دائرہ ادب نیویارک کا تاریخی حمدیہ اور نعتیہ مشاعرہ

348

مورخہ۲۶ ستمبر ۲۰۲۰؁ء بروز ہفتہ بوقت ایک بجے نیویارک دائرہ ادب نیویارک کے زیر اہتمام راقم الحروف نے ایک حمدیہ اور نعتیہ مشاعرہ کروایا۔اس مشاعرے کو ڈاکٹر عبدالرحمن عبدؔ جو تقریباً چالیس سال سے نیویارک میں مقیم ہیں انھوں نے اس کو نیویارک کا ایک تاریخی مشاعرہ قرار دیا۔مشاعرے میں پاکستان سے دبستان وارثیہ کے روح رواں محترم جناب قمر ؔ وارثی صاحب (جن کی دو نعتیہ کتب کو حکومت پاکستان سے ایوارڈ مل چکا ہے) نے بہ حیثیت صدر مشاعرہ شرکت فرمائی۔مہمان خصوصی عالمی اردو مرکز جدہ کے بانی اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر منور ہاشمی صاحب تھے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب جدہ سے شعرا نواز جنجوعہ۔زمرد خان سیفی۔ علیگڑھ سے جناب خالد فریدی۔ خواتین شاعرات میں ٹورنٹو کینیڈا سے صبیحہ خان صبیحہ۔ راولپنڈی پاکستان سے ؎تسنیم ؔ سراج‘ لکھنئو سے شمع ؔ ظفر مہدی‘ ورجینیا سے نورین طلعت عروبہ (جن کی تین نعتیہ کتب کو حکومت پاکستان سے ایوارڈ مل چکا ہے) شریک ہوئیں۔
باقی شعرائے کرام میں راقم الحروف کے علاوہ شکاگو سے رشید شیخ‘ کراچی سے مختارؔ حیات‘ نیویارک سے ڈاکٹر عبد الرحمن عبد اور تنویر پھول شریک ہوئے۔صدر مشاعرہ کی دعا پر مشاعرے کا خوش اسلوبی سے اختتام ہوا۔

مشاعرے کے منتخب اشعار محسن علوی ناظم مشاعرہ

حمد
جو تخلیق خدا ہے کس طرح خاموش ہو جائے
ہم اپنی سانس میں ہر پل برابر حمد کہتے ہیں
خدا کی حمد بھی قسمت کی خوبی سے مزین ہے
حقیقت یہ ہے قسمت کے سکندر حمد کہتے ہیں
نعت
زہے قسمت کہ انؐ کے ذکر سے یہ گھر چمکتا ہے
وہ ؐ جن کا ذکر ہر اک قلب کے اندر چمکتا ہے
وہ لمحہ حاضری کا کیا بھلائے گا کوئی محسنؔ
وہی لمحہ تو میری نعت میں ڈھل کر چمکتا ہے
نواز جنجوعہ ۔ جدہ
پڑھیں صل علیٰ تو حسن کا منظر چمکتا ہے
لکھیں صل علیٰ تو نعت کا پیکر چمکتا ہے
ضیائے سیرت اطہر ؐ سے ہیں دونوں جہاں روشن
دیا ذکر رسول پاک ؐ کا گھر گھر چمکتا ہے
صبیحہ خان صبیحہ۔ ٹورنٹو
آپؐ منزل مری راستہ آپؐ ہیں
راہ طیبہ مری رہنما آپؐ ہیں
سرور انبیاءؐ اور رسول خداؐ
ساری امت کے حاجت روا آپ ہیں
زمرد خان سیفی۔ جدہ
جس سمت بھی جائوں مری منزل ہو مدینہ
بس عشق محمدؐ ہی مرا راہ نما ہو
بے ربط دھڑکنوں کو سلیقے سکھا دیے
مضطر دلوں کا چین ہے راحت ہے حاضری
محترم خالد فریدی ۔ علیگڑھ
آپ ؐ کی بزم میں کیوں نہ بیٹھیں ملک
علم و عرفاں کے روح رواں آپ ؐہیں
نور انور کے جلووں سے عقدہ کھلا
ہر طرف نورکا سائباں آپ ؐ ہیں
مختار حیات۔ کراچی
میں پیش روضہ اقدسؐ کھڑا ہوں
بہت چھوٹا ہوں پر کتنا بڑا ہوں
میں انؐ کا امتی ہوں آخرکار
سنو میں جنتی ہوں آخر کار
رشید شیخ ۔ شکاگو
خوش زمیں ہے آسماں ہے آپؐ سے
اور خوش کون و مکاں ہے آپؐ سے
نور ایماں بھی یہاں ہے آپؐ سے
اور شفاعت بھی وہاں ہے آپؐ سے
تسنیم سراج۔ راولپنڈی
میں کروں کیسے بیاں شان رسولؐ عربی
میں تو ہوں سخت گنہ گار رسول ؐ عربی
میں نے دیکھا تھا تصور میں بہار آئی ہے
دل سے آئی یہ صدا ہیں یہ رسولؐ عربی
نورین طلعت عروبہ۔ ورجینیا
جو چشم تر کو ہی کافی خیال کرتے ہیں
وہ عرض حال اضافی خیال کرتے ہیں
کوئی بھی کام جو ثابت نہیں محمدؐ سے
اسے وفا کے منافی خیال کرتے ہیں
شمع ظفر مہدی ۔ لکھنٔو
دیکھا ہے جب سے روضۂ اقدس حضورؐ کا
ان خوش نصیب آنکھوں میں اب خواب اور ہیں
یاں سر کے ساتھ دل کی حضوری بھی چاہیے
اس شہر دل نواز کے آداب اور ہیں
ڈاکٹر عبد الرحمن عبد۔ نیو یارک
حمد
مقام ایسا جہاں میں اے مکین لامکاں دے دے
سراپا عبد ہوجائوں مجھے وہ جسم و جاں دے دے
مرے ہرقول کو ہر فعل کو رنگ عبادت دے دے
مرے آقا مجھے شیطان کے شر سے اماں دے دے
نعت
خواہش نہ اعتبار سے جینے کی جس میں ہو
وہ دل ہی کیا تڑپ نہ مدینے کی جس میں ہو
ایمان نا تمام ہے جز حب مصطفیؐ
وہ تاج کیا چمک نہ نگینے کی جس میں ہو
تنویر پھول۔ نیویارک
حمد
پروردگار بھی ہے وہ کارساز بھی ہے
بندوں کا ہے وہ آقا بندہ نواز بھی ہے
وہ ہے علیم و شاکر اور واحد و صمد بھی
بندوں کا قدر داں ہے اور بے نیاز بھی ہے
نعت
نعت کہنے کے لیے حسن عقیدت چاہیے
انؐ کے قدموں میں سدا رہنے کی نیت چاہیے
تفرقے سارے مٹائو ملت واحد بنو
پھر مواخات مدینہ کی اخوت چاہیے
ڈاکٹر منور ؔہاشمی ۔ پاکستان
حمد
جو اٹھا کہ بار گناہ ہم تری بارگاہ میں آ گئے
نہ کوئی خطر نہ کوئی حذر کہ تری پناہ میں آ گئے
ہوئی ہر طرف نئی روشنی ترے ذکر کی تری فکر کی
کئی ماہتاب خیال کے جو شب سیاہ میں آ گئے
نعت
یہاں دھڑکنوں کا درود ہے یہاں آنسوئوں کا سلام ہے
یہاں بات اونچی نہ کیجئے یہ بڑے ادب کامقام ہے
یہاں گردشوں کا اثر نہیں یہاں رنج و غم کا گزر نہیں
یہاں کائنات سے مختلف کوئی دوسرا ہی نظام ہے
قمر وارثی۔پاکستان
حمد
حمد ہو تیری بیاں اے خالقِ کون و مکاں
یہ ہنر مجھ میں کہاںاے خالقِ کون و مکاں
سایہ رحمت کا طالب ہوں کرم کا منتظر
میں غریب و ناتواںاے خالق کون و مکاں
نعت
اور کرتا بھی کیا دیکھ کر شان رفرف سوار آسماں
ہوگیا پیکر نور کے راستے میں غبار آسماں
دم بخود رہ گیا آسماں بھی کہ جب عرش پر ایک شب
رونما نقش پائے نبیؐ سے ہوئے بے شمار آسماں

حصہ