کیچوا جن

712

بارش ہونے والی ہے۔ چلو ! جلدی سے یہ گملے ہم آگے کی طرف کر دیتے ہیں تا کہ بھی بارش کا مزہ اٹھاسکیں ۔“امی جان نے ہانیہ اور ہشام سے کہا۔
دونوں جلدی جلدی امی جان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ وہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے لیکن انہوں نے اپنے گھر میں ڈھیروں پودے گملوں میں لگا رکھے تھے۔ ان کے فلیٹ کی گیلری باہر سے بھی بڑی خوب صورت نظر آتی تھی۔ ہرے ہرے پتوں کے درمیان میں رنگ برنگے پھول جھانکتے ہوئے تو کہیں بڑے گملوں کی بیلوں نے توری اور کریلے کے زیو پہن رکھے تھے۔
ان پودوں سے صرف گھر کی خوب صورتی ہی نہیں تھی کہ امی کو دھنیا ہری مرچ ٹماٹر اور دیگر سبزیاں بھی گھر سے ہی مل جاتی تھیں۔ گھر کے اندر نہ صرف پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو رہتی تھی بلکہ ان کی وجہ سے ٹھنڈک کا احساس بھی رہتا تھا۔ پورے لگانے کے اس میں گھر کے سارے افراد ہی پیش پیش رہے تھے۔
ایک دن ابو جان ایک بڑا سا گملا لائے ۔ پھول کی شکل والے اس گلے میں رات کی رانی کا خوب صورت پودا لگا تھا جس میں سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھولوں کے گچھے اپنی بہار دکھارہے تھے۔
پھول تو اچھے ہیں لیکن ان میں خوشبوذرا بھی نہیں ۔ ہانیہ نے پھولوں کو سونگھتے ہوئے اعلان کیا۔ ابھی دن ہے۔ یہ رات کی رانی ہے، ذرارات ہونے دو پھر اس کی خوشبو د یکھنا ۔ ابو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں نے سنا ہے کہ جہاں رات کی رانی ہوتی ہے وہاں جن بھوتوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ امی جان نے پریشانی سے کہا۔
نہیں ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی ۔ بھلا جن بھوتوں کا رات کی رانی سے کیا تعلق؟ ابو جان نے امی کی بات رد کرتے ہوئے کہا۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ اسی پودے میں ایک سست جن رہتا تھا۔ اس نے نیند میں بھی اپنی آدھی آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر سو گیا۔ روزانہ اس کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی جب ہانیہ یا ہشام پودوں میں پانی ڈالتے ۔ باقی وقت وہ اپنے آپ کو ایک ننھےسے کچھوے میں تبدیل کر کے سوتا رہتا تھا۔ وہ اس گھر میں بڑا خوش تھا۔ بانی اور ہشام اچھے بچےتھے وہ بھی اس کے سر پر شور ہیں مچاتے تھے بلکہ بھی بھی ہانیہ شام کو کہانیوں کی کتابوں سے کہانیاں پڑھ پڑھ کر سنائی تھی۔
ایسے ہی ایک دن ملکوں ملکوں کی کہانیوں کی کتاب سے کہانی سناتے ہوئے ہانیہ نے ہشام کو ایک دور دیں کی کہانی سنائی جو بڑا خوب صورت تھا۔ اس دیس میں بہت ہی حیرت انگیز چیزیں تھیں ۔ وہاں پر یوں جنوں اور بہنوں کا بیرا تھا۔ اور کوہ قاف کا ذکر تھا۔ جن کی آنکھ کھلی تو اسے بھی کہانی سنے میں مزہ آنے لگا۔
یہ کیا تو اسی کی وادی کا ذکر تھالیکن بہت زیاد ہ سستی کی وجہ سے کوہ قاف کے بادشاہ نے اس کو کوہ قاف سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔
کاش! میرے پاس بھی کوئی اڑن قالین ہوتا، ہم بھی آسمانوں کی سیر کر سکتے۔ دنیا کے سب سے خوب صورت دیس کو دیکھتے ہشام نے اپنی خواہش بیان کی۔
بس بس شیخ چلی صاحب! اڑن قالین اب ہوائی جہاز میں بدل چکا ہے لیکن کوقاف اب دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ ہانیہ نے کہا۔
سنو سنو ! میری بات سنو باریک سی جن کی ہوئی آواز پر دونوں نے پلٹ کر دیکھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ ارے یہ آواز کہاں سے آرہی ہے؟ ہشام نے گھوم پھر کر ادھر ادھر دیکھا۔
ارے! میں ادھر ہوں ۔ ہشام کو آواز اپنے قریب سے سنائی دی۔ اس نے گملے کی منڈیر پر دیکھا ۔ ایک پتلا سا کچھوا سیدھا کھڑا تھا۔ دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا کیوں کہ آج تک انہوں نے کسی کچھوےکو کھڑے نہیں دیکھا تھا نہ ہی آن کی آواز کی تھی بلکہ ان کا خیال تھا کہ بچھو کے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔
کیا تمہیں بولنا بھی آتا ہے؟ ہانیہ نے حیرت سے پوچھا۔
ہاں! در اصل میں کچھ نہیں ہوں ۔ میں روزانہ تمہاری کہانیاں سنتا ہوں اور آج تمہاری کہانی سن کر میرا دل چاہا کہ ہشام کی خواہش کو پورا کروں۔ مجھے تم دونوں بچے بہت اچھے لگتے ہو۔
ارے کیا واقعی؟ ہشام حیرت سے چلایا لیکن تم تو خود بہت چھوٹے سے ہو میں کیسے آسمان کی سیر کرواسکتے ہو“ وہ تھوڑ اسا مایوس ہوا۔
اگر میں اصل شکل میں آیا تو تم ڈر جائو گے۔
نہیں! ہم نہیں ڈریں گے۔ لیکن تم ہمیں اپنے بارے میں تو بتاؤ کون ہو؟ ہشام نے دلی سے کہا۔
میں کوہ قاف کا ایک جن ہوں ۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے بارے میں کہانی اور شام کو آگاہ کیا پھر انہیں کوہ قاف کے بارے میں بھی بتایا تھا۔
کوہ قاف کے بارے میں جان کر دونوں بہن بھائی بہت پرجوش تھے۔ اب ان کی کچھوے جن سے اچھی دوستی ہو چکی تھی۔ کچھوے جن بھی اب صرف پانی سے کہانی سنے آتا ور نہ زیادہ تر غائب ہی رہتا۔ نہ جانے وہ کہاں جاتا تھا۔ اس نے ایک بار بتایا تو تھا کہ ابھی اس کا کوہ قاف میں داخلہ بند ہے۔
ہانیہ ہشام !! ادھر میری بات سنو‘ کچھوے جن کی آواز سن کر دونوں رات کی رانی کے پاس آبیٹھے۔ ہاں! کیا ہوا؟ ہشام نے پوچھا۔
آج میری سزا ختم ہوگئی ہے۔ میں دوبارہ کوہ قاف جارہا ہوں ۔ میں نے کوہ قاف کے بادشاہ سے معافی کی درخواست کی تھی لیکن سزا کے طور پر مجھے ایک ہزار درخت لگانے تھے۔ اب چوں کہ میں سارے درخت لگا چکا ہوں لہذا مجھے واپس جانے کی اجازت مل گئی ہے۔
ارے واہ! بیتو بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہانیہ نے خوشی کا اظہار کیا۔
لیکن کیا اب تم ہم سے دور چلے جاؤ گے؟ ہشام نے پوچھا۔ ”ہاں! لیکن میں تم دونوں کے لیے سلطان معظم سے اجازت لے کر آیا ہوں ۔ آج تمہیں کوہ قاف کی سیر کراؤں گا۔“
اوہ…. کیا واقعی ۔ ؟ہانی خوشی سے چلائی۔ ہاں! اب میں اپنی اصلی شکل میں آتا ہوں ۔ امید ہے تم لوگ گھبرائو گے نہیں ۔ ہاں ہاں …… بالکل نہیں ‘‘ کچھوا جان آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا۔ یوں لگتا تھا جیسے بڑے غبارے میں ہوا بھری جارہی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ اس کا سر چھت سے جالگا لیکن وہ ذرا بھی خوف ناک نہ تھا۔ ہانیہ اور ہشام سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس کے سر پر ایک چوٹی اور کانوں میں بہا لے اس کے سزایافتہ ہونے کی نشانی تھے۔ اس نے بانی اور شام کو اپنی کھیلی پر بٹھا لیا۔ وہ اب تیزی سے اڑتے چلے جارہے تھے۔ اونچی اونچی عمارتیں اب نے کھلونے کی طرح دکھائی دے رہے ہیں ۔ بادل ان کے اردگر ڈال رہے تھے۔
”واہ کتنی خوبصورت جگہ ہے۔ ہانی کی نظر نیچے پڑی تو وہ بے ساختہ بول تھی۔ وہاں مختلف تم کے رنگارنگ باغات اپنی بہار دکھارہے تھے۔
یہ کوہ قاف کا حصہ ہی جھو جن نے کہا۔ در اصل بادشاہ جس کسی کو سزا دیتا ہے اسے ہمیشہ درخت لگانے کی سزا دیتا ہے۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں ۔ نہ صرف کوه قاف کی فضا آلودہ ہونے سے بچتی ہے اور یہ خوب صورت نظر آتا ہے بلکہ لگانے والے شخص کے اندر بھی محبت اور رحم دلی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ جب وہ ان کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کے اندراحساس ذمہ داری بھی پیدا ہوتا ہے۔ کوئی جن جب تک اپنی سزا میں دیے گئے درخت نہ لگا لے تب تک وہ کوہ قاف میں داخل نہیں ہوسکتا اب وہ کو ہ قاف میں داخل ہو چکے تھے۔ حیرت انگیز مناظر ان کے منتظر تھے۔ جن نے انہیں بادشاہ کے حل سامنے آتارا۔
کہیں وہ ہمیں قید نہیں کریں گے؟ ہانیہ نے پریشانی سے پوچھا۔
نہیں ۔ نہیں! بالکل نہیں۔ یہاں کسی کو بلا وجہ پریشان نہیں کیا جاتا ، جن نے تسلی دی۔ اتنے میں دوخوب صورت پریاں آئیں اور انہیں جن بادشاہ کے دربار میں لے گئیں۔
کچھوے جن نے پہلے ہی ان کا تعارف کروایا ہوا تھا۔ بادشاہ بھی ان سے مل کر خوش ہوا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ یہ درختوں اور پودوں سے پیار کرتے ہیں۔ بادشاہ نے انہیں انعام کے طور پر اپنے پاس سے ایک تخت شاہی عنایت کیا جسے کیچوے جن نے اپنی کمر پر اٹھا کر انہیں کو قاف کی سیر کروائی۔
ہانیہ اور ہشام اس تخت شاہی پر کوئی شہزادہ شہزادی معلوم ہوتے تھے۔ ہانیہ اور ہشام بہت خوش تھے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کو قاف کے بادشاہ اور سارے جن ان سے کیوں خوش تھے؟
کیا کہا؟ ہمیں معلوم؟ تو معلوم کر و۔ ویسے میں نے سنا ہے کہ درختوں پر آج بھی اچھے جن رہتے ہیں جو درخت لگانے والوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔

حصہ