شاعری اور مشاعرہ

733

ملک میں کرونا کی وبا کے بعد ہونے والے لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی زندگی اپنی ڈگر پر واپس لوٹ آئی ہے، کاروبار زندگی رواں ہے، اور دوسری تمام مصروفیات کے ساتھ ادبی و علمی تقریبات بھی اپنے رنگ میں آتی دکھائی دے رہی ہیں، شہر در شہر جگہ جگہ مشاعرے اور نشستیں منعقد کی جا رہی ہیں، جن کا احوال ہم سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر روزانہ کی بنیادوں پر دیکھ رہے ہیں۔ خیر ویسے تو وبا کے دنوں میں بھی شعراء نچلے نہ بیٹھے اور برقی رو کے ذریعے تمام فاصلوں کو سمیٹ کر ان لائن مشاعروں کا جو ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اس نے یہ بات بھی ثابت کی کہ عالم بھر میں اگر اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد ستر پچھتر کروڑ ہے تو اس میں پونے بہتر کروڑ شاعر ہیں۔ آن لائن مشاعروں میں ایسے نام بھی سامنے آئے جن کو شاید بطور شاعر انکی اہلیہ بھی نہ جانتی ہوں۔ ہمیں تو یوں لگا کہ چین نے اپنی کسی جرثومہ ساز لیبارٹری میں مشاعروں کی یہ وبا تیار کی ہو شاعروں پر اس کی آزمائش کر ڈالی ہو۔ آن لائن مشاعروں میں خیر کا ایک پہلو یہ رہا کہ شعراء نے کرسی پر بیٹھ کر انتہائی تہذیب و شائستگی کے ساتھ مشاعرے پڑھے، اور سامعین نہ ہونے کے سبب کمنٹ کی صورت میں طریقے سے داد بھی وصول کرتے رہے۔ چونکہ ان برقی مشاعروں میں پیسے کا لین دین نہ تھا لہذا بہت سے ایسے شعراء نے ان میں شرکت نہیں کی جن کی دال روٹی مشاعروں سے چلتی ہے اور اس ضمن میں ان کی طرف سے باقاعدہ منتظمین کو یہ کہا گیا کہ یا تو آپ ہمیں رقم دیں ورنہ ہماری جانب سے معذرت ہے۔ ان شعراء میں ایسے بھی کچھ احباب ہیں جو “میلسی” پنجاب بھی مشاعرہ پڑھ ے جاتے ہیں تو ایک لاکھ روپے سے کم زاد راہ پر راضی نہیں ہوتے، اور اتنی بڑی رقم وصول کرنے کے بعد مشاعرے میں صرف شعر ہی نہیں سناتے بلکہ سامعین کو کچھ اسطرح محظوظ کرتے ہیں کہ جدید دور کی اداکارہ و گلوکارہ شاہدہ منی بھی دانتوں تلے انگلیاں داب لیتی ہیں۔ محظوظ کرنے کے اس ذکر پر یاد آیا کہ اب کچھ “عظیم الشان” مشاعروں میں شعراء ہی حاضری کو محظوظ نہیں کرتے بلکہ اب یہ ذمہ داری حاضرین نے بھی اٹھا لی ہے، ایسا ہی ایک مشاعرہ چند روز پہلے سرائیکی وسیب کے علاقے “جتوئی” میں ہوا جس میں پنجاب سے بڑے بڑے شعراء کرام نے شرکت کی، ہمیں یاد آرہا ہے کہ ہندوستان میں جب جگر صاحب کسی شہر مشاعرہ پڑھنے جاتے تو دوسرے روز شہر مین سارے کام معطل ہوجاتے، ساری رات لوگ مشاعرہ سنتے اور دوسرے روز شہر مین چھٹی ہوجاتی، جتوئی مشاعرے میں تو یہ کمال ہوا مشاعرے کے بعد اردو شاعری کی چھٹی ہوتے ہوتے رہ گئی، وہ تو بھلا ہو کہ حاضرین ٹکٹ خرید کر آئے تو وگرنہ کام تو پورا ہوچکا تھا۔ ندیم بھابھہ جو شاعر بھی ہیں اس مشاعرے میں مدعو تھے، مشاعرے کا احوال بیان کرتے ہیں کہ “زندگی میں چار بار سرائیکی مشاعروں میں جانا ہوا ، چاروں بار کچھ چیزیں مشترک پائی گئیں مثلاً کٹے کا گوشت ، بغیر چمچ کے چاول ، ٹھنڈا سالن اور گرم پیپسی” مزید لکھتے ہیں “ناظم مشاعرہ کی جانب سے ہر شاعر کے تعارف میں یہ جملہ ضرور سنا گیا کہ معشوق کو ہنسانا ہو یا راضی کرنا ہو ان کا قلم خوب چلتا ہے”مشاعرے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اکرم عارفی، ندیم بھابھہ اور اظہر فراغ کی موجودگی میں علی زریون نے سب سے آخر میں اپنا کلام سنایا، ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ڈسکو سامعین کو چاروں خانے چت کرنے کے لئے ترپ کا پتہ سب سے آخر میں نکالا گیا ہو۔ دیدنی وہ منظر تھا جب افکار علوی کو ناظم نے یہ کہہ کر اسٹیج پر بلایا کہ “پاکستان دے سپر اسٹارز، بہت بڑا نام، دلاں دی دھڑکن، ٹک ٹاک دے مرشد۔۔۔۔۔۔۔ ! بہرحال صورتحال یہ تھی کہ جب سامعین میں سے کسی کو بیٹھنے کا کہا جاتا تو جواب ملتا ” سائیں ٹکٹاں گھن کے آئے ہاں”.منتظمین کی مجبوری یہ تھی کہ اسٹیج پر بیٹھے کئی شعراء ایک مشاعرے کے ایک لاکھ سے کم نہیں لیتے تو ان سامعین سے وصول آمدنی شعراء کے کام آئی ہوگی، اور پھر دودھ دینے والی بھینس کی لاتیں بھی کھانی پڑتی ہیں کے مصداق شعراء نے ویسی ہی داد بھی کھائی۔ یہ صورتحال صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ ہم اپنے قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ گزشتہ برس کراچی یونیورسٹی میں بھی ایک ایسا ہی جلسہ نما مشاعرہ ایک طلبہ تنظیم کی جانب سے “مہاجر ڈے” پر منعقد کیا گیا جس میں پنجاب سے آنے والے دو مشہور شاعروں نے بھی شرکت فرمائی تھی، ہمارے کراچی کے ایک دوست شاعر بھی مشاعرے میں موجود تھے جو مشاعرہ پڑھنے کے جدید پرفارمنگ آرٹ کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ اسکا ہر مشاعرے میں اسکا مظاہرہ کرکے پنجاب کے ان شعراء کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے مطابق اب وقت تبدیل ہوچکا ہے اور سلیقے سے بیٹھ کر مشاعرہ پڑھنا اب پرانی بات ہوئی اگر داد حاصل کرنا ہے تو “کچھ نیا” کرنا ضروری ہے، لہذا اس “کچھ نئے” کا اظہار ان کو کراچی کے شعراء میں بھی مختلف کرتا ہے اور پنجاب کے کچھ شعراء سے مقابلے میں بھی کہیں نہ کہیں اہمیت دلاتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے اس مشاعرے میں بھی ہمارے دوست شاعر نے اپنے “جوہر” سامعین کو دکھائے اور پنجاب سے آئے مہمان شعراء کو اپنے تئیں ٹف ٹائم دیا۔ یہ الگ بات کہ بازی مہمان شعراء نے ہی جیتی۔ ہمیں یاد ہے اس مشاعرے میں بھی شعر سناتے ہوئے کان پھاڑ شور، تالیاں، سیٹیاں، ہوئے ہوئے کی آوازوں نے مہمان شعراء کو مخمور کر ڈالا تھا۔ یہ دونوں مہمان شعراء ہمارے نوجوان دوست علی زریون اور تہذیب حافی تھے، مشاعرہ انور شعور صاحب کی صدارت میں تھا۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ منتظمین نے علی زریون اور تہذیب حافی کو ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے نقد، جہاز کا ٹکٹ اور قیام و طعام کی سہولیات دی تھیں، جبکہ انور شعور اور میر احمد نوید صاحبان کو پانچ سے دس ہزار روپے بطور زاد راہ بمعہ شکریہ ادا کئے تھے۔ احباب کہتے ہیں کہ وہ رقم ڈیمانڈ کے حساب سے دی گئی تھی، چونکہ علی زریون اور تہذیب حافی کی پبلک ڈیمانڈ زیادہ ہے اور ان کی وجہ سے نوجوان مشاعرہ سننے بڑی تعداد میں آتے ہیں، لہذا ان کو زیادہ رقم ادا کرنا ان کا حق ہے۔ آخر میں صرف یہ عرض کہ یہ بات سچ ہے کہ اب پبلک ڈیمانڈ کے اس دور میں شاعری اور مشاعرہ کہیں کھو گئے ہیں جو چیز رہ گئی ہے اس کو آپ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں شاعری یا مشاعرہ نہیں کہہ سکتے ہیں!!! پی آر اور میڈیا کے اس دور میں پس پشت ہر شاعر یہ بات کہتے ہیں لیکن سامنے آ کر کوئی اس لئے نہیں کہتا کہ پھر اس کو اگلا “مشاعرہ” نہیں ملے گا۔

کسی زلف کو صدا دو کسی آنکھ کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے

مصطفیٰ زیدی

حصہ