الحمدللہ

’’بابا کے ڈیرے پر تو کیا لینے آئی ہے؟‘‘ ململ کے دوپٹے میں لپٹی ہوئی فاخرہ سے بوڑھے نے سوال کیا۔
’’بابا جی! میں بہت پریشان ہوں‘ مجھے لگتا ہے تیرے گھر پر کسی نے جادو کر دیا ہے‘ میرا شوہر بیمار ہے‘ بچے نافرمان ہیں‘ روزی رزق نہیں ہے اور میں خود بھی کتنے ہی امراض میں مبتلا ہوں۔‘‘ اس نے چہرے پر انتہائی مسکینت طاری کی۔ آنکھوں میں آنسو نکالنے کی بھی کوشش کی۔
بابا نے ایک نظر اس پر ڈالی اور ہزار دانے کی تسبیح گھماتے ہوئے بولے ’‘کچھ نہیں ہے‘ نہ جادو نہ ٹونا۔‘‘
’’پھر کیا ہے بابا جی! میرے گھر سے تو جیسے برکت ہی اٹھ گئی ہے۔ نہ کھانے میں ذائقہ رہا نہ کوئی سواد‘ میرے سسرال میں سب خوش حال ہیں مگر سب کو اپنی اپنی پڑی ہے‘ کسی کو میرے بیمار شوہر کی پروا نہیں‘ کوئی آکر نہیں پوچھتا۔‘‘ وہ دوپٹہ منہ پر ڈال کر رونے لگی۔
’’جا مائی جا میرا وقت ضائع نہ کر… کہہ دیا کچھ نہیں ہے نہ تجھ پر نہ تیرے شوہر پر۔‘‘ بابا جی نے ہاتھ سے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
’’بابا جی! رحم کریں‘ میں تو بڑی آس لے کر آئی تھی آپ کے پاس۔‘‘ وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔ ’’کوئی دعا‘ کوئی تعویز دے دیں بابا۔‘‘
’’مائی! اللہ سے توبہ کر‘ اس کا شکر ادا کر‘ اللہ کی شکر گزاری کرے گی تو ساری پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔‘‘ انہوں نے نرمی سے کہا۔ روزانہ ایک تسبیح ہر نماز کے بعد الحمدللہ پڑھ… بس اب جا میرا وقت ضائع نہ کر۔‘‘
’’بابا جی! آپ کا بہت شکریہ۔‘‘
فاخرہ تیزی سے ڈیرے سے نکل آئی۔ الحمدللہ کی تسبیح پڑھتے پڑھتے اس نے کروٹ بدلی تو دل کی بے چینی میں کچھ کمی ہوئی۔ کئی برسوں سے وہ پریشان تھی۔ مالی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہو رہا تھا۔ بچوں کے مزاج میں بدمزاجی‘ نافرمانی اور تعلیم سے بے رغبتی بڑھتی جارہی تھی۔ یوں تو وہ اور رحمت اللہ نمازی تھے پنچ وقتہ نہ سہی لیکن جب موقع ملتا اللہ کے آگے سر جھکا دیتے۔ مگر شاید نماز کو فرض سمجھ کر نہیں قرض سمجھ کر ادا کرتے تھے۔
نماز میں پابندی اس کے بس میں نہیں رہی تھی۔ اس نے اپنے دل میں بے شمار خواہشات بسا رکھی تھیں۔ ان سب کا علاج ضروری تھا۔ بابا جی! کے بارے میں اس کی پڑوسن نے بتایا تھا۔ وہ عجیب و غریب بابا ہیں‘ نہ کسی سے کوئی پیسہ لیتے نہ خدمت‘ صرف زبانی مشورے اور دعائیں دیتے۔
فاخرہ جب پہلی مرتبہ صائمہ کے ساتھ بابا کے ڈیرے پر گئی تو اسے بڑی حیرت ہوئی‘ اس ڈیرے پر نہ تو بڑے بڑے اشتہار آویزاں تھے نہ ان کے نام کی تختی کہیں تھی۔ ایک بڑے ہال میں چاندنی بچھی ہوئی تھی‘ حال کے وسط میں ایک کرسی تھی جس پر ستر سالہ بوڑھا سفید براق کپڑوں میں ہزار دانے کی تسبیح پڑھ رہا تھا۔ وہ پہلی دفعہ تو بابا سے قطعی متاثر نہ ہوئی لیکن جب الحمدللہ کے علاج سے کچھ افاقہ محسوس ہوا تو اگلے ہفتے اپنے بیمار شوہر کو لے کر پہنچ گئی۔
بابا جی اپنی کرسی پر بیٹھے تھے۔ چاندنی کے فرش پر لاتعداد لوگ تھے‘ وہ بھی جا کر ایک طرف بیٹھ گئی۔ بابا شاید کافی دیر سے کسی موضوع پر لوگوں کو سمجھا رہے تھے۔ ’’شکر گزاری ایک بہت بڑی صفت ہے جو اللہ کے نیک اور متقی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ہم ناچیز بندے اس قابل نہیں کہ اس معبودِ حقیقی کی نعمتوں کا شکر کرسکیں۔ اس کی نعمتیں اتنی زیادہ اور اس کی عنایات انسانوں پر اتنی بے شمار ہیں کہ ہر لمحہ زبان سے کلمۂ تشکر ادا کریں تو بھی کم ہے۔ اس نے ہمیں انسان بنایا یہ اس کا شکر ادا کرنے کی سب سے پہلی وجہ ہے۔ وہ جانور بھی تو بنا سکتا تھا۔ پھر انسان بھی ایسا کہ نک سک سے درست‘ ناک‘ کان‘ آنکھ‘ ہاتھ‘ پائوں سلامت… یہ اس کی شکر گزاری کی دوسری وجہ ہے۔ پھر مسلمان بنایا۔ کلمہ گو بنا کر اس رسولؐ کو ہمارا شفیع بنایا جس کی شفاعت صرف مسلمانوں کے لیے ہوگی۔ یہ شکر گزاری کا تیسرا سبب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی اعضاء کو اپنی عبادت کے لیے بنایا۔ انسان اسے اس کے برعکس اصل مقصد کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ میرے بھائیو! اور بہنو! آپ میں سے کتنے ہیں جو ان اسباب پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ خالق حقیقی ہر لمحہ آپ کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے‘ آپ صرف اپنی روز مرہ بغیر کسی ٹیکس کے مل جانے والی چیز ہوا اور پانی کا خیال کریں‘ اللہ کی دی ہوئی ہوا اور پانی کا پریشر کم یا زیادہ ہو جائے تو سیلاب اور زلزلہ آجاتا ہے۔ ہ شکر کرنے کی چوتھی وجہ ہے۔ اعمال باطنہ درحقیقت انسان کے اعمال ظاہرہ کی بنیاد ہیں۔ ہر مسلمان مرد عورت کے لیے اخلاق باطن کی اصلاح ضروری ہے۔ ہم احسان فراموش ہیں‘ احسان کرنے والے محسنوں کو بھول جاتے ہیں‘ احسان کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں لیکن جب کسی پر احسان کرنے کا وقت آتا ہے تو پھر تھوڑا سا احسان کرکے اس شخص کو زندگی بھر کے لیے اپنا غلام سمجھ لیتے ہیں۔ بات بہ بات موقع بہ موقع اسے اپنااحسان جتا کر محفل میں سب کے سامنے اسے ذلیل کر دیتے ہیں۔ ہم بہت بخیل ہیں‘ اللہ کی نعمتوں کو بانٹنے میں تھڑدلے ہیں۔ دروازے پر کوئی سائل آتا ہے تو اسے بے رحمی سے دھتکار دیتے ہیں یا پھر بے کار اور کم تر چیز دے کر اسے چلتا کر دیتے ہیں مگر جب اللہ سے مانگتے ہیں تو منہ بھر کر اور جھولی بھر کر طلب کر تے ہیں۔ محبت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے‘ اس میں خیر ہی خیر ہے۔ دل انسانی جسم کا سب سے پاکیزہ‘ سب سے اہم حصہ ہے اور اس میں قیام کا حق صرف اللہ کو ہے۔ ہم اللہ کے علاوہ ہر ایک خواہش کو دل میں قیام کی اجازت دے دیتے ہیں۔ وہ پھر بھی ہم سب سے محبت کرتا ہے‘ ہماری ہر ضرورت کو پوری کرتا ہے‘ ہم ہر قسم کی محبت بانٹنے میں خصیص اور کنجوس ہیں‘ عالم اپنا علم بانٹنے میں ڈنڈی مارتے ہیں‘ طلباء کو پورا علم نہیں دیتے۔ ہم ظالم اور حاسد ہیں دوسروں کو خوش حال دیکھ کر حسد کرتے ہیں۔ بچوں کو فرماں بردار بنانے کے لیے تعویز گنڈوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ ہم خود اپنے اللہ کے فرماں بردار نہیں تو ہمارے بچے ہمارے فرماں بردار کیسے ہو سکتے ہیں جب بچہ آپ کی نافرمانی کرے تو ہم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم سے اللہ کی بڑی نافرمانی ہوئی ہے۔ بچوں کے سامنے جیسا عمل کیا جائے وہ وہی سیکھتے ہیں‘ آپ کا ہر ہر عمل کا آئینہ آپ کی اولاد ہے‘ آپ دوسروں سے حسد کریں گے‘ بچوں کے سامنے دوسروں برائیاں کریں گے بچے وہی عمل آپ کے ساتھ روا رکھیں گے۔ بچوں کا دماغ ایک خالی سلیٹ جیسا ہوتا ہے اس پر جو ایک دفعہ لکھ دیا جائے وہ اس سلیٹ پر ثبت ہو جاتا ہے پھر کوئی دلیل‘ کوئی معذرت اس کو مٹا نہیں سکتی۔
بابا نے گفتگو کا سلسلہ ختم کیا۔ مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز آرہی تھی‘ اذان ختم ہوتے ہی بابا نے دعا مانگی اور کرسی سے کھڑے ہو گئے۔ یہ ان کی محفل کے ختم ہونے کا اشارہ تھا۔ مجمع چھٹ گیا۔ مردوں نے مسجد کا رُخ کیا۔ فاخرہ بھی اپنے شوہر کا ہاتھ تھامے ڈیرے سے باہر نکل آئی۔
وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ تھا کیوں کہ ان میں وہ تمام برائیاں موجود تھیں جن کا ذکر بابا نے اپنی تقریر میں کیا تھا۔ وہ حاسد بھی تھے‘ ناشکرے بھی‘ بدخواہ بھی تھے اور بدگو بھی۔ بچوں کے سامنے اپنی قریبی عزیزوں کی برائیاں کرتے انہیں کبھی خیال نہ آیا کہ بچے معصوم ہوتے ہیں‘ ان ناپختہ ذہنوں میں برائی کا بیج بونا خود ان کے لیے کتنا نقصان دہ ہے‘ وہ یہ بھول گئی تھی کہ الحمدللہ کہنا اور زندگی کے ہر لمحے اللہ کا شکر ادا کرنا کتنا ضروری ہے۔
فاخرہ تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف جا رہی تھی‘ اپنی کوتاہیاں‘ برائیاں اسے بے کل کر رہی تھیں ’’وہ حاسد ہے‘‘ وہ آج اقرار کر رہی تھی۔ وہ کبھی کسی کی خوشی میں خوش نہیں ہوئی‘ محبت کو بانٹنے کا عمل اس کے لیے بہت مشکل تھا کیوں کہ وہ تو زبان کے خنجر سے دوسروں کے دلوں کو زخمی کرتی آئی تھی۔ وہ اپنے رب کی شکر گزار نہیں تھی اس لیے بندوں کا بھی شکر ادا کرنا نہیں جانتی تھی۔ جو مالک اتنی نعمتیں بن مانگے عطا کرتا ہے اس کا شکر نہیں کرتی۔ مغرب کی نماز پڑھ کر اس نے باورچی خانے کا رُخ کیا‘ سنک میں برتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اسے آج نہ جانے کیوں اپنی ماں بار بار یاد آرہی تھی جو ہمیشہ اسے دعا دیتی تھی ’’اللہ تمہیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے۔‘‘ اسے بچپن میں یہ دعا سمجھ میں نہیںآتی تھی مگر اپنی ماں کو وہ ہمیشہ آسانیاں بانٹتے ہی دیکھتی آئی تھی۔ اس کے گھر ہمیشہ مہمانوں کی آمدورفت رہتی تھی۔ سنک میں برتن بھرے ہوتے اور اس کی ماں رات سونے سے پہلے سارے برتن دھو کر رکھتی‘ ابو کے منع کرنے پر کہتی ’’ماسی بچوں والی عورت ہے‘ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ماں کی واپسی کا انتظار کرتے رہتے ہیں اگر میرے تھوڑے برتن دھونے سے اس کا کچھ وقت بچ جائے تو وہ اپنے بچوں کے پاس جلدی پہنچ جائے گی۔‘‘ ابو کہتے ’’پیسے ماسی برتن دھونے کے لیتی ہے نا؟ اگر تمہیں ہی دھونا ہے تو اس کو ہٹا دو۔‘‘
ماں سنی کی ان سنی کرکے میلے کپڑے واشنگ پاوڈر میں بھگو دیتی تاکہ ماسی کو صبح کپڑے دھونے میں زیادہ وقت نہ لگے۔ اگر کپڑے تعداد میں زیادہ ہوتے تو دو‘ تین قسطوں میں دھلوا لیتی۔ وہ اپنے برتن دھوتے ہوئے سوچ رہی تھی میرے ذہن میں آسانیاں بانٹنے کا مفہوم کیوں نہیں آیا؟ میں نے ہمیشہ اپنے منفی رویے سے سب کو اپنا دشمن ہی سمجھا۔ ہمیشہ سب سے خائف ہی رہی۔ برتن دھو کر اس نے ٹوکری میں رکھے۔ بچے ٹی وی دیکھ رہی تھے۔ وہ بار بار اپنا احتساب کرتے ہوئے سوچ رہی تھی بیمار تو میں ہوں‘ علاج کی ضرورت تو مجھے ہے‘ میرے جسمانی اعضا میرے خیالات کے تابع ہیں جن کو میں منفی استعمال کرتی ہوں۔ عاجزی‘ انکساری‘ فرِماں برداری‘ تابعداری فروتنی تو اس کی سرشت میں ہی نہیں۔ خوب صورت تھی تو بے حد مغرور بھی تھی‘ چھوٹی تھی تو ہمیشہ زمین پر پیر مار کر چلتی تھی۔ اس کی ماں پیار سے کہتی ’’بیٹا زمین پر آہستہ اور نرم خرامی سے چلو یہ زمین ہماری دوست ہے‘ ہمیں اناج دیتی ہے‘ پھل دیتی ہے‘ اپنے سینے پر چلنے کی اجازت دیتی ہے‘ اسی میں ہمیں دفن ہونا ہے‘ اس پر غرور سے چلنا کسی طرح مناسب نہیں۔ مغرور لوگوں کو زمین قبر کے لیے جگہ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اگر اس زمین میں مغرور کو دبا دیا جائے تو وہ بھینچ کر اس کی ہڈی پسلیاں توڑ دیتی ہے۔‘
وہ ان باتوں پر کبھی کان نہ دھرتی ’’بھلا مٹی میں کہاں اتنی طاقت کہ وہ انسان کا مقابلہ کرے۔‘‘ وہ سوچ رہی تھی اس کی ماں بھی عجیب دوریشانہ صفت کی عورت تھی۔ زندگی کا فلسفہ نئے نئے انداز سے اس کو سمجھاتی۔ ’’بیٹا! اللہ تعالیٰ انسان کو نعمتیں اس لیے دیتا ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور اللہ کے شکر کا طریقہ یہ ہے کہ اس نعمت کو زیادہ سے زیادہ دوسروں میں تقسیم کیا جائے‘ بے حساب خرچ کرنے والوں کو اللہ بے حساب دیتا ہے‘ نعمتوں کے شکر پر اللہ نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔‘‘ ماں کی یہ ساری باتیں بابا کی ہی نصیحتیں تھیں۔ وہ شاید زندگی کے پرسکون رہنے والے اصولوں سے اچھی طرح واقف تھی۔
وہ پوری رات دیانت داری سے اپنا احتساب کرتی رہی۔ اپنی ہر ہرکمزوری اور خامی کو چھانتی رہی‘ استغفار اور اپنے گناہوں سے توبہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ اپنے بچوں اور شوہر پر پوری توجہ سے دھیان دینا‘ ان کی خدمت کرنا اور ان کے وجود کے احساس سے شکر گزاری کی عجیب کیفیت سے وہ دوچار ہونے لگی۔صبر کرنا اس کی ماں کی عادت تھی‘ بڑی سے بڑی بیماری کو وہ اللہ کا انعام سمجھ کر قبول کرتی‘ وہ اپنی ماں کی خوبیوں کو سراہنے کی کوشش کرنے لگی۔ بابا کے ڈیرے پر جانے سے اس کے مزاج میں مثبت تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ اس نے اب دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے کے بجائے اپنی کمزوریاں اور برائیاں ڈھونڈنا شروع کردیں۔ اس کا شوہر پڑھا لکھا مگر خود پسند اکھڑ انسان تھا۔ فاخرہ کے بے حد اصرار پر بابا کے ڈیرے جانے لگا۔ بے روزگاری نے اسے بے اعتبار کر دیا تھا اب اسے کسی کا اعتبار نہ آتا تھا مگر بابا جی نے اسے نہ تو دھتکارا نہ کوئی ایسی نصیحت کی جو اسے ناگوار لگتی۔ وہ تو باتوں ہی باتوں میں احادیث اور قرآنی آیات کے حوالے اللہ کے خالق رازق اور غفور الرحیم ہونے کا یقین دلوں میں پید اکرتے تھے۔ ان کے مجمع میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو زمانے کا دھتکارا ہوا نہ ہو مگر وہ ہر ایک کو عزت دیتے۔ رحمت اللہ پر تو ان کی خاص نظر تھی۔ پہلی مرتبہ جب وہ فاخرہ کے ساتھ گیا تو انہوں نے مسکرا کر اسے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ رحمت اللہ کے ساتھی بھی سب اسی جیسے بے روزگار‘ سست‘ کام چور اور وقت کو تاش اور جوئے میں ضائع کرنے والے تھے۔ بابا جی نے انسان کا مقصدِ حیات‘ وقت کی اہمیت اور بندے کا خدا سے تعلق اور محبت پر باتیں کیں تو رحمت اللہ کو اپنا آپ بہت ہی چھوٹا نظر آنے لگا۔ وقت کی قدر و قیمت کا احساس سورۃ العصر کی تفسیر سے سمجھایا تو اسے زندگی کا ہر لمحہ قیمتی لگا‘ توکل و قناعت پر بات ہوئی تو اسے لگا جیسے اس نے تو کبھی پیدا کرنے والے پر بھروسہ ہی نہیں کیا وہ تو ہمیشہ دنیا کے پیچھے ہی بھاگتا رہا اور دنیا والے اسے دھتکارتے رہے وہ اپنا وقت فانی دنیا کے پیچھے ضائع کرتا رہا۔ مالک کی خوشنودی کے لیے تو اس نے کچھ بھی نہیں کیا اور جب اس نے فانی دنیا سے قطع تعلق کیا تو روحانی تعلق اللہ سے بڑھ گیا۔ اس کی نمازوں میں خضوع و خشوع پیداہوا تو رات کے پچھلی پہر سجدوں میں لطف آنے لگا اور جب الحمدللہ کا مفہوم سمجھ میں آیا تو اس کے سارے مسائل حل ہو گئے۔