کراچی بول اُٹھا

285

کراچی ہوں، سمندر کے کنارے پر ٹھکانا ہے
ہر اک پَل دل کو یہ دھڑکا کوئی طوفان آنا ہے

مرے ”ساتھی“، مرے رہبر، مرے دشمن، مرے راہ زن
عجب اسرار ہے، ان سب میں گہرا دوستانہ ہے

وطن جانو، نگر سمجھو، رہو مجھ میں تو گھر سمجھو
مگر تم نے تو مجھ کو صرف سمجھا کارخانہ ہے

لیاری ہوں، میں لانڈھی ہوں، میں کیماڑی، اورنگی ہوں
مجھے تم توڑتے ہو، اور مجھے خود کو بچانا ہے

اے میرے دعوے داروں کیوں مجھے تم چھوڑ جاتے ہو
سیاست کے لیے میں، پھر کہیں باہر ٹھکانا ہے

جو مجھ میں آبسا میں نے اسے فرزند ہی سمجھا
نہیں دیکھا، زباں ہے کیا، نیا ہے یا پُرانا ہے

اراضی ہی مجھے سمجھا گیا، یہ ہے میرا مسئلہ
خدارا! مجھ کو سمجھو شہر، سمجھو آشیانہ ہے

چلو یہ طے ہوا مجھ کو ستانا ہے، جلانا ہے
بس اب اتنا بتادو کیا مجھے یکسر مٹانا ہے؟

مرے سینے پہ گھاؤ میرے اپنوں نے لگائے ہیں
اور اپنے بھی کہاں، کب کس نے مجھ کو اپنا جانا ہے

مجھے بس یاد رکھنا ہے، کماؤ پوت ہوں ماں کا
مری کوئی ضرورت ہے، مجھے یہ سب بُھلانا ہے

میں بیٹا سندھ کا ہوں، ناز سے کہتا ہوں یہ، لیکن
سگا ہوں یا کہ سوتیلا، یہ اب تم کو بتانا ہے

ابھی کچھ روشنی ہے، دیکھ لیجے مجھ کو جی بھر کے
کہ تاریکی میں مجھ کو جانے کس دم ڈوب جانا ہے

مری آبادی کم کرنے کا تم کو شوق ہے کتنا
تم آدھا کرچکے ہو، اب کہو کتنا گھٹانا ہے

لُہو سے مجھ کو نہلایا، مگر پانی نہ دے پائے
مجھے کیا پیاس اپنی اپنے ہی خوں سے بُجھانا ہے؟

حصہ