شکاری سے ہوشیار

334

دروازے پر بیل بجی۔ شازیہ آپا نے دروازہ کھولنے پر نوین کو موجود پایا، جو ہاتھوں میں ایک پیکٹ لیے کھڑی تھی۔
شازیہ آپا درس دینے والی خاتون تھیں، جن کے بیانات اور درس نوین اکثر سنا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ شازیہ آپا کیا درس دیتی ہیں، کسی بھی مسئلے کو منٹوں میں حل کرا دیتی ہیں، کسی بھی بات کو اتنی اچھی مثال دے کر سمجھاتی ہیں کہ لمحوں میں وہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ اسی لیے آج نوین شازیہ آپا کے گھر موجود تھی۔ شازیہ آپا نے نوین سے پوچھا ’’کیا اٹھا کر لے آئیں؟‘‘
’’آپا کچھ نہیں، بس آپ کے لیے دوپٹہ لے کر آئی ہوں۔ اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے دوپٹے پر کڑھائی کی ہے میں نے‘‘۔ نوین نے خوشی سے بتایا۔
آج کے مصروف دور میں بھی ہاتھ سے کڑھائی کرنا اور وہ بھی کسی ’’دوسرے‘‘ کے لیے… یہ نوین کی شازیہ آپا سے عقیدت و محبت کا بڑا ثبوت تھا۔
’’آپا آپ میرے ہاتھ کی پکی چیزیں اتنے شوق سے کھاتی ہیں تو مجھے پتا تھا یہ دوپٹہ دیکھ کر تو آپ بہت خوش ہوں گی، اور جب جب آپ یہ دوپٹہ پہنیں گی تو مجھے دعاؤں سے نوازیں گی۔ آپ کے درس اتنے اچھے ہوتے ہیں، آپ کا بیان تو دل میں اترتا چلا جاتا ہے، آپ کا مسائل کو چٹکی میں حل کروانا اور میری باتوں کو غور سے سننا… اسی لیے تو میں آپ سے اتنی محبت کرتی ہوں اور اپنے ہاتھ سے کاڑھ کر آپ کے لیے دوپٹہ لائی ہوں۔کڑھائی کرکے دوپٹہ تو میں نے اپنی دیورانی کو بھی دیا تھا، لیکن وہ کہنے لگی اتنے سادہ ٹانکے…! یہ تو میری بیٹیاں بھی ٹانک لیتی ہیں۔ آپ یقین کریں دل چاہا کہ کہہ دوں پھر اپنی بیٹیوں کے ہاتھ سے کڑھے دوپٹے ہی پہن لیا کرو ناں۔ ہفتہ بھر پہلے میرے ہاتھ کے کڑھے ڈنڈی ٹانکے اور زنجیری ٹانکے والے میرے دوپٹے پر نظریں کیوں جما رہی تھیں؟ لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہوگئی کہ ’’ناقدروں‘‘ کے کیا منہ لگنا! آپا میں تو کہتی ہوں کہ اللہ آپ جیسی خصوصیات اور صلاحیتیں مجھے بھی دے‘‘۔ نوین اپنی محبت میں ساری باتیں کہے جارہی تھی۔
آپا نے نوین کے ہاتھ سے پیکٹ لیا، اس میں سے دوپٹہ نکالا اور اسے طریقے سے اوڑھ لیا، اور مسکراتے ہوئے اسے دعا دی کہ خدا تمھارے وقت میں برکت دے اور تمھارے اس ہنر میں مزید اضافہ کرے۔ نوین کے لب آمین کہنے کے لیے ہلے کہ آپا نے کہا ’’نوین اگر تم برا نہ مانو تو ایک بات کہوں؟‘‘ نوین نے ہنستے ہوئے کہا ’’آپا اس سے پہلے کبھی کسی بات کا برا مانا ہے جو اب ایسا کروں گی!‘‘
آپا گویا ہوئیں ’’نوین کبھی کبھی مجھے بڑا ڈر لگتا ہے کہ ہم دانستہ یا نادانستہ اپنی نیکیاں بتاکر یا جتا کر انھیں ضائع تو نہیں کررہے ہوتے!‘‘
نوین سمجھ گئی کہ آپا کا اشارہ دیورانی کو دیے گئے دوپٹے کی طرف ہے، لیکن آپا کا انداز اتنا حکمت بھرا تھا کہ نوین کو اپنی بے عزتی محسوس نہیں ہوئی، اور اس کے بعد آپا نے میز پر رکھا کاغذ اور قلم اٹھایا اور کچھ لائنیں بنا ڈالیں جنھیں سینری کہا جا سکتا تھا۔ نوین نے ان لائنوں کو دیکھتے ہی کہا ’’آپا آپ کی تو ڈرائنگ بھی بہت اعلیٰ ہے۔‘‘
آپا نے بہت غور سے نوین کو دیکھا اور اس کے بعد ان لائنوں کو دیکھتے ہوئے بولیں ’’نوین یہ جو درس دینے والے، بیان دینے والے، کچھ لکھنے لکھانے والے والے ہوتے ہیں ناں، ان پر شیطان کا بہت بڑا گھیرا ہوتا ہے، شیطان انھیں بہت زیادہ تنگ کرتا ہے، ان پر حاوی ہونے کے لیے حربے آزماتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اچھے کام کرنے کا بڑا اجر ہے، لہٰذا وہ اس اجر سے محروم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔‘‘
اب آپا نے پینسل کی نوک کو کاغذ پر دبایا اور بولیں ’’نوین شادی کی تقریب میں بھی افراد کی نظریں اسٹیج پر موجود افراد پر ہی ہوتی ہیں ناں! یا پھر افراد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ یہ بات کوئی نہیں سوچتا کہ اس ہال کی ڈیکوریشن میں، ان میز کرسیوں پر کور چڑھانے میں کتنے افراد نے محنت کی، کسی کو نہیں پتا ہوتا کہ ان میز کرسیاں لگانے والے افراد میں سے کون کون بیمار تھا اور اس کے باوجود انھوں نے کام کیے، ان افراد کے کام کے بارے میں کسی کے ذہن میں نہیں آتا۔ دیکھتے سب اسٹیج پر نظر آنے والے افراد کو ہیں۔‘‘
’’شازیہ آپا میں اسی لیے درس دینے کا کام نہیں کرتی۔ پتا نہیں لوگ درس و تدریس کا کام کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’اللہ کا حکم ماننے کے لیے۔ اسی لیے تو شیطان انھیں زیادہ تنگ کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے چھوڑ دو یہ کام، کبھی ستائشی و تعریفی جملے سننے کی خواہش پیدا کرتا ہے، کبھی یہ دماغ میں لاتا ہے کہ دیکھو تمھاری کتنی واہ واہ ہورہی ہے، کتنی تعریفیں ہورہی ہیں… اور پھر ان تعریفوں کا اتنا عادی بنادیتا ہے کہ تنقید برداشت کرنا مشکل کردیتا ہے، اور ایسے میں اپنے حملے مزید تیز کردیتا ہے، اور بسا اوقات درس دینے والے فرد کے ذہن میں لاتا ہے کہ میں تو اس پیدا کرنے والے کا ’’حکم‘‘ سمجھ کر یہ ذمے داری نبھا رہا تھا، میرے دل میں لوگوں کو خوش کرنے اور لوگوں میں اپنی واہ واہ کرانے کی لت کیسے لگ گئی؟
تو پتا ہے ایسے وقت میں وہ تم جیسی محبت کرنے والی کے سامنے یہ بات زبان سے نکلواتا ہے کہ دُعا کرو رب کی بارگاہ میں قبول ہوجائے کہ نوین بھی کہہ دے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود ڈرتی رہتی ہیں کہ پتا نہیں اعمال قبول ہوں گے کہ نہیں۔
نوین! اسٹیج پر نظر آنے والے افراد پر شیطان اپنی نظریں بھی جمائے رکھتا ہے کہ جہاں موقع ملے، وہ ان کے اعمال کو صفر پر لے آئے۔ شاید اسی لیے وہ پیچھے درس و تدریس کی محفلوں میں چاندیاں بچھانے والے، کرسیاں رکھنے والے اور اس انٹرنیٹ کی دنیا میں documentation اور presentation بنانے والے افراد بہت ’’قیمتی‘‘ ہیں۔‘‘
اور شازیہ آپا دعاکرنے لگیں ’’یارب تُو اپنے ان ناتواں بندوں کے اعمال کو ریاکاری اور شرکِ خفی سے بچانا، ان کے لکھے اور بولے کو ان کے خلاف نہ بنانا، ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرنا، اور ان سے راضی ہوجانا… کیوں کہ یہ سامنے نظر آنے والے افراد کا بھی ’’شیطان‘‘بہت بڑا دشمن ہے۔

حصہ