مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تاریخ کے آئینے میں

595

مرتب: اعظم طارق کوہستانی
گزشتہ سے پیوستہ
قیام جماعت اسلامی سے قیام پاکستان تک کی زندگی (۱۹۴۱ء۔ ۱۹۴۷ء)۔
مولانا مودودیؒ کے خیالات نے ایک جامع اور جی دار تحریک برپا کرنے کی راہ اختیار کرلی۔ ترجمان القرآن میں ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘‘ کا مضمون بھی شائع ہوا۔ جس کے بعد اُنھوں نے ۲۵۔ ۲۶؍ اگست ۱۹۴۱ء کو منعقد ہ ایک اجتماع میں ایک نئی تنظیم’’جماعت اسلامی ‘‘ کے نام سے قائم کی۔ تنظیم کی تاسیس اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفر اقبال کی کوٹھی سے متصل مسجد کے سامنے مولانامودودیؒ کی رہائش گاہ میں ہوئی جس میں پورے ہندوستان سے ۷۵ افراد نے شرکت کی۔ اس عرصے میں آپ لاہور میں مقیم رہے۔ علامہ اقبال کی دعوت پر جنوبی ہند سے شمالی ہند اور پھر شمالی ہند کے اہم مرکز لاہور کو اپنی تحریک کے صدر مقام کے طور پر آپ نے منتخب کیا۔ بعد ازاں ۱۹۴۲ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر یہ فیصلہ کیاگیاکہ بہتر تحقیقی اور تربیتی کام کے لیے مرکز جماعت کو دارالاسلام پٹھانکوٹ منتقل کردیاجائے۔
جماعت اسلامی کے اکابرین پٹھانکوٹ منتقل ہوگئے۔ پہلا کل ہند اجتماع ۱۹۴۵ء میں دارالاسلام پٹھانکوٹ میں منعقد ہوا ۔جس میں ۸۰۰؍ افراد نے شرکت کی جبکہ دوسرا اجتماع ۱۹۴۶ء میں الہ آباد میں منعقد ہوا جس میں ۲۰۰۰؍ افراد شریک ہوئے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاسی کشمکش عروج پر پہنچ چکی تھی اور پاکستان وجود پذیر ہو رہاتھا۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میں ۴ جگہوں پر اجتماعات منعقد کیے گئے۔ متوقع مغربی پاکستان کے دارالاسلام، متوقع بھارت کے کارکنان کے لیے مدراس، پٹنہ اور ٹونک میں اجتماعات منعقد ہوئے اور متوقع پاکستان اور متوقع بھارت کے کارکنان کے تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ اس عرصے میں ’’دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار‘‘، ’’اسلام اور جاہلیت‘‘، ’’شہادت حق‘‘ اور ’’تحریک اسلامی کی اخلاقی بنادیں‘‘ جیسی کتابیں تصنیف کی گئیں۔ ۱۹۴۲ء میں معرکۃ الآرا ’’تفہیم القرآن‘‘ کی تصنیف کاآغاز ہوا۔
ضلع گورداس پور تقسیم ہند کے وقت متنازعہ ضلع بن گیا اور ہندوستان نے قبضہ میں لے لیا۔ پٹھانکوٹ اسی ضلع میں واقع تھا۔ ہندوئوں اور سکھوں کے حملوں کے پیش نظر اطراف کے ۸۰۰۰ کے لگ بھگ مسلمانوں نے دارالاسلام میں پناہ لی جنھیں آہستہ آہستہ کرکے اگست ۱۹۴۷ء میں پاکستان روانہ کیا گیا۔ ہجرت پاکستان کے ان آخری لمحات میں ہنگامہ آرائی کے دوران ایک کارکن شہید ہوگیا اور تمام کتب ،ریکارڈ ،مسودات ، یادداشتیں اسی جگہ رہ گئیں اور مولانا مودودیؒ نے تمام پناہ گزینوں کی روانگی کے بعدآخر میں لاہور میں ہجرت کی۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دور کی زندگی (۱۹۴۷۔۱۹۵۱ء)۔
مولانامودودیؒ جماعت اسلامی کے قافلے کے ہمراہ اوآخر اگست ۱۹۴۷ء میں لاہور پہنچے۔ مولانامودودیؒسمیت ابتدا میں جماعت اسلامی کی کارکنان اور اہل خانہ گوالمنڈی، سوہن لال کالج اورا سلامیہ پارک خیمہ بستی رہے اور پھر اچھرہ لاہور میں مکانات کراے پر لے کر مقیم ہوگئے۔ مرکز جماعت اچھرہ کو بنایا گیا تاہم راولپنڈی میں بھی ذیلی مرکز قائم کیا گیا۔ یہ وقت فکری کام سے زیادہ رفاہی کام کاتقاضا کررہاتھا لہٰذاکار کنان جماعت نے مہاجرین کی خدمت لاشوں کی تدفین اور لاہور کی صفائی کے کام کاآغاز کیا۔ مغربی پاکستان کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے نظم جماعت قائم کیاگیا اور مشرقی پاکستان میں کام کے آغاز کے لیے افراد کاتعین کیاگیا۔
قیام پاکستان کے بعد انگریز کانظام ختم ہوا اور دستور ساز اسمبلی کو مملکت کے نظریات کی روشنی میں دستور سازی کااختیار دیاگیا۔ اس نکتے کے پیش نظر مولانا مودودی ؒنے فکری اور دعوتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام (دستور وحکومت )کو اسلامی قانون کے مطابق قائم کرنے کی نئی جدوجہد کاآغاز کیا۔ملک کے تعلیمی اداروں میں تقریبات اور ریڈیو پاکستان پر اسلامی نظام سے متعلق بے شمار تقاریر کیں جس ملک کے اسلامی نظام سے متعلق خاکہ بیان کیا۔ دستور سازاسمبلی کے دستور کی تیاری کا آغاز کیا تو مولانا مودودیؒ نے دستور کے مقاصد کے تعین پر زور دیاکہ دستور کی تیاری سے قبل دستور کے مقاصد واضح ہونے چاہیے۔
مطالبہ اسلامی دستور نے زور پکڑا تو حکومت نے جہاد کشمیر کو حرام قرار دینے اور سرکاری ملازمین کو بغاوت پر اُکسانے کے الزام لگا کرمولانا مودودیؒ کو ملک میں متنازعہ کرنے کی کوشش کی تاکہ جماعت اسلامی کی مطالبہ اسلامی دستور کی تحریک کمزور پڑجائے اور یوں مولانامودودیؒ اور جماعت اسلامی کے خلاف کھل کر الزام تراشیوں کا آغاز اسی دور میں ہوا۔ مولانامودودیؒ اور جماعت اسلامی کے دیگر رفقا کو دو سال (۱۹۴۸ء۔ ۱۹۵۰ء) کے لیے قید کردیا گیا لیکن گرفتاری کے دوران مطالبہ اسلامی دستور کے شدت پکڑنے کی وجہ سے ۱۹۴۹ء میں ’’قرار داد مقاصد ‘‘ منظور کرلی گئی اور ملک میں اسلامی قانون کے تشکیل کی بنیاد ڈال گئی۔ الحمدللہ ۱۹۵۱ء میں پنجاب میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ شمولیت اختیار کی اور رائج سیاست سے ہٹ کر دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں شمولیت پر تفصیلی ایجنڈا اور طریقہ کار وضع کرکے عوام کے سامنے پیش کیا۔
۲۰ ماہ کی اس گرفتاری کے دوران مولانامودودیؒ نے ’’تفہیم القرآن ‘‘ ، ’’تفہیمات‘‘،’’رسائل و مسائل‘‘، ’’سود حصہ دوم‘‘ اور ’’مسئلہ ملکیت زمین ‘‘ قلم بند کیے۔ اسی عرصے میں حکومت نے دستوری اصولوں کی رپورٹ شائع کی جسے علما نے ردکردیا۔ رہائی کے فوری بعد مولانامودودی نے ملک گیر دورے کیے اور رپورٹ کی خامیوں کی نشاندہی کی۔ بعد ازاں مولانامودودی سمیت تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے ملک کے ۳۱ علما نے ۱۹۵۱ء میں متفقہ ’’۲۲ نکات‘‘ تیار کرکے حکومت کو پیش کیے کہ ان اصولوں پر مبنی دستور بنایاجائے۔
قیام پاکستان کے بعد کادوسرا دور (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۷ء)۔
’’اسلامی دستور کی تدوین ‘‘تصنیف ہوئی اور ۲۲ نکات کی روشنی میں مطالبہ نظام اسلامی مہم کاآغاز کیا گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔ مشہور کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ اسی عرصے میں تصنیف ہوئی، تاہم انہی تحریکوں کے دوران لاہور میں مارشل لا لگ گیا اور مولانامودودیؒ سمیت جماعت اسلامی کی پوری مجلس شوریٰ کو گرفتار کرلیاگیا۔ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ کی پاداش میں مولانامودودی کو سزائے موت سنا دی گئی تاہم ملکی اور بین الاقوامی ردعمل کے بعد سزا عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ آپ ۱۹۵۳ء تا ۱۹۵۵ء تک گرفتار رہے۔ تفہیم القرآن جلد اول اور دوم بالترتیب ۱۹۵۱ء اور ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی۔
دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۵۶ء میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں پاکستان کا پہلا دستور مرتب کرلیا ۔ یہ جماعت اسلامی کی ۹ سالہ جدوجہد کا ثمر تھا۔ دستور کی روشنی میں ۱۹۵۸ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات کا اعلان کیاگیا جس کی روشنی میں جماعت اسلامی نے اپنا پہلا منشور تیار کیا لیکن ایک سال بعد ہی ۱۹۵۷ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگا کر دستور ختم کردیا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگادی۔
قیام پاکستان کے بعد تیسرا دور (۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۹ء)۔
۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی کے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں ملکی حالات اور قیام پاکستان کے بعد حالات میں جماعت اسلامی کے لائحہ عمل پر بحث مباحثہ ہوا اور ’’تحریک اسلامی کاآئندہ لائحہ عمل‘‘ کی صورت میں اجتماع سے کی گئی تقریر کتابی صورت میں مرتب کی گئی اور جماعت اسلامی کے آئندہ لائحہ عمل پر یکسوئی اختیار کی گئی۔
۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۲ء جماعت اسلامی پر دیگر جماعتوں کے ہمراہ پابندی رہی۔ جنرل ایوب خان ۱۹۶۲ء کا نیا دستور نافذ کرکے سیاسی جماعتوں کو بحال کردیا مگر جماعت اسلامی نے نئے دستور کی خامیوں کے خلاف مطالبہ اسلامی کی تحریک شروع کردی ۔۱۹۶۳ء میں اسی سلسلہ میں لاہور میں کل پاکستان اجتماع عام منعقد کیا گیا۔ جس میں مولانامودودی پر حملہ کی کوشش ناکام ہوئی اور ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوئے۔ جماعت اسلامی کی بحالی دستور اور اسلامی نظام کے مطالبہ کی تحریک کو دبانے کے لیے بالآخر ۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی اور مولانا مودودیؒ سمیت پوری مجلس شوریٰ کو ۱۰ ماہ تک کے لیے قید کر لیا گیا۔ بحالی کے بعد جماعت اسلامی نے جنرل ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔
اس عرصے میں تین ماہ تک ایک طویل دورہ ’’سفر ارض القرآن ‘‘ کے عنوان سے حجاز، فلسطین ،مصر ، شام اور اردن کا کیا اور تاریخی مقامات کے نقشہ بنائے۔ اسی طرح تین سال متواتر سعودی عرب کے دورے ہوئے ۔ یہ موقع تھا جب آپ بین الاقوامی سطح پر ایک سکالر کی حیثیت سے معروف ہوچکے تھے۔ ۱۹۶۰ء میں شاہ سعودکی دعوت پر سفر سعودی عرب ہوا۔ شاہ سعود نے مدینہ میں اسلامی یونیورسٹی کے قیام پر مشاورت کی اور مولانا نے تفصیلی خاکہ اجلاس میں پیش کیا۔ ۱۹۶۲ء میں شاہ سعود کی دعوت پر ہی حج کے موقع پر اسلامی ممالک کے جید علما پر مشتمل ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ کا قیام ہوا۔ مولانامودودیؒ نے رابطہ عالم اسلامی کے لیے اصولوں پر مبنی ’’عدل اجتماعی حقیقت اور طریقہ کار‘‘ پر تقریر کی۔ ۱۹۶۳ء میں رابطہ عالم اسلامی اور مدینہ یونیورسٹی کے بورڈز کے اجلاسوں میں شرکت کی جبکہ حاجیوں کے لیے ’’خطبات حرم‘‘ اور نوجوانوں کے اجتماع سے ’’عہد حاضر میں نوجوانوں کے فرائض‘‘ پر تقاریر کیں۔ دوسری جانب ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد سوم اور چہارم ۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئیں جبکہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریک کے مقابلہ میں لٹریچر تیار ہوا ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘، ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ اور ’’ختم نبوت‘‘ اسی عرصے میں تصنیف ہوئیں۔
۱۹۶۷ء میں ’’’عید کے چاند‘‘ پر حکومتی حمایت نہ کرنے کے معاملہ پر دیگر علما کے ساتھ آپ کو تین ماہ کے لیے ایک مرتبہ پھر قید کردیا گیا۔یہ آپ کی چوتھی اور آخری گرفتاری تھی۔ ۱۹۶۸ء میں گردے کے علاج کی غرض سے لندن میں ۵ ماہ قیام کیا۔ اس دوران آپ کے دوآپریشن ہوئے۔
آخری دور (۱۹۶۹ء ۔ ۱۹۷۹ء)۔
۱۹۶۹ء میں حکومت سعودی عرب کی جانب سے شاہ فیصل ایوارڈ ملا۔
ایوب کے اقتدار کی منتقلی عام انتخابات کی آڑ میں پاکستان میں صوبائی اور لسانی تعصب کے پیش نظر آپ نے اسلام کو مملکت کی یکجہتی قرار دیتے ہوئے ۱۹۷۰ء میں ’’یوم شوکت اسلام‘‘ کا اعلان کیا۔ لاہور میں پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑا جلوس اس کی حمایت میں نکالاگیا تاہم انتخابات کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔
۷ جون ۱۹۷۲ء کو شہر آفاق ’’تفہیم القرآن‘‘ ۳۰ سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اسی سال خرابی صحت کی بنا پر آپ نے جماعت اسلامی کی امارت سے معذرت کرلی اور میاں طفیل محمد جماعت اسلامی پاکستان کے امیرمنتخب ہوئے۔
تفسیر قرآن کے بعد سیرت النبی ؐ پر کام کاآغاز کیا گیا۔ تاہم خرابی صحت کے باعث مکی دور کو ہی مرتب کیاگیا اور ’’سیرت سرور عالم‘‘ کی پہلی جلد ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی۔
مئی ۱۹۷۹ء میں علاج کی غرض سے امریکا چلے گئے اور ۲۲ستمبر۱۹۷۹ء کو امریکا میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ امریکا سے پاکستان تک میت کے سفر میں ۶ مقامات پر نماز جنازہ ہوئی، آخری نماز جنازہ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ۲۶ستمبرکو ادا کی گئی ۔ علامہ یوسف القرضاوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مولانا کی تدفین اچھرہ میں گھر کے باغیچے میں ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حصہ