مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تاریخ کے آئینے میں

2170

سلسلۂ نسب

’’خواجہ ابو محمدچشتی ‘‘(۳۳۱۔۴۱۱ھ) نامور بزرگ ’’ابو احمدابدال چشتی ‘‘(۲۶۰۔۳۵۵ھ) کے فرزند اور خلیفہ تھے۔ ابو احمدابدال چشتی ، حضرت حسن مثنی بن امام حسن کی اولاد سے تھے اور خواجہ ابو اسحاق شامی کے خلیفہ اعظم تھے۔ انہی سے صوفیائی کا مشہور سلسلہ جاری ہوا جبکہ ’’خواجہ ابو یوسف چشتی ‘‘ (۳۷۵۔ ۴۵۹ھ) کاسلسلہ نسب حضرت امام علی نقی کے واسطے امام حسین تک پہنچتاہے ، یہ خواجہ ابواحمد ابدال کے نواسے اور خواجہ ابو محمد چشتی کے بھانجے تھے۔ جبکہ سید قطب الدین مودودچشتی ’’خواجہ ابو یوسف چشتی کے فرزنداکبر تھے۔‘‘
٭امام حسن …حسن مثنی…(کی اولاد سے ) ابو احمد ابدال چشتی ( بانی سلسلہ چشتیہ ) …کے بیٹے خواجہ ابو محمدچشتی …کے بھانجے ،خواجہ ابو یوسف چشتی …کے بیٹے سیدقطب الدین مودودچشتی جبکہ دوسری جانب امام حسین …امام علی نقی…کی اولاد سے خواجہ ابو یوسف چشتی کے بیٹے سید قطب الدین مودود چشتی تھے۔
سلسلۂ طریقت میں:ابواحمد ابدال چشتی ، خواجہ ابو یوسف چشتی کے دادا پیر اور خواجہ ابو محمدچشتی کے پیر تھے۔ اجمیر کے خواجہ معین الدین چشتی کے شیخ ، خواجہ عثمان ہاردانی تھے جبکہ خواجہ عثمان شریف زندنی تھے جبکہ خواجہ شریف کے پیر سید مودودقطب چشتی تھے۔
٭ابو ابدال چشتی …ابومحمدچشتی …ابو یوسف چشتی …سید قطب الدین مودودچشتی …خواجہ شریف زندنی …خواجہ عثمانی ہاردانی … خواجہ معین الدین چشتی ( اجمیر والے بھارت )۔

آبائے مودودی

سید قطب الدین مودود چشتی اور ان کے والد خواجہ ابو یوسف چشتی ( ہرات افغانستان) کے مقام چشت میں پیداہوئے۔ چشت ہرات سے ۱۰۶میل کے فاصلہ پر ایک سرسبز وادی ہے۔ آپ کا نسب تیرا واسطوں سے امام حسین سے جا ملتاہے۔ آپ نے قرآن اور ظاہری علوم کی تعلیم حاصل کی اور ’’منہاج العارفین ‘ ‘ اور ’’خلاصۃ الشریعہ‘‘جیسی بلند پایہ تصنیف کی۔ آپ چشت ،ہرا ت ، افغانستان میں ہی دفن ہیں۔
خاندان مودودیہ کی وہ شاخ جس سے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کاتعلق ہے وہ نویں صدی ہجری ؍پندرھویں عیسوی صدی میں افغانستان سے بلوچستان (پشین ) داخل ہوئے اور پھر کئی پشتوں تک قیام کے بعد ہندوستان داخل ہوئے۔ اس شاخ سے جو ہندوستان داخل ہوئے ان کانام ’’شاہ ابوالاعلیٰ جعفر مودودی‘‘ (۷۸۲۔۹۱۶ھ) تھا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی کے نام میں ’’ابوالاعلیٰ ‘‘انہی کے نام سے منسوب ہے۔ ابوالاعلیٰ جعفر،کرنال کے قریب قصبہ براس میں مقیم ہوئے اور سکندر لودھی کے دور حکومت میں ہندوستان میں کئی جہادی معرکوں میں شریک ہوتے رہے۔ وہاں سے یہ خاندان میرٹھ کچھ عرصہ مقیم رہنے کے بعد شاہ عالم کے زمانے (اٹھارہویں صدی عیسوی ) میں دہلی آگیا۔
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے والد ’’سید احمد حسن ‘‘ (۱۹۲۰ء۔ ۱۸۵۵ء) دہلی میں پیداہوئے۔ علی گڑھ میں کچھ تعلیم حاصل کی پھر الہ آباد سے
وکالت کاامتحان پاس کیا اور اورنگ آباد ،حیدرآباد دکن جا کر وکالت شروع کردی۔ سید احمد حسن ’’سر سید احمدخان ‘‘ کے بھانجے تھے۔ مولانا مودودیؒ کی والدہ ’’محترمہ رقیہ بیگم ‘‘ کاتعلق دہلی سے تھا۔ سید احمدحسن کے چار بیٹے ابوالقاسم ،ابو محمد، ابوالخیر، ابوالاعلیٰ تھے۔

ابتدائی زندگی (۱۹۰۳ء تا ۱۹۱۸ء)۔

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ۳؍رجب ۱۳۲۱ھ بمطابق ۲۵ستمبر۱۹۰۳ء بروز جمعۃ المبارک ساڑھے گیارہ بجے دن اورنگ آباد۔ حیدرآباد دکن (موجودہ مہاراشٹر ،بھارت)میں پیداہوئے۔ اپنے والد کے ہمراہ کم عمری ہی میں مسجد جانا اور علما کی محفلوں میں بیٹھنے لگے ۔ مذہبی خاندان ہونے کے سبب شروع زندگی سے ہی دینی تعلیم کا حصول جاری رہا۔ قرآن کی سورتیں یاد کیں جبکہ ۹ برس کی عمر تک ، صرف و نحو ، عربی ، فارسی ، فقہ، حدیث اور اُردو کی ابتدائی تعلیم والد محترم سے ہی حاصل کی۔
۹ برس کی عمر میں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد میں (رشیدیہ) آٹھویں جماعت میں داخل ہوئے اور ۱۱ برس کی عمر میں ۱۹۱۴ء میں (مولوی ) دسویں جماعت کاامتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے آپ کو دارالعلوم حیدرآباد بھیج دیاگیا مگر والد کی بیماری کے سبب دارالعلوم میں مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے اور ۱۹۱۵ء میں بھوپال اپنے بڑے بھائی ابو محمدکے پاس منتقل ہوگئے۔ تاہم اس عرصہ میں مطالعہ کاگہرا شغف حاصل ہوگیا۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی مضامین اور انگریزی زبان کاغیر معمولی مطالعہ کیا۔ مطالعہ کے ساتھ تحریر کا ذوق پیدا ہوا اور اسی سبب صحافتی دنیامیں داخل ہوگئے ۔۱۹۲۰ء میں والد محترم کاانتقال ہوگیا ۔ والد کے انتقال تک عملاً بھوپال میں ہی گھر والوں کے ہمراہ مقیم رہے۔

صحافتی زندگی (۱۹۱۸ء۔ ۱۹۲۸ء)۔

مولانا مودودی ؒ کی خود نوشت دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ مختلف زبانوں میں چار اخباروں سے منسلک رہے ۔ جن میں سہ روزہ اخبار ’’مدینہ ‘‘ بمقام بجنور (۱۹۱۸ء )،ہفت روزہ بعد ازاں روزنامہ اخبار ’’تاج ‘‘ بمقام جبلپور (۱۹۱۹ء۔ ۱۹۲۰ء) ،ہفت روزہ اخبار ’’مسلم ‘‘بمقام دہلی (۱۹۲۰ء ۔۱۹۲۳ء) اور سہ روزہ اخبار ’’الجمعیۃ ‘‘ بمقام دہلی (۱۹۲۵ء ۔۱۹۲۸ء)سے وابستہ رہے۔ ابتدائی دواخباروں میں وہ اپنے بھائی ابوالخیر کے ہمراہ رہے بعد کے دو اخبارات میں مولانا مودودیؒ مدیر کی حیثیت سے وابستہ رہے ۔ ’’الجمعیۃ ‘‘ ہی وہ اخبار ہے جو مولانا مودودی کی وسیع شہرت اور مقبولیت کاباعث بنا۔ ’’مسلم ‘‘ اور ’’الجمعیۃ‘‘ دونوں یکے بعد دیگر ’’جمعیت علماے ہند‘‘ کے ترجمان اخبار تھے ۔ لیکن مسلک سے بالاتر اسلامی جرائد تھے۔
اسی عرصے میں مولانامودودی ؒ نے تعلیمی عمل بھی جاری رکھا اور دارالعلوم فتح پور دہلی اور مدرسہ عالیہ عربیہ دہلی سے علم حدیث ، فقہ اور ادب میں اسناد حاصل کیں۔ بعدازاں ۱۹۲۸ء کے آخر میں مولانا مودودیؒ نے صحافت سے قطع تعلق کرتے ہوئے تصنیف و تالیف کے اُمور کو اپنالیا اور دہلی سے واپس حیدرآباد دکن چلے گئے۔
۱۹۱۸ء میں: ۱۵سال کی عمر میں پہلا سائنسی مضمون ’’برق یا کبریا ‘‘ ماہنامہ معارف ’’مدیر :سید سلمان ندوی) میں شائع ہوا۔
۱۹۲۴ء میں :۲۰سال کی عمر میں معاشرتی مضمون ’’اخلاقیات اجتماعیہ ‘‘ماہانہ ہمایوں (مدیر:میاں بشیر احمد) میں شائع ہوا۔
۱۹۲۵ء میں : ۲۱ سال کی عمر میں دو حصوں میںتفصیلی مضمون ’’اسلام کی قوت کااصل سرچشمہ ‘‘اخبار الجمعیۃ (مدیر:ابوالاعلیٰ مودودیؒ ) میں شائع ہوا۔
۱۹۲۷ء میں: ۲۴سال کی عمر میں ۲۳یا ۲۴قسطوں میں ’’اسلام اور قانون جنگ ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مضامین اخبار الجمعیۃ میں شائع ہوئے۔ جنہیں ۱۹۳۰ء میں ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں دارالمصنفین اعظم گڑھ (مہتمم :سید سلمان ندوی ) نے شائع کیا۔ اس عرصہ میں اخبار الجمعیۃ کے بیشتر ادارتی نوٹ لکھے اور ۶، ۵مضامین اور ۳ کتب کا اُردومیں ترجمہ بھی کیا۔

فکری زندگی (۱۹۲۸ء۔ ۱۹۴۱ء)۔

اس عرصے کے ابتدائی برسوں میں حیدرآباد دکن میں قیام کے دوران مولانامودودیؒ نے تاریخ پر مطالعہ اور تحقیق شروع کی۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۵ سال تھی۔ آل سلجوق دکن کی سیاسی تاریخ ، دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے تعلقات کی تصنیف اسی عرصہ میں ہوئی جبکہ تاریخ ابن خلدون کاترجمہ ’’السفاراربعہ ‘‘کے نام سے کیا۔ اسی عرصہ میں ’’طالب ‘‘ کے تخلص کے ساتھ شعر و شاعری بھی کی۔ ۱۹۳۰ء میں ریاست حیدرآباد کے محکمہ تعلیم کے ایما پر نصابی کتب ’’دینیات ‘‘ تحریر کی۔ جسے ریاست میں ہائی اسکول کے نصاب کاحصہ بنادیاگیا۔
بعدازاں ۳۰ سال کی عمر میں ۱۹۳۳ء میں رسالہ ’’ترجمان القرآن ‘‘ کے اجرا سے براہ راست مسلمانوں سے خطاب کے طریقہ کو اختیارکرتے ہوئے اپنے خیالات وافکار کی اشاعت کاآغاز کردیا۔ ابتدا آپ نے اسلام کے افکار اقدار اور بنیادی اصول واضح کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھی بعد میں آپ نے عمومی مضامین کے بجاے اس وقت کے زندہ عنوانات جس میں ہندوستانی قوم کااحیا شامل تھا جیسے رہنما مضامین کا آغار کیا اور قلیل مدت میں معاشرہ میں مقام بنالیا۔ اسی عرصے میں ’’حقوق الزوجین‘‘ ، ’’سود‘‘ ، ’’پردہ‘‘، ’’مسئلہ جبر و قدر‘‘، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول مبادی، ’’اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘‘، ’’تفہیمات‘‘ اور ’’ہمارے نظام تعلیم کی بنیادی خرابی‘‘ جیسی کتب تصنیف کیں۔
۱۹۳۷ء میں مولانامودودی ؒ کی شادی ۳۴ برس کی عمر میں محمودہ بیگم کے ساتھ ہوئی۔ محمودہ بیگم کاتعلق دہلی کے بخاری خاندان سے تھا۔ دہلی کی جامع مسجد کی امامت اسی خاندان کے پاس ہے۔ علمی اور صاحب ثروت خاندان سے تعلق رکھنے والی محمودہ بیگم نے مولانا مودودیؒ کی زندگی کے مشن میں بھرپور تعاون کیا اور مولانا کے ہمراہ شادی کے فوری بعد ۴ ہجرتیں بھی کیں۔ مولانا کی قید وبند کی صعوبتوں میں صبر کادامن نہ چھوڑا۔ گھر کے معاملات اور بچوں کی تربیت محمودہ بیگم کے سپرد ہی تھیں۔ محمودہ بیگم کا انتقال ۲۰۰۳ء میں ہوا۔
سنجیدہ حلقوں میں مولانامودودیؒ کی شخصیت اور افکار کو درجہ حاصل ہونے لگا۔ اسی عرصہ میں علامہ ڈاکٹر اقبال اور مولانا کی خط وکتابت بذریعہ چوہدری نیاز محمد شروع ہوئی۔ چوہدری نیاز محمد پٹھانکوٹ کے علاقہ میں ایک ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے جو تحقیق، تعلیم اور تربیت کے اُمور سرانجام دے ۔ چوہدری نیاز محمدکے ان خیالات کی روشنی میں علامہ محمداقبال نے سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کانام تجویز کیا اور اُنھیں آمادہ کیاکہ وہ پٹھانکوٹ منتقل ہو کراس ادارہ کا انتظام سنبھالیں۔ دعوت ملنے کے تقریباً ۲سال بعد تمام معاملات کے حتمی ہوجانے پر ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پٹھانکوٹ منتقل ہوگئے اور ’’دارالاسلام ‘‘ نامی علمی اور تحقیقی مرکز کی بنیاد ڈالی ۔ ۱۹۳۸ء سے ۱۹۳۹ء تک دارالاسلام قائم رہ سکا۔ اسی عرصے میں مسلمانان ہند کی رہنمائی کے لیے رفقاکی مشاورت سے مسلمانوں کی ایک فکری جماعت کی تشکیل پر سوچنے کاعمل شروع ہوا۔ لہٰذا ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۲ء تک لاہور میں قیام کیا۔ اسلامیہ کالج کے شعبہ دینیات میں ایک سال بلا معاوضہ فرائض سرانجام دیے۔
وہ وقت تھا جب حکومت برطانیہ اہل ہند کو صوبائی خود مختاری دینے پر رضا مندہوگئی تھی اور خطہ میں انتخابات کاانعقادبھی ہو رہاتھا۔ کانگریس کی حکومت نے مسلمانوں کو محکوم بنا ڈالا تھا۔ کانگریس اس وقت ’’متحدہ قومیت‘‘ کے فلسفہ کو اُجاگر کررہی تھی اور بہت سے علما کانگریس کے ساتھ تھے مگر مولانامودودیؒ سمیت بعض علما ’’دو قومی نظریے ‘‘ کے حامی تھے۔ اسی عرصے میں مولانا نے مسلمانوں کے علیحدہ قومیت کے تصور سے متعلق اسلامی اور قومی حکومت کا فرق سے متعلق انقلابی و علمی مضامین تحریر کیے جو قیام پاکستان کی تحریک میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔ یہ مضامین اب ’’تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘‘ کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ