ظہیر خان کی کتاب’’پیراہن ظرافت‘‘ میں معرفت و محبت کے جلوے ہیں

727

ظہیر خان کا شمار طنز و مزاح کے ادیبوں میں ہوتا ہے‘ ان کے کالم روزنامہ جسارت میں بھی شائع ہوتے ہیں جن کو راقم الحروف نثار احمد نثار بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہے کبھی کبھی ظہیر خان سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کا فون آیا کہ انہوں نے مزاح نگاروں پر تبصرے اور پُر مزاح کالموں پر مشتمل کتاب ’’پیراہنِ ظرافت‘‘ ترتیب دی ہے اور میں یہ کتاب آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں میں ان کی فیکٹری چلا گیا جہاں وہ ایک ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں اس طرح بنیادی طور پر وہ ایک سند یافتہ انجینئر ہیں لیکن علم دوست شخصیت بھی کہ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے مضمون نگاری کا شوق انہیں بچپن سے ہے پہلا پہلا مضمون قرۃ العین پر لکھا جو جسارت اخبار میں شائع ہوا جس کے بعد سے وہ تادمِ تحریر مزاح نگاروں میں شامل ہیں ان کی چلہوٹی کتاب پیراہنِ ظرافت اگست 2020ء میں شائع ہوئی۔ رنگ ادب پبلی کیشنز اردو زبان کراچی نے اس کو بڑی خوبیوں سے آراستہ کیا ہے عمدہ ٹائیٹل اور نفیس کاغذ پر مشتمل یہ کتاب 210 صفحات کا احاطہ کر رہی ہے جس میں دلاور فگار‘ امیر الاسلام ہاشمی‘ انورمسعود‘ پروفیسر عنایت علی خان‘ سرفراز شاہد‘ خالد عرفان‘ مرزا عاصی اختر‘ عبدالحکیم ناصف‘ شوکت جمال‘ صفدر علی انشاء‘ فخراللہ شاد‘ ابوالفراح ہمایوں اور ڈاکٹر ایس معین قریشی کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ صفحہ 133 سے 206 تک ظہیر خان کے اپنے کالم ہیں یہ بڑی معلوماتی کتاب ہے اس کا انتساب ظہیر خان نے اپنی بیوی کے نام کیا ہے۔ عبدالحکیم ناصف نے ظہیر خان کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے‘ وہ کہتے ہیں:۔

ارضِ مزاح و طنز کے خاور ظہیر خان
ہیں مسکراہٹوں کے سمندر ظہیر خان
حالات کچھ ہوں عہدِ ظرافت کی سرگزشت
لکھتے ہی جا رہے ہیں برابر ظہیر خان

اطہر ہاشمی مرحوم نے ظہیر خان کے بارے میں لکھا تھا کہ انہوں نے اپنے پیراہن میں مزاح کے شاعروں اور نثر نگاروں کا تعارف کرایا یہ کام وہی کر سکتا ہے جس میں خود حسِ لطیف اور مزاح کے جراثیم ہوں۔ ان کی شگفتہ تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ ظہیر خان ایک دن بہت بڑے مزاح نگار بن جائیں گے۔
پروفیسر انور مسعود کہتے ہیں کہ ظہیر خان ہر شاعر و نثر نگار پر لکھتے ہوئے ایسے عنوانات تراشتے ہیں جو شگفتہ بھی ہوں اور موضوع کی مناسب سے انتہائی موزوں بھی۔ ان کے مضامین میں غیر شائستہ جملے اور پھکڑ پن نہیں ہے‘ ان کا اسلوبِ بیان نہایت سلیس اور ظرافت انگیز ہے۔ پروفیسر عنایت علی خان مرحوم نے ظہیر خان کے لیے لکھا تھا کہ ان کی کتاب اردو زبان و ادب کے مزاح میں ایک اضافہ ہے یہ کتاب قارئین سے خوب داد وصول کرے گی۔ یہ تحریریں ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ بہت اچھے مزاح نگار بھی ہیں۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کہتے ہیں کہ ظہیر خان کی کتاب میں معرفت اور محبت کے جلوے نمایاں ہیں جس سے ثابت ہوا کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے مزاح نگاری کی جاسکتی ہے‘ ان کا اندازِ بیاں ہلکا پھلکا ہونے کے باوجود مدلل ہے اور قاری کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ انہیں یہ ملکہ بھی حاصل ہے کہ وہ کسی شاعر کے مختلف اشعار کو ترتیب دے کر داستانِ عشق رقم کردیں۔ اس کتاب میں بعض ادبی تقریبات کی روداد بھی دل کش انداز میں پائی جاتی ہے۔
سرفراز شاہد کہتے ہیں کہ ظہیر خان کی کتاب رنگین و نمکین اور پُر لطف لفظوں سے آراستہ ہے‘ یہ عصری فکاہی ادب کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ افشان نوید کہتی ہیں ظہیر خان کی کتاب میں زندہ تحریریں ہیں جو کہ ظہیر خان کی علمی و ادبی بصیرت کا کمال ہے۔ احمد حاطب صدیقی کے نزدیک ظہیر خان نے عمدہ مزاح نگاری کے سبب ہمارے دلوں میں اپنا گھر بنا لیا ہے‘ ان کا سلوب بیان انہیں زندہ رکھے گا۔ ابوالفرح ہمایوں کہتے ہیں کہ ظہر خان نے اپنے مضامین کو بھرتی کے الفاظ کے ذریعے طویل نہیں بنایا بلکہ روز مرہ کی زبان میں بات کرتے ہوئے وہ اپنے قارئین کو ہنساتے اور گدگداتے رہتے ہیں۔ نگہت ظہیر کہتی ہیں کہ ظہیر خان کے فکاہیہ کالم لطافت و ظرافت سے بھرپور ہیں انہوں نے معاشی ناہمواریوں‘ معاشرتی مسائل اور انسانی روّیوں کو بہت خوب صورتی سے لکھا ہے۔ شاعر علی شاعر کہتے ہیں کہ ظہیر خان کی کتاب ان کی طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں کا مجموعہ ہے صاحبِ کتاب ایک وسیع المطالعہ ادیب ہیں ان کی تحریروں میں طنز و مزاح پوری روانی سے دوڑ رہا ہے جو انہیں دوسرے ہم عصر مزاح نگاروں سے منفرد و ممتاز کرتا ہے۔ رقم الحروف نثار احمد نے اس کتاب کو پڑھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ آج کے گھٹن زدہ ماحول میں یہ کتاب آکسیجن فراہم کر رہی ہے کہ اس کو پڑھ کر دل و دماغ روشن ہوتے ہیں۔ ظہیر خان کی تحریروں میں زندگی موجود ہے انہوں نے بڑے دل کش پیرائے میں قارئین کے لیے خوش گوار ماحول پیدا کیا ہے ان صاحب کی پیغام رسانی میں لطف ہے ان کے جملے سن کر لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ ظہیر صاحب بہت خوش مزاج انسان ہیں‘ ان سے مل کر خوشی ہوتی ہے‘ ان کے مضامین میں کوئی ناشگفتہ حرف نہیں ہے ان کی اہلیہ نکہت ظہیر کے بقول یہ اپنے مضامین کی نوک پلک درست کرتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شاعر و ادیب خود اپنا محاسبہ رکھے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ انہوں نے حس مزاح گو‘ حس مزاح نگارپر بات کی ہے اس کی زندگی کے اہم گوشے منکشف کیے ہیں۔ ان کی تحریروں سے میری معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت سے نوازے‘ آمین۔

محمد اسلام کی ’’سرگوشیاں‘‘ معاشرتی احوال کا منظر نامہ ہے

فرید پبلشرز کراچی کی شائع کردہ کتاب ’’سرگوشیاں‘‘ دراصل محمد اسلام کی مزاح نگاری سو لفظی کہانیاں ہیں یعنی اس کتاب میں 100 مضامین شامل ہیں اس کتاب کی اشاعت سے قبل محمد اسلام نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں المیہ بوسینیا ہرزگوینیا‘ پارلیمنٹ ہائوس‘ عین غین‘ مزاح صغیرہ و کبیرہ اور یوٹرن کریسی شامل ہیں۔ صاحب کتاب کراچی کے ایک بڑے اخبار میں صحافی ہیں کراچی میں ہونے والی تمام اہم ادبی تقریبات میں شریک ہونا ان کا ہابی ہے‘ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ادبی منظر نامے سے جڑے رہتے ہیں‘ ان کی کتاب ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے انہوں نے بڑے دل کش اور دل نشین انداز میں سو کہانیاں لکھی ہیں ہر کہانی سبق آموز ہے۔ ان کے ہاں روانی اور شائستگی پائی جاتی ہے‘ جملے بہت چست ہیں کہ دل پر اثر کرتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ مزاح لکھنا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ اس میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ سامنے والا ناراض نہ ہوجائے لہٰذا لفظوں کے در و بست کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ محمد اسلام نے اپنی تحریروں میں اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ انہوں نے بہت سادے بیانیے میں اپنا نظریہ بیان کیا ہے یہ کتاب ان کے ذاتی تجربات اور معاشرے کے احوال کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے اس کتاب پر تبصرہ کرنے والے محمد اکرم کنجاہی‘ نسیم انجم ہیں جب کہ فلیپ پر سحر انصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی‘ ڈاکٹر عبدالرئوف پاریکھ‘ ڈاکٹر ایس ایم‘ معین قریشی اور پروفیسر انوار احمد زئی کی آرا شامل ہیں۔ محمد اکرم کنجاہی کے نزدیک محمد اسلام کی تحریر میں کہیں بھی الفاظ افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوئے‘ کہیں غرابت لفظی کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کتاب کی ہر کہانی کی ’’پنج لائن‘‘ مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ نسیم انجم کہتی ہیں کہ محمد اسلام اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان میں سے کہانیاں نکال کر قارئین کے سامنے لے آتے ہیں ان کے یہاں طنز و مزاح کے جدِّ امجد جعفر ٹلی کا رنگ نظرآتا ہے۔ محمد اسلم عوام الناس میں مسکراہٹیں نچھاور کر رہے ہیں۔ سحر انصاری کے نزدیک محمد اسلام تخلیقی ذہن کے مالک ہیں‘ انسانی اقدار کی بحالی کے لیے وہ طنز و مزاح کی تحریروں سے کام لے رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ عوام کو نارمل رکھنے کے لیے مؤثر تحریروں کی ضرورت ہے۔ محمد اسلام نے سماجی‘ سیاسی اور معاشرتی مسائل کی طنز و مزاح میں عمدہ عکاسی کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرئوف پاریکھ نے کہا کہ محمد اسلام کے کالموں کی بھی یہی خاصیت ہے کہ وہ دل کا درد چھپانے کے لیے مسکراتے ہیں اور قارئین کو بھی اس مسکراہٹ میں شریک کر لیتے ہیں انہوں نے غم اور مزاح کو ملا کر شاید ’’غمِ مزاح‘‘ بنا دیا ہے۔ یہ ان کا اپنا اندازِ سخن ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کہا کہ محمد اسلام کے یہاں خشک اور پھیکے تخیل کی پیداوار کم ہے لیکن دلچسپ اور زرخیز مشاہدات کی رنگینیاں زیادہ ہیں۔ راقم الحروف نثار احمد نثار نے محمد اسلام کی تمام کہانیاں پڑھی ہیں‘ ہر کہانی ایک سے بڑھ کر ایک ہے‘ ان کے نثر پارے‘ ظرافت اور شگفتگی کے ساتھ ساتھ فکر وفہم کے در کھولتے ہیں ان کے طنزیہ جملے براہِ راست حملہ آور نہیں ہوتے بلکہ محمد اسلام استعاروں کے سہارے قارئین کے دل و دماغ تک پہنچ جاتے ہیں‘ ان کی تحریروں میں بے ہودگی اور بد تمیزی نہیں پائی جاتی ہر کہانی پُرلطف ہے‘ ان کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے‘ شعر و ادب‘ سیاست‘ افراطِ زر‘ جدید ایجادات‘ صحافت کے معاملات‘ حکومتِ وقت کی کارکردگی اور معاشرتی کرب ان کے یہاں نظر آتے ہیں۔ ’’سرگوشیاں‘‘ محمد اسلام کا ایک اور ادبی کارنامہ ہے‘ مجھے امید ہے کہ ان کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔

عبدالخالق اللہ والا ٹاؤن میں بزم شعر و سخن کا مشاعرہ

بزمِ شعر و ادب کراچی کا ایک اہم حوالہ یہ بھی ہے کہ ان کے مشاعروں میں سامعین کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے جب کہ اس دور میں مشاعرے کے سامعین دستیاب نہیں۔ راقم الحروف نے ان کے کئی مشاعروں میں شرکت کی ہے‘ ہر مشاعرہ کامیاب اور بہت یادگار ہوتا ہے۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے پڑی کہ میں فہیم برنی کے دعوت نامے پر گزشتہ ہفتے عبدالخالق اللہ والا ٹائون کراچی میں وقار احمد کی میزبانی میں ایک مشاعرے میں شریک ہوا جس کی صدارت اختر سعیدی کے نام تھی لیکن وہ بوجوہ تشریف نہ لاسکے جس کے باعث راقم الحروف نثار احمد نثار مشاعرے کے صدر بنا دیے گئے جس میں عبدالرحمن مومن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر عبید ہاشمی جنرل سیکرٹری نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی تنظیم طویل عرصے سے شعر و سخن کی خدمت کر رہی ہے ہم چاہتے کہ ہماری نوجوان نسل ہماری ثقافت سے روشناس ہو لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ باپ موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوتا ہے مگر بیٹا اپنی گاڑی غلط ٹریک پر چلا رہا ہوتا ہے باپ اسے روکتا نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم نے اپنے رویے نہیں بدلے تو معاشرتی خرابیاں بڑھتی چلی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کو رومن انگلش میں لکھنے سے اردو قتل ہو رہی ہے اس طرف توجہ دیجیے اس زبان کی ترویج وترقی ہماری تنظیم کا منشور ہے۔ شعر و سخن کے صدر طاہر سلطان پرفیوم والا نے کہا کہ ہم نے مارچ 2020ء میں ایک عظیم الشان مشاعرے کا اعلان کیا تھا لیکن کورونا نے مشاعرہ نہیں ہونے دیا اب ہم یہ پروگرام ان شاء اللہ نومبر میں علامہ اقبال ڈے کے موقع پر کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی محفل میں اچھی شاعری پیش کی گئی ہے ہم آئندہ بھی پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ ناظم مشاعرہ کے علاوہ کامران نفیس‘ نعیم سمیر‘ عارف شیخ‘ سلمان ثروت‘ زاہد عباس‘ اسامہ امیر‘ جوہر سہیل اور زمن اعجازنے اپنا کلام پیش کیا۔ صاحب صدر نے کہا کہ آج کے مشاعرے کے تمام شعرا نوجوان ہے سوائے میرے۔ کراچی میں نوجوان نسل شعرا بہت تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں آج بھی ہر شاعر نے عمدہ غزلیں اور نظمیں پیش کیں ان کے اسلوب میں تازہ کاری ہے۔ آج کے مشاعرے کے منتظمین بھی قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے اس علاقے میں علم و ادب کے چراغ روشن کیے۔

کراچی کرچی کرچی ہے

نظر فاطمی

کراچی کی فغاں سن لو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
خدارا اور مت توڑو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
گیارہ سو ارب کا پھر نیا نعرہ لگایا ہے
یہ لالی پاپ پھر دے دو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
ہے کتنا خوب صورت روٹی‘ کپڑا اور مکاں نعرہ
ہماری زندگی چُن لو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
بس اب جلّاد و قاتل اور لٹیروں کے لیے مل کر
ہمیں اب مار ہی ڈالو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
نہ بجلی ہے‘ نہ پانی ہے ارے او عقل کے اندھو
خدا کے واسطے سن لو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
کراچی پالتا ہے ملک بھر سے آنے والوں کو
اسے بدلے میں تم پالو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
تعصب کی فضا کو تم نے کتنا عام کر ڈالا
تعصب دفن کر ڈالو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
امانت کے صداقت کے سبھی اوصاف ہوں جن میں
دیانت دار اور وہ چن لو‘ کراچی کرچی کرچی ہے
مرے اجداد نے شہرِ نگاراں کو سنوارا تھا
نظرؔ اس پر بھی کچھ بولو‘ کراچی کرچی کرچی ہے

حصہ