ایک حکایت، ایک حقیقت

304

اسلامیات کے استاد کلاس میں داخل ہوئے، انہوں نے اپنے ہاتھ میں دبی ہوئی کتاب میز پر رکھی، چشمے کو درست کرکے ناک پر جمایا اور ہلکے سے کھنکھار کر دسویں کلاس کے طالب علموں سے مخاطب ہوئے ’’میں تمہیں آج ایک ایسی حکایت سنا رہا ہوں جو تمہاری آئندہ زندگی میں کام آتی رہے گی۔‘‘
سب طالب علموں میں تجسس پیدا ہوگیا کہ آخر وہ کون سی حکایت ہے جو ماسٹر صاحب سنانے جا رہے ہیں! سب طالب علم توجہ سے اُن کی بات سننے لگے۔ استاد صاحب نے کہنا شروع کیا ’’ایک بار ایک بدّو حضورؐ کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد بولا: ’’میں بہت دور سے آیا ہوں، بھوکا پیاسا ہوں، میرا اونٹ بھی بھوکا ہے۔‘‘
آپؐ نے پوچھا: ’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’باہر کھڑا ہے‘‘، اس نے جواب دیا ’’میں اللہ پر توکل کرکے اسے باہر چھوڑ کر آپؐ کے پاس آگیا ہوں۔‘‘
حضورؐ نے فرمایا: ’’تم نے اونٹ کی ٹانگیں باندھیں؟ کہیں دور نہ نکل جائے۔‘‘
بدّو نے جواب دیا: ’’جی نہیں۔‘‘
’’جاؤ اور پہلے جاکر اونٹ کی ٹانگیں باندھو، پھر اللہ پر توکل کرو۔‘‘
بدّو نے آپؐ کی ہدایت پر عمل کیا اور پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اس کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔‘‘ استاد نے تختۂ سیاہ کے نزدیک ٹہلتے ہوئے کہا ’’اس چھوٹی سی حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اللہ پر اعتماد اور بھروسا ضرور کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہم پر جو فرائض عائد کیے گئے ہیں پہلے وہ پورے کرنے چاہئیں۔‘‘
انہوں نے کچھ وقفے کے بعد کہا ’’اگر کوئی طالب علم صرف دعا مانگتا رہے تو امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ کورس کی ساری کتابیں پڑھ کر تیاری نہ کرے۔‘‘ تمام طالب علموں کو یہ حکایت پسند آئی۔ وحید نے غالباً یہ واقعہ غور سے نہیں سنا اور اس خیال میں مدہوش رہا کہ اسے رات کو ایک شادی میں جانا ہے اور صبح کرکٹ میچ بھی ہے۔ اُس نے شام کو امی سے پوچھا کہ شادی میں کب چلیں گی؟ ’’میری تو طبیعت خراب ہے‘‘، انہوں نے کمزور لہجے میں کہا ’’تم اور سلمیٰ چلے جاؤ، تمہارے ابو کو راتوں کو جاگنا اور دیر سے کھانا، کھانا بالکل پسند نہیں ہے۔ اپنے چچا شاکر کے گھر جانا اور سب مل کر وہیں سے شادی میں شریک ہونا، واپسی پر دیر ہوجائے تو چچا کے گھر ٹھیر جانا، کل اتوار ہے، اس لیے اسکول بھی نہیں جانا ہوگا، مزے سے نیند پوری کرکے آنا۔‘‘
وحید نو بجے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چچا کے گھر پہنچ گیا۔ سب تیار تھے، چچا شاکر کی گاڑی میں چل پڑے۔ بارات ساڑھے بارہ بجے آئی، نکاح ایک بجے ہوا، اور پھر کھانا ڈیڑھ بجے ختم ہوا۔ جب سب گھر پہنچے تو رات کے ڈھائی بج رہے تھے، سب کی آنکھوں میں نیند تھی۔ نیند تو وحید کی آنکھوں میں بھی تھی لیکن اس کے دماغ پر کرکٹ کا میچ بھی سوار تھا جو اگلے دن نو بجے صبح ہونے والا تھا، چنانچہ جب اس کے چچا شاکر نے اس سے ٹھیرنے کو کہا تو اس نے جواب دیا ’’گھر زیادہ دور نہیں ہے، سیدھا راستہ ہے، آسانی سے پہنچ جاؤں گا۔‘‘
’’رات زیادہ ہوچکی ہے، اس لیے جانا مناسب نہیں ہے‘‘، انہوں نے سمجھانے والے انداز میں کہا، ’’خدانخواستہ کوئی واردات ہوسکتی ہے۔‘‘
وحید کے سر پر تو میچ سوار تھا۔ ’’اللہ مالک ہے‘‘، اس نے کہا۔ پھر موٹر سائیکل کی چابی اور ہیلمٹ اٹھا کر باہر آگیا۔ ابھی اس نے تقریباً نصف میل کا فاصلہ طے کیا ہوگاکہ ایک تنگ گلی سے ایک لڑکا جو موٹر سائیکل پر سوار تھا اس کے پیچھے آنے لگا۔ اس کے جسم پر چمڑے کی پتلون اور جیکٹ تھی، عمر تقریباً بیس بائیس برس ہوگی۔ وہ صورت شکل ہی سے جرائم پیشہ لگتا تھا۔ اس نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا لیکن آگے نکلنے کی کوشش کی۔ وہ خاصی دور تک وحید کے پیچھے لگارہا۔ وحید جس سڑک پر جارہا تھا یہ ٹریفک کے سامنے آنے والی سڑک تھی۔ رات کے تین بجے تھے، اس وقت سڑک پر ٹریفک نہیں تھا، بائیں جانب پُل تھا جس پر کبھی کبھار دودھ سپلائی کرنے والوں کا ٹرک گزر جاتا تھا جو اس وقت سے سپلائی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
وحید دل میں قرآنی آیات کا وِرد کرکے اللہ سے دعائیں مانگنے لگا کہ ’’اے اللہ! مجھے حفاظت سے گھر پہنچادے، تُو بڑا غفور الرحیم ہے۔‘‘ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ چکی تھی اور جسم پسینے سے شرابور تھا۔ اس نے کئی بار اپنے ہاتھ سے ہینڈل پھسلتے محسوس کیا۔ اچانک سامنے سے اسے ایک ٹرک آتا دکھائی دیا جس کی ہیڈلائٹس سے آنکھیں چکاچوند ہوئی جارہی تھیں، اب وہ اُس جگہ پہنچ چکا تھا جہاں سے پل شروع ہوتا تھا۔ وحید نے اپنے حواس سنبھالتے ہوئے موٹر سائیکل کو بائیں جانب گھمایا اور پل پر موٹر سائیکل دوڑانے لگا تاکہ جلد از جلد واپس چچا کے گھر پہنچ جائے۔ وہ لڑکا جو اس کے تعاقب میں تھا فوراً ہی اس کے پیچھے نہیں آسکا، اس لیے کہ درمیان میں دودھ والے کا ٹرک آچکا تھا۔ رات زیادہ ہوچکی تھی، پل کافی لمبا تھا۔ وحید نے سر گھما کر دیکھا، وہ لڑکا اب اس کے پیچھے نہیں آرہا تھا۔ غالباً یہ سوچ کر کہ اب وہ اسے نہیں پاسکتا، لڑکے نے پیچھا کرنا چھوڑدیا تھا۔
چچا کے گھر پہنچنے تک وحید نے موٹر سائیکل نہیں روکی اور سیدھا دوڑاتا ہوا چلا گیا۔ اس کا جسم پسینے پسینے ہورہا تھا، وہ اللہ کا شکر ادا کررہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد چچا کے فلیٹ کی گھنٹی بجی، جب چچا شاکر نے دروازہ کھولا تو وحید کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پوری بات سننے کے بعد انہوں نے کہا: تم سے پہلے ہی کہہ رہا تھاکہ رات یہیں رک جاؤ، لیکن تم نے کسی کی سنی ہی نہیں، تم نے حماقت کی ناں؟ وحید نے مجرموں کی طرح سر جھکا لیا۔
تیسرے دن جب وہ اسکول گیا تو اپنے دوستوں کو یہ واقعہ سنایا، سب دم بخود رہ گئے۔ جب یہ بات اسلامیات کے استاد تک پہنچی تو وہ وحید کے پاس آئے اور بولے ’’میں نے جو حکایت جمعہ کے دن سنائی تھی وہ غالباً تم نے غور سے نہیں سنی تھی؟ تم نے اونٹ کی ٹانگیں نہیں باندھیں اور اللہ پر توکل پہلے کرلیا۔‘‘
وحید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے پاس جواب دینے کے لیے تھا ہی کیا! اس نے شرمندگی سے سرجھکا لیا۔

حصہ