حکمران

379

حجاج بن یوسف کے زمانے میں لوگ صبح کو بیدار ہوتے اور ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی تو یہ پوچھتے: گزشتہ رات کون کون قتل کیا گیا…؟ کس کس کو کوڑے لگے؟
ولید بن عبدالملک مال، جائداد اور عمارتوں کا شوقین تھا۔ اُس کے زمانے میں لوگ صبح ایک دوسرے سے مکانات کی تعمیر، نہروں کی کھدائی اور درختوں کی افزائش کے بارے میں پوچھتے تھے۔
سلیمان بن عبدالملک کھانے پینے اور گانے بجانے کا شوقین تھا۔ اس کے دور میں لوگ اچھے کھانے، رقص و سرود اور ناچنے والیوں کا پوچھتے تھے۔
جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور آیا تو لوگوں کے درمیان گفتگو کچھ اس قسم کی ہوتی تھی ’’تم نے قرآن کتنا یاد کیا، ہر رات کتنا ورد کرتے ہو، رات کو کتنے نوافل پڑھے؟‘‘
اس بات کی تصدیق کہ عوام اپنے حکمرانوں کے نقشِ قدم پر ہوتے ہوئے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت سے ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘۔
اگر حکمران کرپشن، اقربا پروری، ظلم، عدل و انصاف کا خون، جہالت اور دین کی قدروں کو پامال کریں گے تو رعایا بھی گمراہ ہوگی۔ لہٰذا بے دین حکمرانوں سے اقتدار صالح، اہل اور دین دار لوگوں کو سونپنے کی پُرامن جدوجہد صرف سیاست نہیں بلکہ تقاضائے دین بھی ہے۔

حصہ