معروف صحافی انصار عباسی شروع میں تو شدید تنقید کا نشانہ بنے مگر معاشرے میں اہل خیر کا ساتھ ملتا ہی گیااور تواتر سے میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے لبرل،فحش و عریاں موادکے خلاف سوشل میڈیا پر لہر بنی تو انہوں نے بھی خاصی ہمت پکڑی۔اس ہفتہ یوں تو ایک مقامی بسکٹ کے اشتہار سے بات شروع ہوئی۔ انصار عباسی نے سوشل میڈیا ہی کو فوری ٹول کے طور پر استعمال کیا اور اپنی ایک ٹوئیٹ میں سخت رد عمل دیا اور اُس اشتہارکو مجرا کہہ کر پاکستانی تہذیب، مذہب و ثقافت کے خلاف قرار دے کرمکمل رد کیا ۔انصار عباسی نے وزیر اعظم و پیمرا کو متوجہ کرتے ہوئے لکھاکہ’ بسکٹ بیچنے کے لیے اب ٹی وی چینلز پر مُجرا چلے گا۔ پیمرا نام کا کوئی ادارہ ہے یہاں؟ کیا عمران خان اس معاملہ پر کوئی ایکشن لیں گے؟ کیا پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا؟‘ اس کے بعد عوام اُن کے ہمنوا ہوئے کچھ ہی دیر میں گالا بسکٹ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بن گیا ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کے نتیجے میں سب نے اُس گانے نما اشتہار کو دیکھا مگر ساتھ ہی شدید رد عمل نے چند ہی گھنٹوں میں الیکٹرانک میڈیا پر اُس اشتہار کو نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر علی محمد خان نے ہی کھل کر انصار عباسی کے موقف کی حمایت کی ۔ تاہم فواد چوہدری نے دونوں کو تنقیدکا نشانہ بنایا کہ ’آپ اور علی 24گھنٹے فحاشی کیوں سرچ کرتے رہتے ہیں؟ کوئی پروڈکٹیو کام کیا کریں‘
پیمرا کا اپنا سوشل میڈیا ٹوئٹر اکاؤنٹ اس معاملے میں متحرک نظر آیا اُسنے بھی ریسپانڈ کیا، ساتھ ہی بسکٹ کمپنی کو اشتہار کا دوبارہ جائزہ لینے کابھی کہا۔اسکے بعد ’مجرا ‘ٹرینڈ لسٹ میں شامل ہو ا، اس پر ہر طرف سے باتیں شروع ہوئیں ۔ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ پر تب تک ماحول سازگار ہوتے ہوتے ایک وقت ایسا آیا کہ اتفاق سے اُسی دن عمران خان کی سالگرہ بھی ٹوئٹر پر منائی جا رہی تھی مگر ٹرینڈ لسٹ میں اول نمبر پر ’اپنے دیس کا ہر رنگ حیا والا ‘، ’ پیمرا فحاشی ختم کرو‘ ، انصار عباسی، مجرا، سب ایک ہی لسٹ میں نظر آئے ۔ احادیث، آیات، سخت الفاظ، طنز، افسوس،گالیاں سب توپوں کا رُخ حکومت و پیمرا کی جانب تھا کہ فحاشی ختم کی جائے ۔ شرم و حیا ہی ہماری پہچان ہے ۔صہیب جمال کی تحریر خاصی مقبول رہی جس میں انہوں نے الگ انداز سے سمجھایا ’کل گالا بسکٹ کا ناچتا تھرکتا اشتہار دیکھااور پھر یہ ٹرینڈ بن گیا۔ہماری فیلڈ میں کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آئیڈیا نہ آ رہا ہو تو’لڑکی نچوا لو‘ ۔پروڈکشن ہاؤس کی بھی جان چھوٹ جاتی ہے اور برانڈ مینیجر کی بھی ۔ انڈین آئٹم سانگز بھرے پڑے ہیں، اردگرد کا ماحول بھی بھرا پڑا ہے کہ ساتھی ڈانسر کیا کر رہے ہوں گے، اس میں برانڈ مینجر صرف سیٹھ کو اپنی باتوں سے مطمئن کرتا ہے ۔ اس اشتہار کی پنچ لائن ’میرے دیس کا بسکٹ گالا‘ بہت زبردست ہے۔قصہ مختصر یہ کہ نچوانا آسان ہے نئے آئیڈیاز سوچنا مشکل کام ہے ،پیسہ پھینکو اور سب کرلو۔نظریاتی بات اس اشتہار کی یہ ہے کہ یہ مجرہ یاڈانس ہمارے دیس کا کلچر نہیں ہے آپ جتنا بھی شور کرلیں 95فیصد خاندانی لوگ اب بھی عورتوں کے ناچ پسند نہیں کرتے اور 99.9فیصد مجرہ دیکھنے والے اپنی عورتوں کو بھی ناچتا دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ اشتہار کا سیاسی پہلو، نیازی حکومت سے لاکھ اختلاف سہی، مگر جس طرح یہ لوگ ایسی چیزوں پر ایکشن لے رہے ہیں قابلِ ستائش ہے۔ اشتہار کو بند کرنااچھی بات ہے۔اب آ جائیں انصار عباسی کی طرف یہ اس طرح کی بیہودگیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ دیسی لبرل ان کے خلاف ایک مہم بناتے ہیں، مگر ٹوئیٹر پر جس طرح ان کا ساتھ دیا گیا میرا خیال ہے دیسی لبرلز حیران ہیں۔‘ اسی طرح اس ضمن میں #یہ_دیس_رہے گا_اسلامی کا ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں آیا ۔جس پر اظہار تشکر کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مرکزی سوشل میڈیا انچارج شمس الدین امجد نے پیمرا کو متوجہ کرتے ہوئے لکھا کہ ،’یہ ٹاپ ٹرینڈ اسلامیان پاکستان کی اسلام سے محبت واضح ہے، جس کا مسلسل کئی دنوں سے اس کا اظہار ہو رہا ہے۔ ‘اس میں تحریک لبیک کی جانب سے بھی خاصا حصہ ڈالا گیا ۔
خواتین حقوق کے نام نہاد علمبردار ودیسی لبرل بھی میدان میں کود گئے مگر اپنی لا علمی کی بنیاد پر وہ یہی جواب دیتے رہے کہ خواتین کے ناچنا فحاشی ،عریانی نہیں اور اس اشتہار میں کونسی فحاشی ہے ، عریانی ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے تکے بیانیے خوب شیئر ہوتے رہے ۔ ان سب سے یہی بات ظاہر ہو رہی تھی کہ ان دیسی لبرلز کو نہ ہی مجرے کے لفظی و حقیقی معنی یا تاریخی حوالے معلوم تھے نہ ہی اُن کو عریانی و فحاشی کا مطلب و مفہوم معلوم تھا۔ کرنٹ نامی ایک اور معروف سوشل میڈیا پیج نے ایسے ناچ والے پرانے نشر شد ہ تمام اشتہار کے ٹکڑے نکالے اور طنز کے طور پر یہ سمجھانے کے کوشش کی کہ یہ تو صرف خاتون ناچ رہی تھی اس سے زیادہ مخلوط ناچ والے اشتہارات پہلے بھی نشر ہوتے رہے ہیں ، اب کیا کریں گے؟کہیں میرا جسم میری مرضی کی آواز اٹھی تو کئی لوگوں نے مذہبی انتہا پسندی بلکہ ارشد شریف نے عسکریت کا نام بھی دیا ۔ غریدہ فاروقی لکھتی ہیںکہ’ہم مہذب عورتیں ایسا ڈانس دیکھنا چاہتے ہیں اگر پیمرا نے سوشل میڈیا پر اس اشتہار کی مخالفت کی وجہ سے اس کو بند کیا ہے تو یہ جمہوریت ہے ہم یہ ڈانس دیکھنا چاہتے ہیں۔‘مگر یہ اور اس جیسے کئی لوگ جمہوریت کو ٹول بناتے وقت ظاہر کرگئے کہ جمہوریت کے معنی بھی انکو نہیں معلوم۔ جمہوریت تو اکثرت وہ بھی عددی اکثریت پر چلتی ہے اُس کے مطابق تو ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ بتا رہی تھی کہ اکثریت کس کی ہے تو ایسے میں یہ سب تو اقلیت میں ہو گئے ۔اس میں ایسے ایسے لوگ شامل تھے کہ کیا نام لکھوں ۔کسی نے کری ایٹیو لبرٹی (تخلیقی آزادی)، کسی نے خواتین کو دباناقرار دیا۔ یہ بھی کہاگیاکہ ’پاکستان میں آپ گینگ ریپ ہو سکتے ہیں مگر بسکٹ اشتہار میں ناچ نہیں سکتے۔‘ایسا کیا کردیا مہوش حیات نے جو پہلے نہیں ہوااور ہماری اخلاقی اقدار کو خطرہ لاحق ہوگیا۔‘
اب ایک بد بخت نے اس میں مزید تیلی لگائی اور مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے اشاروں پر چلنے والے بھارتی نشریاتی ادارے ’زی‘ کی پروڈیوس کردہ ویب سیریز کا ایک کلپ شیئر کر دیا۔مذکورہ ویب سیریز ’چڑیل‘ کے عنوان سے پاکستانی اداکاراؤں ، مصنف کو پاکستانی معاشرتی اقدار کو مسخ کرنے ، اُس کے تاریک پہلوؤں کو نمایاں کر تے ہوئے ایک نئی لائن کرانے کے لیے بنائی گئی تھی ۔ اس سیریز کا ایک انتہائی فحش ڈائیلاگ پر مشتمل کلپ ڈال کر انصار عباسی ، پی ٹی اے وپیمرا کو متوجہ کیا گیا ۔ اب نا معلوم طنز یہ تھا یا حقیقت میں متوجہ کرنا تھا مگر اسکے بعد دو دن یہ سیریل موضوع بن گئی اور حیرت انگیز طور پر یہ سیریز بھی پاکستان میں بین کر دی گئی ۔ مذکورہ سیریز ویسے ہی لمیٹڈ استعمال کنندگان کے لیے تھی ، میری رائے میں اِسکو موضوع نہیں بنانا تھا لیکن بہر حال پابندی لگ گئی اورپہلے دن یہ احتجاجی طور پر دوسرے دن مجموعی یعنی اسکے حق میں اور مخالفت دونوں کی وجہ سے ٹرینڈ لسٹ پر چھائی رہی۔لوگ اس سے زیادہ کچرا مواد کا حوالہ دے کر اس کے جائز ہونے کی دلیل دے رہے تھے مگر الحمدللہ اکثریت نے ان سب کو رد ہی کیا۔
اس دوران 8اکتوبر کو ہی ایک تو جامعہ کراچی میں واقع آئی بی اے کے گرلز ہاسٹل میں مقیم لڑکیوں کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا جنہیں مبینہ طور پر جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ، اُس کے کچھ ہی گھنٹے بعد چار سدہ میں ڈھائی سالہ معصوم بچی زینب کی لاش ملنے کی دل خراش خبر آگئی۔کسی نے لکھا کہ ’ نام زینب کیا رکھ لیا …ساری دنیا ہی یزید بن گئی‘۔ ابتدائی پولیس معلومات کے مطابق اس معصوم سی ڈھائی سالہ بچی کو منگل کو اغوا کیا گیا اور جمعرات کی صبح لاش ملی ۔ پولیس کے مطابق بچی کو زیادتی کے بعد انتہائی درندگی سے قتل کر دیاگیاتھا۔سوشل میڈیا پر اس کے بعد ایک بار پھر جسٹس فار زینب کے ساتھ ، موضوع فحاشی ، زیادتی کے مجرم کو کھلے عام سزائے موت کا مطالبہ زور پکڑگیا اور ٹرینڈ بن گیا۔ لکھنے والو ں نے لکھا کہ ’ یہ گالا بسکٹ ، یہ چڑیل سیریز و دیگر بے باک جنسی مواد کے اثرات ہی ایسے جنسی درندے پیدا کرتے ہیں جو ہماری معصوم بچیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘ موٹر وے کیس کا مرکزی مجرم بھی اب تک گرفت میں نہیں آیا ، کراچی کی مروہ کا بھی ایک مرکزی مجرم غائب ہے کہ ایک نیا دردناک کیس سا منے آیا۔ سب نے اس کے پیچھے میڈیا کی پھیلتی بے حیائی کو ذمہ دار قرار دیا۔
نواز شریف کی اے پی سی تقریر کے بعد حکومتی بوکھلاہٹ عجیب کیفیت اختیار کر گئی تھی ، ایسے میں خاتون اول بشریٰ بی بی کے چہرے کی تصاویر سوشل میڈیا پر لیک کر دی گئیں ، جس پر اُن کے شوہر کو یقیناشدید غصہ بھی آیا ہوگا ، مگر انہوںنے مبینہ طور پر جو بھی کیا ڈی جی ایف آئی اے کے آنے والے بیان نے ہلچل مچا دی ۔کیا سچ ہے کیا جھوٹ ۔ ہم اس میں نہیں جاتے مگر سوشل میڈیا پرن لیگ بمقابلہ پی ٹی آئی فالوورز نے ’ایکسپوز‘ ، ’غدار‘ ، ’والیم دس کھولنے‘ ، ’ یادداشت کا امتحان‘ کے ہیش ٹیگ تلے خوب شور مچایا اور ماضی یاد دلا کر کھنگالتے رہے ۔یہی نہیں بلکہ نواز شریف وغیرہ پر غداری کی ایف آئی کٹوانے والے کو بھی سامنے لایا گیا اور ماضی کھنگال دیاگیا۔ایسے میں 8اکتوبر کو پاکستان میں آنے والے زلزلے کو بھی سوشل میڈیا پر یاد رکھا گیا۔8اکتوبر کوپاکستان میں کرولوش عثمان کا ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں شامل ہونا اچھا پیغام دے رہا تھا۔ 7اکتوبر کی شب ترکی کی معروف ترین تاریخی ڈرامہ سیریز کرولوش عثمان (ارتغرل غازی)کا تسلسل پاکستان سمیت دُنیا بھر میں اپنے کروڑوں شائقین کے انتظار کوتسکین دیتا ہوا ساتویں سیزن میں داخل ہواتھا۔ یقین کریں مہمت بوزداغ نے چھٹا سیزن 27اقساط میں ایسی جگہ لا کر چھوڑا تھا کہ آگے کے لیے سب ہی بے چین تھے ۔ ارتغرل کے ترجمہ کے لیے تو گیو می فائیو ہی اول و آخر تھے البتہ عثمان کے ترجمے کو ریلیز کرنے کے لیے کوئی دسیوں ویب سائٹس پاک ترک دوستی، محبت وغیرہ کے عنوان سے فعال نظرا ٓرہی تھیں۔
جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اور خارجہ امور کے ڈائریکٹر عبدالغفار عزیز بھی اسی ہفتے کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے انتقال کر گئے۔ سفیر اُمت عبدالغفار عزیز کے ہیش ٹیگ کے ذیل میں ٹوئٹر پر جماعت اسلامی نے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔

حصہ