کورونا کے بعد دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے

237

ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام مذاکرہ میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کا اظہار خیال

ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے دائرۂ کار میں مستقل جدوجہد کا متحرک عنوان ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں خواتین ارکان کے ساتھ ٹرسٹ کی جانب سے مختلف سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں جن کا مقصد رائے عامہ بنانے کے ساتھ ساتھ عملی تجاویز مرتب کرنا اور آگے فورمز تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ورکنگ ویمن کے منشور کا دیرینہ مطالبہ خواتین کے لیے کام کے لچک دار اوقاتِ کار یا گھر سے کام کی سہولت فراہم کرنے کا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمومی حالات میں اس موضوع پر بات کرنا مشکل ہوجاتا، کیوں کہ ہمارے معاشر ے کے کچھ ناسمجھ افراد مساواتِ مرد و زن کے خوشنما مگر کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں۔ اتفاق ایسا ہوا کہ کورونا کی وبا کے دوران لگائے گئے لاک ڈائون میں اس مطالبے کی افادیت اور اثر پذیری خودبخود سامنے آگئی۔ اس کے نتیجے میں یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ یہ عملاً ممکن ہے کہ مناسب قانون سازی کے ذریعے اس سسٹم کو مزید بہتر بنا کر نافذ کرنے سے خواتین ورکرز کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ورکنگ ویمن ٹرسٹ نے اس موقع پر لچک دار اوقاتِ کار اور گھر سے کام کے موضوع پر خواتین کے تازہ تجربات کی روشنی میں مقامی ہوٹل میں ایک مجلس مذاکرہ ترتیب دی۔ اس نشست میں مقرر کردہ موضوع پر تجاویز و تجربات کے ساتھ ڈسکشن کے لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی پروفیشنل خواتین کو دعوت دی گئی تھی۔ مجلسِ مذاکرہ کی میزبانی ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کی صدر عابدہ فرحین نے کی۔ مجلسِ مذاکرہ میں فرسٹ ویمن بینک کی سابق صدر و سابق چانسلر جناح ویمن یونیورسٹی اکرم خاتون، سابق ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ نسیم بخاری، سندھ کمیشن فار اسٹس آف ویمن کی درخشاںصالح، پروفیسر رفیعہ تاج، ڈائریکٹر آئی کیپ فرزانہ مناف، سینئر صحافی شہربانو، YWCA کی صدر نزہت وسیم، پرنسپل خواتین ووکیشنل سینٹر ناہید ناصر، ماہر تعلیم رومیصہ زاہدی، صدر ویمن اسلامک لائرز فورم طلعت یاسمین، چیئرپرسن نسیم ویلفیئر ہما خان، لیکچرر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ماریہ، چیئرپرسن نسیم ویلفیئر ٹرسٹ حنا سحر، صدر پائولا ایڈووکیٹ نور ناز آغا کے علاوہ نائب صدر ورکنگ ویمن ریحانہ افروز اور حمیرا قریشی نے بھی اظہارِ خیال کیا۔
گفتگو کی نشست سے قبل موضوع پر تعارف و موجودہ صورتِ حال پر جامع بریفنگ طوبیٰ علی نے ایک جامع ملٹی میڈیا پریزنٹیشن کے ذریعے پیش کی۔ اس میں لچک دار اوقاتِ کار کی اہمیت اور اس کی افادیت و نقصانات پر روشنی ڈالی گئی۔ کورونا کے لاک ڈائون میں ملازمتوں و دفاتر میں پیدا شدہ صورتِ حال کو پیش کیا گیا۔ اس ضمن میں یہ بات واضح کی گئی کہ جس طرح لاک ڈائون کے دوران دُنیا بھر میں لچک دار اوقاتِ کار اور گھر سے کام کے طریقے کو اپنایا گیا، یہ مطالبہ ورکنگ ویمن طویل عرصے سے کررہی ہے۔
سندھ کمیشن فار اسٹس آف ویمن کی درخشاں صالح نے سندھ حکومت کی جانب سے وبائی ایکٹ 2014 دہراتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق کسی ادارے کے ملازم کو نوکری سے برخواست نہ کرنے اور تین ماہ کی تنخواہ دینے کا حکم تھا، ایسے میں جہاں اس قانون کی خلاف ورزی خواتین کے ضمن میں ہوئی ہے، ہم ویمن کمیشن کے پلیٹ فارم سے ڈیٹا جمع کررہے ہیں تاکہ اُن خواتین کو قانون کے مطابق حق دلایا جا سکے۔
سابق سیکرٹری پلاننگ نسیم بخاری نے کہاکہ میری بیٹی چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہے لیکن لچک دار اوقاتِ کار نہ ہونے اور گھر سے کام کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے وہ معاشرے کے لیے پروڈکٹو نہیں بن پا رہی، البتہ گھر پر توجہ دے رہی ہے۔ اس لیے ایسی پالیسی یا قانون بنے جو سب کو موقع دے سکے۔
جامعہ کراچی شعبہ ابلاغِ عامہ کی سابق چیئر پرسن و الما یونیورسٹی کی سابق ڈین پروفیسر رفیعہ تاج نے اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہاکہ آن لائن طریقۂ تدریس جامعات کی سطح پر تو مختلف وجوہات کی بنا پر بالکل فائدہ مند نہیں رہا، ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت اور عدم دستیابی اس دوران سب سے بڑا مسئلہ رہی۔
ویمن اسلامک لائرز فورم کی صدر طلعت یاسمین نے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ خواتین وکلا کو بھی خاصے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اجتماعی مفاد کے لیے ہمیں پریشر گروپ بنانا ہوگا۔
ایڈووکیٹ نور ناز آغا نے کہا کہ خواتین کے تحفظ و آسانی کے لیے ان کو رات کی ڈیوٹیوں میں نہیں بلانا چاہیے۔ اسی طرح دیگر مہمان مقررین کا مجموعی طور پر کہنا تھا کہ عورت صرف گھر نہیں بلکہ قوم کی تعمیر کرنے والی ہے، ہمیں اللہ کے دین کی بدولت ہی یہ مقام نصیب ہوا۔ وطنِِ عزیز کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں، دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ ہمیں معاشی جبر کا بھی سامنا ہے، عالمی وبا کورونا کے بعد ملک میں عام آدمی کے لیے اشیائے ضرورت اور لازمی تعلیمی و طبی سہولیات کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے، اور فی الحال اس میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جائزے کے مطابق ہماری 80 فیصد ورکنگ ویمن انہی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے معاشی سر گرمیاں اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ بہت سے شعبہ ہائے کار ایسے ہیں جہاں قومی ضرورت کے تحت خواتین کی شمولیت ناگزیر ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم معاشرے کی تعمیر میں خواتین کے کلیدی کردار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسے حالات پیدا کریں جس کے نتیجے میں خواتین اپنی گھریلو ذمے داریوں، تربیتِ اولاد اور خاندان جیسے بنیادی ادارے کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اپنی معاشی و پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں سکیں۔ اوقاتِ کار لچک دار ہوں یا اختیاری، یا پھر مختلف گنجائش میں ورک فریم کی سہولت سے نہ صرف خواتین کی معاشی و پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، روزگار کے مواقع بڑھیں گے، بلکہ خواتین ورکرز کی پیداواری صلاحیتوں اور استعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس ضمن میں کئی ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، انگلینڈ وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پاکستان میں اس کو ایجوکیشن، فنانس، بینکنگ، میڈیکل اور مینو فیکچرنگ وغیرہ کے شعبوں میں اختیار کیا جاسکتا ہے، تاہم اس حوالے سے ضروری ہوگا کہ لیبر لاز کے تحت ورکرز کے تحفظ و مراعات پر مشتمل قوانین کے لازمی اطلاق اور مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس سہولت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ کارکن خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کی فراہمی، جبری اوورٹائم کا خاتمہ، روزگار کے زیادہ مواقع، پروفیشنل ڈگریوں کی حامل خواتین کی غیر فعالیت میں کمی، طے شدہ اوقاتِ کار میں تاخیر سے پہنچنے اور جلد جانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی، ٹائم کے بوجھ میں کمی، ذہنی آسودگی، اپنی جسمانی استعدادِ کار اور جملہ ذمہ داریوں کی مناسبت سے کام کے اختیار کی آزادی کے انفرادی اور اجتماعی ثمرات، جو بالواسطہ طور پر معاشرے اور قوم کی ترقی اور صحت مند نشوونما پر منتج ہوںگے۔
فورم کے اختتام پر جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ خواتین کو دہری ذمے داریوں کی احسن ادائیگی کے لیے باسہولت نظام وضع کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، معاشی جدوجہد میں شامل خواتین بالخصوص طب اور دیگر اہم سروسز سے وابستہ خواتین کو لچک دار اور اختیاری اوقاتِ کار کی سہولت فراہم کرکے نہ صرف ان کی پروفیشنل ایجوکیشن کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ ایک مستحکم خاندان کے قیام اور بقا میں مدد کی جاسکتی ہے۔
صدر ورکنگ ویمن عابدہ فرحین نے شرکائے مذاکرہ کو بھی اس جدوجہد میں شامل کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے پر تمام شعبہ ہائے زندگی کی خواتین مل کر آواز اٹھائیں۔ درست فورم تک ہم اپنی سفارشات پہنچائیں گے تو معاشی جدوجہد میں مصروف دہرے بوجھ کا شکار خواتین کے لیے بہتر سہولت میسر ہوسکے گی۔ ایسے حالاتِ کار کی فراہمی کے ذریعے خواتین معاشرے کی ترقی و بقا کے ضامن ادارے خاندان کے تحفظ میں اپنا گراں قدر اور تاریخی کردار ادا کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی و ریسرچ سے جڑے لوگوں کا اندازہ تھا کہ فزیکل عمارتوں کا دور پیچھے رہ جائے گا اور اس کی جگہ ورچوئل نظام لے لے گا۔ یہ بات اُس وقت کسی کی سمجھ میں نہ آئی لیکن کوورنا کے بعد جو منظرنامہ تبدیل ہوا تو بات سب کی سمجھ میں آگئی۔ کچھ لوگ ملازمتوں پر ہفتے میں ایک دن جاتے، کچھ متبادل دن آتے رہے، اس میں معاشرے کے ایک متحرک رکن کے طور پر خواتین نے بھی اس وبا کے دور میں کام انجام دیا۔ اب منظرنامہ یہ ہے کہ حکومت کو اس آن لائن ماحول کے حوالے سے بھی پالیسی و قانون سازی میں جانا ہوگا۔ اس لیے عملی تجاویز اور اس سلسلے میں نوکریوں سے منسلک خواتین کے لیے بہتر تحفظ کے ساتھ کام اور گھر کی ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے جو ہوسکتا ہے اس پر ہمیں راہیں کھولنے کی ضرورت ہے۔

حصہ