شاعری برائے فروخت

912

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور خصوصا فیس بک پر شاعری کا دور دورہ ہوا تو معلوم ہوا کہ جس رفتار سے شاعر پیدا ہو رہے ہیں اس کے مقابلے میں قارئین اور سامعین کی شرح پیدائش بہت کم ہے، یوں لگتا ہے کہ کچھ دنوں میں یہ جنس بالکل ہی نایاب ہو جائے گی، اور ایک ایسا وقت آئے گا جب شاعر ہی شاعروں کو کلام سنا رہے ہوں گے اور وہ شاعر کامیاب کہلایا جائے گا جس کی پانچ اشعار والی غزل پر کم از کم تین مرتبہ داد باآواز بلند داد ملے گی، کیونکہ اسٹیج پر کسی شاعر سے داد وصول کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا ایک بری نثری نظم کہنا۔ اللہ جنت نصیب کرے مرحوم تابش دہلوی نے اسٹیج پر بیٹھ کر کسی شاعر کو کبھی داد نہیں دی، اور ان کی دیکھا دیکھی نہ ان کی باری پر کسی سامع نے۔ فیس بک نے شہرت حاصل کرنا چونکہ بہت آسان بنا دیا ہے لہذا بہت سے سامعین اب شاعر بن چکے ہیں، کراچی کے ایک شادی ہال میں ہر سال ایک کتب میلہ لگتا ہے جو پورے رمضان جاری رہتا ہے، وہاں ہر ہفتہ ایک مشاعرہ بھی ہوتا ہے، کسی نے بتایا کہ وہاں چار مشاعروں میں اتنی شاعری ہوئی کہ قنات باندھنے والا اگلی مرتبہ مشاعرے میں شاعر بن کر اسٹیج پر بیٹھا ہوا تھا، مشاعرہ منتظمین کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قناتیں مفت میں ملنے لگیں، یعنی ایسا بھی ہوا کہ مشاعروں میں اپنے پیشے کی وجہ سے شریک ہونے والے احباب میں سے بھی کئی شاعر بن گئے بلکہ انہوں نے انجمنیں بھی بنا لیں اکثر مشاعروں میں مدعو بھی کئے جانے لگے۔ گویا یہ آسان فارمولا ہاتھ آیا کہ با آسانی شاعر بن جاؤ اور فیس بک پر ایک غزل پر سو افراد کو ٹیگ کرکے تو مرا حاجی بگویم میں ترا ملا بگو والی ترکیب سے مشہور ہوجاؤ۔پھر ایک جدید سلسلہ مزید سامنے آیا جب فیس بک پر ایک اشتہار کے زریعے چند سو روپے میں غزل لکھوانے کا دعوت نامہ مشتہر ہوا، جس کا عنوان کچھ یوں تھا کہ ” اب آپ بھی شاعر بن سکتے ہیں”۔ گو کہ یہ سلسلہ تو بہت عرصے سے جاری ہے کہ پیسے لیکر یا کسی اور مقصد کے تحت مرد شعراء خواتین کو شاعری لکھ کر دیتے رہے۔ ایک زمانے میں پنجاب کی ایک مشہور شاعرہ کے حوالے سے تو اس بابت کتابیں بھی لکھ ڈالی گئیں حالانکہ وہ اس وقت پاکستان کی مشہور ترین شاعرہ تھیں اور ہر سرکاری اور عالمی مشاعرے میں “اپنے” اشعار سنایا کرتی تھیں، جب تک پاکستان میں رہیں شاعری کرتی رہیں پھر امریکا جا کر شادی کرلی تو شاعری بھی ختم ہوگئی، ان کو لکھ کر دینے والے جو ان سے شادی کے چکر میں تھے مایوس ہوکر سارے راز آشکار کر بیٹھے۔ ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ وہ شاعری سکھاتی ہیں، ہم نے پوچھا شاعری سکھاتی ہیں یا عروض، فرمانے لگیں کہ عروض سیکھ کر ہی شاعری بنائی جاتی ہے، ہم سبحان اللہ کہہ کر چپ ہو لئے۔ کل کوئی صاحب بتلا رہے تھے کہ دو برس پہلے پنجاب میں فی غزل کا ریٹ 500 روپے تھا جو ڈالر بڑھنے کے بعد 1000 ہوگیا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ لکھوانے کے بعد آپ کو اسکی رسید بھی ملے گی وہ تو شکر کیجے کہ نرخ زیادہ نہیں ورنہ کاروباری افراد پیزا کا کاروبار کرنے کے بجائے شعر لکھوا کر فروخت کرنے کا کام شروع کردیتے۔ عرض کرتے چلیں کہ صرف یہ نہیں کہ مرد شعراء خواتین کو لکھ کر دیتے رہے، یہ کام اب خواتین نے بھی سنبھال لیا ہے، لاہور کے ایک مشہور شاعر “صاحب” جو پبلشر بھی ہیں، اور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت بھی کرتے ہیں ان کے بارے میں تو یہ بات بہت مشہور ہوئی کہ ایک خاتون شاعرہ ان کو لکھ کر دیتی ہیں اور وہ نہ صرف خود ان سے لکھوا کر پڑھتے ہیں بلکہ دبئی، کناڈا دوسروں کو فروخت کرکے انکا مجموعہ کلام بھی پبلش کرتے ہیں، خدا کا کرنا کہ ان خاتون شاعرہ سے ان “صاحب” کی جب ان بن ہوئی تو سارا کٹھا چٹھا فیس بک پر آگیا اور خود ان شاعرہ نے ان “صاحب” کے لئے یہ غزل کہہ ڈالی ایک صدا آئے گی صاحب سب کو بتلائے گی صاحب میرے قلم میں طاقت ہے تو طاقت منوائے گی صاحب تیرا اک دیوان لکھا ہےبات یہ کھل جائے گی صاحب وہ بھی دن آئے گا دنیا گیت مرے گائے گی صاحب دل بھی مجھ سے بول رہا ہے گوہر بن جائے گی صاحبآخر میں وزن سے خارج اور بے تکی شاعری کرنے والے نام نہاد شعراء کے بارے میں آپ کو خبر دیں کہ ہمارے گزشتہ کالم “ادبی ایلینز” کے بعد کراچی کے کئی متشاعروں نے فیس بک پر ہمیں اس ڈر سے بلاک کردیا ہے کہ کہیں اب ان کی باری نہ آ جائے، وہ فکر نہ کریں، بلاک بھی کرکے وہ اپنی شاعری نہیں چھپا سکتے۔ اگر ادبی تقاریب اور مشاعروں میں زیادہ متحرک نظر آئے اور خود کو بلاوجہ شاعر منوانے کی کوشش کی تو پھر ان کو چھاپ دیا جائے گا۔ نوٹ : کالم میں آئیندہ دنوں نئی آنے والی کتابوں پر تبصرے بھی ہوں گے اور شعراء کے شعری محاسن کو سامنے لایا جائے گا۔

حصہ