سوشل میڈیا پر تنظیم سازی کا شور

328

موٹر وے سانحہ کے ایک مجرم عابد کی گرفتاری اب دیگر نئی خبروں کے پس منظر میں چلی گئی ،یقیناً لوگ بھول جائیں گے ۔ مروہ کے بھی دو قاتل پکڑے گئے تیسرا مفرور ہے ، مگر یہ سب ایسا اگلا کیس آنے اور مشہور ہونے تک کی خاموشی ہے ، مگر جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے میڈیا کے ذریعہ پھیلتی عریانی و فحاشی کو روکنے یا ختم کرنے میں سنجیدگی کا اظہار کیا ہے مجھے دِلی خوشی اور اطمینان ہوا ہے کہ کم از کم مسئلہ کی ایک اہم جڑ کو تو پکڑلیا گیا ، وگرنہ تو لوگ ماننے کو ہی تیار نہیں ہوتے ۔ یہ ’دیسی لبرلز‘ ایسے ایسے تھرڈ کلاس ، بے تُکے فارمولے لاتے ہیں کہ کوئی معقول آدمی تو اُن پر ہنسنے میں ہی آدھا ہو جاتا ہے ۔ایک تو ’ سیکس ایجو کیشن‘ کا راگ سب سے زیادہ الاپا جاتا ہے ، درپردہ یہ سمجھانے کے لیے کہ رضا مندی سے جو کچھ ہو جائے وہی اچھا ہے۔ مگر جب پوچھا جائے کہ اغوا ہو جانے، نشہ آور چیز کھلانے کے بعد اور پھر قتل ہونے کے دوران یہ ایجوکیشن کس کام کی ؟ تو آئیں بائیں شائیں کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔یہی نہیںدوسری جانب یورپی ممالک کو بطور امن یا جنت ٹائپ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہاں کیوں نہیں مسائل ہوتے؟اب جب اُن کو انتہائی مہذب انداز میں مغرب ہی کے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں تو سارے ڈھٹائی سے بغلیں جھانکتے ہوئے موضوع بدلتے ہیں کبھی مدرسہ کا مولوی یا د آجاتا ہے تو کبھی مردوں کی ذہنیت یا نظر یا کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔
ویسے وزیر اعظم پاکستان کے اس اہم و اعلان و خواہش پر تو اُن کی ٹیم کی جانب سے اِس ہفتہ کئی کئی ہیش ٹیگ متعارف ہو کر ٹرینڈ بننے چاہیے تھے مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ پی ٹی وی پر نشر ہونے والی خواتین کی مخلوط ورزش کی ویڈیو پر ایک سادہ ٹوئیٹ کرنے کے ’جرم ‘میں پچھلے ہفتہ جس طرح سوشل میڈیا پر ملک کے معروف صحافی انصار عباسی کے خلاف جو کچھ مہم چلائی گئی اُس کا ذکر ہم نے پچھلے ہفتہ کیا تھا۔ انصار عباسی نے ہمت نہیں ہاری اور تواتر سے اپنا قلم اس مقصد کے لیے استعمال کرتے رہے ۔ انہوں نے لکھا کہ ’وزیراعظم عمران خان سے ہزار اختلاف سہی لیکن جس فکر کا وہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی سے متعلق اظہار کر رہے ہیں اور جو اقدامات وہ اِس لعنت کے خاتمہ کے لئے اُٹھانا چاہ رہے ہیں، اُس پر پوری قوم کو اُن کی مدد کرنی چاہئے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے بلکہ سیاسی مخالفت کو بالائے طاق رکھ کر، اِس تیزی سے بڑھتی گندگی کو صاف کرنے میں قوم کو متحد ہو جانا چاہئے ورنہ ہماری نسلیں تباہ و برباد ہو جائیں گی۔ نہ ہم دنیا کے رہیں گے، نہ آخرت کے۔ ‘ انصار عباسی کی یہ بات دل کو لگنے والی ہے اور وزیر اعظم کا یہ اقدام قبولیت عام ہونا چاہیے اُن تمام طبقات کے لیے جو اِس تباہی کو بے بسی سے دیکھ رہےہیں اور اُن کے لیے بھی جو ماضی میں اس موضوع پر تواتر سے احتجاج کرتے رہے ہیں ۔بے بسی اس لیے کہ س کو روکنے کی قوت نافذہ بہر حال حکومت کے پاس ہی ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ 80کی دہائی یعنی سابق صدر ضیا الحق کے دور کے بعدکوئی 30سال بعد پہلی بار ملک کے کسی وزیر اعظم نے اس پر سنجیدگی سے بات کی ہے ۔ اگر ملک کا وزیر اعظم خود اس بات کا اقرار ، عزم ،حوصلہ اور مستقل توجہ دلا رہے ہیں تو اس بات کو صرف قابل ستائش ہی نہیں بلکہ اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔انصار عباسی خود بتاتے ہیں کہ ’وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے بتایا کہ اُن سے وزیراعظم کوئی پندرہ، سولہ مرتبہ اس بارے میں بات کر چکے ہیں۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے بھی مجھے یہی بتایا کہ اُنہیں وزیراعظم نے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ پاکستانی فلم اور ڈرامہ کو فحاشی و عریانی سے پاک کریں اور ترکی کی طرح پاکستان میں بھی بامقصد، اسلامی ہیروز اور اسلامی تاریخ پر مبنی فلمیں اور ڈرامہ بنائے جائیں۔ پی ٹی اے کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ عامر عظیم سے بات ہوئی تو اُنہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہماری معاشرتی و مذہبی اقدار کو بچانے کے لئے وزیراعظم بہت فکر مند ہیں اور اِس سلسلے میں اُنہوں نے پی ٹی اے کو بھی حکم دیا ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو پاکستانی صارفین کے لئے فحش مواد سے پاک کیا جائے۔ ‘ یہی نہیں بلکہ یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ عمران خان کو اس معاملے کی جڑ کا بھی اندازہ ہے ،انصار عباسی لکھتے ہیں کہ ’خان صاحب نے ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹرنیوز کو یہ بھی کہا کہ پاکستان میں جنسی جرائم میں فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کی وجہ سے بہت اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھارت اور مغرب کی وہ فحش فلمیں و ڈرامے ہیں، جو یہاں دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا ایپس اور انٹرنیٹ کی وجہ سے موبائل کے ذریعے بھی جو فحش مواد ہر فرد تک پہنچ رہا ہے اُس کی وجہ سے بھی پاکستان میں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ایک وقت تھا کہ پاکستانی ڈرامہ اور فلم فحاشی و عریانی سے پاک ہوتے تھے اور خاندان کے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے تھے لیکن اب ہمارے ڈراموں اور فلموں میں بھی فحاشی و عریانی دکھائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نے اور بھی باتیں کیں لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ فحاشی و عریانی کے متعلق وزیراعظم کی باتوں کو میڈیا نے یا تو مکمل سنسر کر دیا یا ایک دو جملے خبروں میں اِس انداز میں ڈالے جیسے کوشش ہو کہ کوئی پڑھ یا دیکھ نہ لے۔‘
اس ہفتہ بھارت سے بابری مسجد کیس میں آنے والی خبر بھی سوشل میڈیا کاموضوع بنی اورسیکولر بھارت کے چہرے پر ایک اور بد نما داغ ڈال گئی۔ دن کے اجالے میں 6 دسمبر 1992ء کو پوری دنیا نے ٹی وی اسکرینوں پر جن ظالموں کے ہاتھوں  بابری مسجد کو شہید ہوتے دیکھا اُس بابری مسجد شہادت کیس کے تمام نامزد ملزمان کو عدالت نے یہ کہہ کر بری کر دیا گیا کہ بابری مسجد کی شہادت منصوبہ بندی نہیں بلکہ ایک اچانک جذباتی واقعہ تھا ۔ایک صارف نے اس پر یہ ٹوئیٹ کیا کہ ’28 سال بعد سی بی آئی عدالت کے منصوبہ بند فیصلے میں جب یہ کہا گیا بابری مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں تھاتو اس بنیاد پر کل کو اپیل میں ہائی کورٹ کا جج یہ فیصلہ دے گا کہ عوامی ہراسائی سے تنگ آکر بابری مسجد نے خود کشی کی تھی‘۔ بھارت سمیت پاکستان و دنیا بھر میں مسلمانوں نے عدلیہ کے اِس جانبدار فیصلہ پراپنے غم و غصہ کا اظہارکیا اور اس موضوع کو 80ہزار ٹوئیٹس کے ساتھ طویل ترین ٹرینڈ تک کھینچا گیا۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے تبصرہ کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ ’بابری مسجد پر تو جوہونا تھا وہ ہو چکا،اب بھارتی عدالتیں جو کر رہی ہیں مجھے اس پر دلی خوشی ہے، جو ملک بھی تباہ ہوتا ہے اُسکی ابتدا ناانصافی سے ہوتی ہے اور انڈیا اب اسی ڈگر پر ہے۔‘امریکا میں جاری صدارتی انتخاب میں ہونے والے روایتی صدارتی مباحثے کی پہلی نشست بھی سوشل میڈیا کا موضوع بنی ۔اس میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ہونے والی بد مزگیاں ،اپنے مخالف جو بائیڈن کی تحقیراورٹرمپ کی شخصیت کا غیر روایتی، جارحانہ، تحقیر آمیز اور افواہیں پھیلانے والا پہلو جو ’ٹوئٹر ٹرمپ‘ کہلاتا ہے وہ ڈیڑھ گھنٹہ طویل اس مباحثے میں پوری طرح واضح نظر آیا۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے 8کروڑ 64لاکھ فالوورز اور انسٹا گرام پر سوا 2کروڑ فالوورز اسی وجہ سے ہیں۔انکےمقابلے پر موجود جو بائیڈن کے اپنے ٹوئیٹر پر کوئی 1 کروڑ 1لاکھ فالوورز جبکہ انسٹا گرام پر 43 لاکھ فالوورز، جبکہ فیس بک پر کوئی ساڑھے27لاکھ فالوورز اپنے اُمیدوار کی مہم میں شامل رہے۔ایک ٹوئیٹ میں تو جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ سے ٹیکس ریٹرن کی رسیدیں بھی مانگیں جو خاصی وائرل رہی۔معروف صحافی و اینکر ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ ،’بائیڈن سے مذاکرے میں ٹرمپ بالکل وہی کرتا رہا جو پاکستان یا بھارت کے سیاستدان کرتے ہیں۔ امریکی جو پوری دنیا کی تباہی پر خوش اور خاموش رہے بلکہ کئی ملکوں کی بربادی میں حصہ بھی ڈالا وہ اسی طرح کی قیادت کے حقدار ہیں۔‘
پاکستانی سیاست میں حکومت و اپوزیشن کے درمیان مستقل کشیدگی کی وجہ سے سوشل میڈیا بھی اس ہفتہ ایسے ہی بے وقعت موضوعات کا ڈھیر بنی رہی جس نے پاکستانی سیاست کی بے توقیری کے سوا کچھ ظاہر نہیں کیا۔اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں میاں نواز شریف کا خطاب سب کو گراں اس لیےبھی گزرا کہ اب وہ آہستہ آہستہ ریٹائرڈ بیوروکریٹس یا فوجیوں کی کسی کتاب میں آنے والے اہم پردے بھی اٹھانے شروع ہو رہے تھے۔دوسری جانب اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کے خطاب پر کئی ہیش ٹیگ کی صورت تعریفوں کے پل باندھے جاتے رہے ۔
یہ تو چل ہی رہا تھا کہ حکومت کو مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کے صورت ایک اور ایشو مل گیا۔ نا معلوم کہاں سے طلال چوہدری کے نام پر ’تنظیم سازی ‘والا موقف سامنے آیا اور یہ جملہ ایسا پیٹا گیا کہ طلال چوہدری سمیت مسلم لیگ ن کی تمام تر قیادت کو ’چپ ‘لگ گئی ۔ وہ صرف تحقیقات کے سوا کچھ نہ بول سکے ۔اس دوران نیب کا اضافی اثاثوں سے متعلق جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن کو طلب کرنے کے فیصلہ کا رد عمل سوشل میڈیا پر خوب نظر آیا۔’مولاناکےجاںنثارہیںتیار ‘ کے ہیش ٹیگ تلے ایک جانب مولانا کے مبینہ ناجائز اثاثوں کی طرف داری جاری رہی تو دوسری جانب حکومت نے ’آرٹیکل 6نواز و ڈیزل ‘کے عنوان سے جوابی کارروائی ڈالی۔ویسے ’ڈرامہ چھڈو استعفی کڈو‘کے ہیش ٹیگ سے بھی اپوزیشن کو سوشل میڈیا پر خوب رگڑا دیا جاتا رہا۔
اسلام آباد سے ہٹ کر اس ہفتہ ہی کراچی میں عوامی سیاسی سرگرمیاں عروج پر نظر آئیں ۔کراچی جو کہ پاکستان کی اہم ترین اقتصادی شہہ رگ اور بلاشبہ سب سے بڑی آبادی و رقبہ کا شہر ہے ،اس شہر کے لوگوں کے مسائل پر جماعت اسلامی نے بڑی عوامی قوت کا اظہار شارع قائدین پر خواتین و حضرات کے ساتھ کیا ۔ اس مارچ کو اور مہم کو عوام سطح پر خواب پذیرائی ملی ۔جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم نے ہفتہ بھر میں کئی ہیش ٹیگ کے ذریعہ ٹرینڈ لسٹ میں جگہ بنائی ۔مارچ کی تصاویر، تقاریر کے کلپس ، شرکا کے علاوہ خبروں کی کوریج ودیگر کو موثر انداز سے سوشل میڈیا کی زینت بنایا اور نیٹیزن کو اچھی طرح متوجہ کیا ۔
پاکستانی معروف گلوکاروںعلی ظفر اور میشا شفیع والا معاملہ بھی اس ہفتہ ایک اہم رُخ اختیار کر گیا ، اس بار دونوں پارٹیاں ہر حوالے سے مضبوط تھیں ۔ علی ظفر پر میشا شفیع کا جنسی ہراسانی کا الزام تحقیق کے بعد جھوٹا ثابت ہوا جس کے نتیجے میں علی ظفر کی جانب سے ایف آئی اے میں سائبر کرائم سیل نے میشا شفیع اور اس کے آٹھ ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جھوٹی خبر سے کسی کو بھی بدنام کرنے کے ضمن میں سائبر کرائم کےدائرے میں ایک اچھی مثال مرتب ہوئی ۔می ٹو کے عنوان سے خواتین نے اس خبر پر وہی اظہار کیا جس کی توقع اُن سے کی جا سکتی تھی ۔

حصہ