ختم الرسول محبوبِ کُلؐ

335

اریبہ نے اپنی مما کو بتایا کہ اس کی دوست مریم کی امی نے اُس کا داخلہ کوکنگ کلاسز میں کروا دیا ہے مگر اسے کوکنگ کا کوئی شوق نہیں ہے۔
مما نے کہا ’’بیٹا لڑکیوں کو ساری توجہ کھانا پکانے اور گھر کی ذمے داریوں پر ہی دینی چاہیے، لڑکیوں کو آگے گھر ہی تو سنبھالنا ہوتا ہے۔‘‘
’’جی مما گھر سنبھالنا تو خواتین کی زندگی کا لازمی جزو ہے، مگر اس کے علاوہ معاشرے کے دوسرے بھی تقاضے ہیں، ان کے لیے بھی ہمیں سرگرم ہونا پڑے گا۔‘‘
مما نے ترچھی نگاہ سے اریبہ کو دیکھتے ہوئے کہا ’’گھر سنبھالنے سے زیادہ اور کیا اہم ہوسکتا ہے؟‘‘
اریبہ نے کہا ’’مما! کچھ دن پہلے آپ غازی علم دین شہید اور غازی عبدالقیوم کا ذکر کررہی تھیں‘‘۔ مما نے کہا ’’ہاں بیٹا مجھے یاد ہے‘‘۔ اتنا کہتے ہوئے وہ جذباتی ہوگئیں اور گویا ہوئیں ’’جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ختم نبوت یا توہینِ رسالت کی بات آتی ہے تمام مسلمان چاہے کسی مکتب، فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ایک نقطہ پر جمع ہوجاتے ہیں اور ان کے محبت بھرے جذبات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ اریبہ نے انہیں بتایا کہ ’’ہم یونیورسٹی کے لڑکے اور لڑکیاں پہلے سے زیادہ ایکٹیو ہوگئے ہیں، اگر کچھ طلبہ بہک جانے والے ہیں تو ایک بڑی تعداد سمجھ اور شعور رکھنے والے طالب علموں کی بھی ہے، جو دینی اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہماری پہلی ذمے داری تحفظِ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت ہے، ہمیں لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک قادیانی پروڈکٹ کی نشاندہی کی جارہی ہے کہ یہ نہ استعمال کی جائیں۔ اور یہ کہ انہوں نے تبدیل کرکے قرآن شائع کروائے ہیں، یہودی اور عیسائی بھی ان کے ساتھ ہیں، وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں‘‘۔ اریبہ کی مما اسے حیرت سے دیکھ رہی تھیں، مگر اس کے لب و لہجے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جذبہ مہک رہا تھا۔
کچھ توقف کے بعد وہ پھر بولی ’’ہم نوجوان دینِ اسلام کے وکیل ہیں، ہر مسلمان چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، چاہے وہ استاد ہو، عالم ہو، طالب علم ہو، تاجر ہو یا ریڑھی والا… اسے چاہیے کہ اپنی حیثیت کے مطابق تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے کچھ کام کرے۔ ‘‘
وہ پھر گویا ہوئی ’’ہمارے علما تقاریر کے ذریعے ہمارے قلب میں تابناکی اور نئی امنگ پیدا کررہے ہیں۔ وہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرکے ہمارے اندر گرم جوشی پیدا کررہے ہیں۔ ہم نوجوانوں کا کام ہے کہ بھرپور اسلامی جذبے، بھرپور اجتماعی طاقت اور اپنے فہم و شعور کو استعمال میں لاتے ہوئے قادیانیوں کوسر اٹھانے سے روکیں۔‘‘ اس کی مما نے درمیان میں کچھ بولنا چاہا، مگر اس وقت اریبہ کی گرم جوشی بتا رہی تھی کہ اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کا چھوٹا بھائی عبدالرافع اس کی جوش سے بھری آواز سن کر اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا، جسے دیکھتے ہوئے وہ بولی ’’سب سے زیادہ بچوں پر توجہ دینی چاہیے، میرے ذمے شعبۂ اطفال ہے، میں نے اور سب دوستوں نے مل کر سوشل میڈیا گروپ تشکیل دیا ہے، میری دوست کی ذمے داری فیس بک پر بڑے گروپ اور پیج بنانا ہے جس میں قادیانیت کے مختلف پہلو اجاگر کرنا ہے، قادیانیت سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ہے، اور قادیانیوں کے بارے میں معلومات دینا ہے۔ دوسری دوست الگ گروپ بنائے گی، اُس کی ذمے داری ختمِ نبوت اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر معلومات فراہم کرنا ہوگی۔ اس طرح دوسرے سوشل میڈیا ایپس کی ذمے داریاں مختلف طلبہ و طالبات نے لے لی ہیں۔‘‘
ابھی اریبہ کی مما اس کی یہ باتیں سن کر حیران ہی ہورہی تھیں کہ ان کا بڑا بیٹا معاذ بھی آگیا۔ اس کی باتوں نے انہیں اور بھی حیران کردیا جب اس نے بتایا کہ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ختم ِنبوت پر شہر بھر میں دس مقامات پر چھوٹے بڑے پروگرام ترتیب دیے ہیں جن میں بچے خاص طور پر مدعو ہیں۔ جب بڑی عمر کے بچے اور بڑے لوگ ایک ساتھ پروگرام کا حصہ بنیں گے تو بچوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
مسعود صاحب بھی آفس سے واپس آ چکے تھے اور بچوں کی گفتگو کسی حد تک ان کے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔ ان کے چہرے پر ملے جلے تاثرات تھے جس میں حیرانی،خوشی اور اطمینان موجود تھا۔ ان کے ہاتھ میں ایک گفٹ بیگ تھا جو انہوں نے بچوں کی طرف بڑھایا۔ اریبہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا اور گفٹ بیگ سے کتاب نکالتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کتاب تو ’’محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہے۔ پاپا یہ کتاب ایک سال پہلے چھوٹی پھوپھی نے ہمیں دی تھی، میں اور بھائی یہ کتاب پڑھ چکے ہیں‘‘۔ ان کی مما نے اس کے ہاتھ سے کتاب لیتے ہوئے کہا ’’یہ تو میں بھی پڑھ چکی ہوں، اب یہ کتاب میں اپنی پڑوسن کو دے دوں گی تاکہ وہ اور اُس کے بچے اس سے استفادہ کر سکیں۔‘‘

حصہ