۔’’پہاڑوں کے بیٹے‘‘ جہادِ افغانستان کا آئینہ دار ہے

739

اُمِ ایمان (غزالہ عزیز) ایک کہنہ مشق صحافی، ادیبہ، مصنفہ اور کالم نگار ہیں۔ وہ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ معاشرتی مسائل اور معاملات پر ان کی گہری نظر ہونے کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ کے حالات پر ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ان کا ناول’’پہاڑوں کے بیٹے‘‘ جو حال ہی میں جسارت کے سنڈے میگزین میں قسط وار شائع ہوا ہے، جہادِ افغانستان کے تناظر میں لکھا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس داستان نے جہادِ افغانستان کے وہ عظیم الشان شب و روز ذہن پر ایک فلم کی مانند رواں دواں کردیے جو دس برس کے طویل عرصے پر محیط ہیں، اور جن کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ امریکا افغانستان میں اپنی ہوسِ جہاں گیری پوری کرنے کی ناکام کوشش کے بعد خاک چاٹتا ہوا واپس ہوا ہے۔ افغانی جرأت مند اور بہادر قوم ہونے کے باوجود ایک طویل عرصے سے اپنے اندر کے کمزور، بزدل اور منافق لوگوں سے نبرد آزما رہے ہیں، خصوصاً نادر شاہی خاندان نے (1929 تا 1973ء) افغانستان کو ہر لحاظ سے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا جس کا شاخسانہ سوویت یونین کی مداخلت کی شکل میں سامنے آیا۔ اُم ایمان کا یہ ناول طبع زاد ناول ہے جس کے تانے بانے جہادِ افغانستان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے المناک حالات، افغان روایات، تہذیب و ثقافت اور افغانستان کے سیاسی و اسلامی تاریخی واقعات سے بُنے گئے ہیں۔ جہادِ افغانستان بیسویں صدی کا وہ انتہائی حیرت انگیز، محیرالعقول اور اس خطے کی تاریخ کا شاندار باب ہے جس نے غزوات، معارک خلفائے راشدین، معارک مجاہدینِ اسلام کی ایمان افروز تحریکوں اور کامیاب جہاد کی یاد تازہ کردی۔ یہ تمام تاریخی معرکے صفحات میں محفوظ ہیں، جب کہ جہادِ افغانستان کے تمام لمحات صفحات کے ستاھ ساتھ تصاویر اور ویڈیوز میں بھی محفوظ ہیں، اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ اس کے عینی شاہدین، کردار اور ہیروز ابھی بقیدِ حیات ہیں، جن میں سے بہت سے غیر مسلم اور اس جہاد کے نتیجے میں اسلام کی روشنی سے فیض یاب ہونے والے بھی موجود ہیں جو اس جہاد کی جیتی جاگتی شہادتیںہیں۔ اس لحاظ سے یہ جہاد ’’اساطیر الاوّلین‘‘ میں نہیں۔ ہماری بہن نے اس جہاد کی منظرکشی کا فریضہ انجام دے کر گویا اسی فہرست میں اپنا نام درج کروا لیا ہے۔
اس داستان کی مصنفہ کہانی کا آغاز ایک ایسے افغانی گھرانے سے کرتی ہیں جس کا سربراہ ’’زبیر عبداللہ‘‘ نامی ایک سچا اور کھرا مسلمان اور افغان ہے جو اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور اپنے وطنِ عزیز پر اپنا تن، من، دھن قربان کرنے کا عزم رکھتا ہے، اور اس میں ہرگز پیچھے نہیں ہٹتا۔ اس کی بیوی کے اندر بھی اسی طرح کے مجاہدانہ جذبات موجزن ہیں۔ وہ حقیقت میں ایک غیرت مند مسلمان خاتون کے روپ میں دکھائی گئی ہے جس نے اپنی اولاد کی تعلیم اور تربیت اس نہج پر کی ہے کہ وہ باپ سے بھی چند قدم آگے نظر آتے ہیں۔ یہی وہ اصل جہادی روح ہے جس نے خالص افغان نسل کو جذبۂ حب الوطنی اور جذبۂ جہاد سے سرشار کیا۔ مصنفہ بار بار جھنجھوڑ دینے والے انداز میں اس جہادی روح کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہیں، مثلاً وہ لکھتی ہیں ’’پھر کمال خان اور جمال خان اس کے نوجوان بیٹے جنہوں نے جوانی کے ابلتے ہوئے خون اور دھڑکتے ہوئے جذبوں کے ساتھ میدانِ جہاد میں قدم رکھا تھا، لیکن اس سے کتنا آگے نکل گئے۔‘‘ اس داستان کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ غزالہ نے نہ صرف جہادِ افغانستان بلکہ اس سے متاثر عالمی منظرنامے کا بھی بھرپور مطالعہ کیا ہے۔ وہ صحافی ہونے کے ناتے اپنے پاس آنے والی اہم خبروں کوجانچنے اور ان میں سے اہم نکات برآمد کرنے کی پختہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کہانی میں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا خوب فائدہ اٹھایا اور اس صلاحیت سے قاری کی ذہن سازی کا کام لیا، کیوں کہ ہمارے ہاں اُن لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے جہادِ افغانستان میں پاکستان کی شمولیت کو متنازع بنانے کی بھرپور سعی کی جو کہ لاحاصل رہی، اس لیے کہ پاکستان کے اس جہاد میں شامل ہونے کا فیصلہ فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق کا تھا، جو لوگ جہاد کے بنیادی اصولوں کی کماحقہٗ تفہیم رکھتے ہیں اور قرآن، حدیث اور سیرت و مغازی کا دل و دماغ سے مطالعہ کرتے ہیں، خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق جہاد تھا۔ یہ جہاد بلاتردد بیسویں صدی کا ایسا واقعہ ثابت ہوا جس نے دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دیا، کہ ایک زبردست سپر پاور کی شکست و ریخت اور اس کے ملبے سے وسط ایشیا کی 16 مسلم ریاستیں اس آب و تاب سے عالمی افق پر نمودار ہوئیں کہ اقوام عالم کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے، بعد میں اسی فیصلے کی پاداش میں 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھیوں کو انتقامی کارروائی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مصنفہ نے اس کہانی میں جابجا کئی اہم تاریخی نکات بیان کیے ہیں، وہ کہانی آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تاریخ کے اوراق بھی پلٹتی جاتی ہیں جس سے قاری کو اپنے اندر اٹھنے والے اہم سوالات کے جوابات بھی میسر آتے چلے جاتے ہیں، جیسا کہ ایک مثال دیتی ہوں کہ روس کی افغانستان آمد کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’افغانستان میں روس کی مداخلت کی ابتدا تو بہت پرانی ہے لیکن باقاعدہ آمد ’’ببرک کارمل‘‘ کے دور میں ہوئی جب اس نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی روسی حکومت سے درخواست کی کہ وہ افغانستان میں باقاعدہ داخل ہوجائے۔‘‘
ظاہر ہے ایک عام قاری یا نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے فرد کے ذہن میں یہ سوال بار بار پیدا ہوگا تو یہاں اس اہم سوال کا مختصر جواب مل جاتا ہے۔ اسی طرح ظاہر شاہ، دائود خان، نور محمد ترہ کئی، حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل کی محلاتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں، نیز مظالم کے طویل ماہ و سال کو بے حد روانی سے سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کردیا گیا ہے، ایسے کہ پڑھنے والے کو بوریت کا احساس نہ ہو اور پیغام بھی پہنچ جائے۔
وہ جو کہا جاتا ہے کہ تحریر، لکھنے والے کے خیالات کا عکس ہوتی ہے، اس کے مطابق غزالہ عزیز نے قرآن و حدیث اور صحابہ کرامؓ کے واقعات کو اس داستان میں نگینوں کی طرح جڑ دینے کی قابلِ تعریف کوشش کی ہے، انہوں نے آیات و احادیث کا برمحل اور برجستہ استعمال کیا اور وہ آیات منتخب کی ہیں جن کا تعلق براہِ راست مذکورہ واقعات سے بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کہانی کے مرکزی کردار زبیر کی نمازِ جمعہ میںشرکت اور خطبہ کی سماعت کا ذکر کرتے ہوئے ایک اہم آیت بیان کردی جو امتِ مسلمہ کو جہاد کی ترغیب دینے والی آیات میں سب سے اہم آیت ہے۔ لکھتی ہیں کہ ’’اللہ کا کلام کہتا ہے کہ: تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں لڑنے نہیں نکلتے حالانکہ مظلوم لوگ، عورتیں اور بچے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال لے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار بھیج۔‘‘
میری دعا ہے کہ اللہ غزالہ کے قلم کو مزید تاثیر عطا فرمائے۔

عائشہ آصف

’’پہاڑوں کے بیٹے‘‘ اُم ایمان کی ایک انتہائی اہم اور سچی حقیقت کو ناول کے پیرائے میں ڈھال کر بیان کرنے کی بہترین کوشش ہے جس کا پس منظر سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار اور اس سے برسرِ پیکار مجاہدین کی جدوجہد ہیں۔ ناول بے حد سنجیدہ موضوع پر ہے لیکن الفاظ کی بُنت کہیں بھی قاری کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ کہانی کے ساتھ چلتے اُس وقت کے حالات، سیاسی بساط اور جنگ پر اثرانداز ہونے والے عالمی واقعات بھی خوب صورتی سے تحریر کیے گئے ہیں، اور کہیں ایسا محسوس نہیں ہوا کہ کہانی سے ہٹ کر معلومات دی جارہی ہیں۔ بلکہ واقعات اس طرح بیان کیے گئے کہ کہانی کھل کر بیان ہوتی گئی۔کبھی تو یہ ناول اُن عورتوں کے احساسات اجاگر کرتا ہے جو اپنے سرتاج اور جوان جگر گوشوں کو کفار سے جہاد کے لیے بھیج کر خود مہاجر کیمپوں میں مقیم ان کی سرخروئی اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، اور ساتھ ہی سانس سے جڑی اپنی ذمے داریاں نبھاتی اپنے ماضی میں تاک جھانک کرتی دن گزار رہی ہیں۔ مجاہدوں کی مائیں جب دعائیں مانگتے یا کھانا بناتے ہوئے اپنے جگر گوشوں کو یاد کرکے آنسو بہاتیں تو دل چاہنے لگتا کہ کاش ماں کے پیارے آکر اپنی ایک جھلک ہی دکھا جائیں۔ اور دوسری جانب زبیر جب دشمنوں کے بیچوں بیچ ان کی جماعت میں گھس کر جہادیوں کے نکلنے کی راہ بناتا ہے تو دل اس کی کامیابی کی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ اس ناول میں جہاں انتہائی سادگی سے ہجرت کی سختی بیان ہوئی ہے وہیں پلوشہ کے ہاتھ پہ رچتی مہندی کی خوشبو بھی محسوس ہوئی۔ ایک طرف مجاہدین دشمن کی طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اللہ کی جانب سے ان کے لیے بھیجی جانے والی غیبی امداد کا ذکر بھی لہو کو گرماتا ہے۔ پڑھتے پڑھتے تصور میں امریکی صدر کا خوف سے لرزتا وجود بھی دِکھتا ہے جو مجاہدین کی ہیبت طاری ہونے کی بنا پر دورہ بھی پورا نہ کرسکے۔ مجاہدین کی جنگ کو امریکی جنگ میں بدلنے کی امریکی سازش کو ناکام بناتے مجاہدین کی عقل مندی بیان کرنا اور روسیوں کی مکارانہ چال بازیوں سے پردہ ہٹانا وہ بھی اس طرح کہ کہانی کا ٹیمپو برقرار رہے، یہ بھی مصنفہ کی قلم پہ گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بجا طور پر یہ ایک بہترین ناول ہے جو سرزمینِ افغانستان پہ روس کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی ہماری نسل کے لیے بہترین، دلچسپ اور معلوماتی ثابت ہوا۔

روبینہ اعجاز

اُمِ ایمان کا تحریر کردہ ناول ’’ پہاڑوں کے بیٹے‘‘ حقیقی تاریخی واقعات پر مبنی ہے جس میں افغان مجاہدین کی زندگی میں روس سے جنگ کے دوران آنے والی مشکلات، آزمائشیں، پھر دشمنانِ اسلام کی سازشیں، اسلام سے محبت اور جذبۂ جہاد سے سرشار زبیر عبداللہ کی نجی اور باہر کی زندگی کو بہت خوب صورتی سے تحریر کیا گیا ہے۔ دراصل اپنی تہذیب، ثقافت اور رسم و رواج کے متعلق لکھنا تو پھر آسان ہے، مگر دوسروں کی تہذیب اور رسم و رواج پر لکھنے کے لیے دقیق مطالعہ درکار ہوتا ہے جس پر اُم ایمان جیسی مصنفہ کو ملکہ حاصل ہے۔ جسارت سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے اس ناول کے قارئین میں یقینا اسلام اور جہاد کے جذبے سے محبت میں اضافہ ہوا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس جہاد بالقلم کو قبول فرمائے اور ہمارے نوجوانوں میں جہاد کا شوق پیدا ہو، تاکہ وہ اسلام دشمن قوموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں اور مسلمانوں کا نام روشن کرسکیں۔

سائرہ نعیم

’’پہاڑوں کے بیٹے‘‘ اُمِ ایمان کی نگاہ بلند، سخن دل نواز اور جاں پُرسوز کی ایسی کہانی ہے جو میرِ کارواں کے ساتھ عازمِ سفر افراد کے لیے بھی رختِ سفر ہے۔ افغان عوام کی سپر پاور ملک روس کے خلاف داستانِ عزیمت محبت اور عقیدت کے خمیر سے گندھی ہے جس میں کہیں بھی جدید تعلیم کی کمی اور مرعوبیت رکاوٹ نہیں بنتی۔ عقیدہ و ایمان جب مضبوط ہوتا ہے اور انسان بے لوث جدوجہد کرتا ہے تب اللہ تعالیٰ اپنے نشانات واضح کردیتے ہیں اور کامیابی قدم چومنے لگتی ہے۔ ناول حقیقی واقعات پر مبنی ہے جس کو خوب صورت انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس کا ہر واقعہ دل کے تار ہلا کر عمل کی دعوت دیتا ہے اور انسان کچھ کرنے کے لیے اپنے اندر توانائی محسوس کرتا ہے۔ آج کے حالات میں اس کا مطالعہ خصوصاً نوجوانوں کے لیے بہت مفید ہے۔

حصہ