حکومت کے لاڈلے قاتل، جنسی درندے، دہشت گرد

441

آج سے بارہ برس قبل پاکستان کے انسانی حقوق، اور حقوقِ نسواں کے نام نہاد علَم بردار ٹولے اور سیکولر، لبرل سول سوسائٹی کی کوششیں رنگ لائیں اور 2008ء میں برسرِ اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی نے سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا۔ روکنے کا یہ عمل کمال درجے کا فریب تھا۔ یعنی ایک قاتل، ڈاکو، جنسی درندہ یا دہشت گرد سیشن کورٹ سے پھانسی کی سزا پاتا ہے، ہائی کورٹ اس کی سزا کو بحال رکھتی ہے، سپریم کورٹ میں بھی اس کی اپیل مسترد کردی جاتی ہے، پورا ملک اطمینان کرلیتا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے بھی ایسے مجرم کو سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے، اب یہ ظالم کسی نہ کسی دن پھانسی کے تختے پر جھول جائے گا۔ لیکن عوام کو فریب دینے کے لیے یہ طریقہ نکالا گیا کہ پھانسی کی سزا پانے والے مجرم سے ’’صدرِ پاکستان‘‘ کے نام رحم کی ایک اپیل کروائی جاتی، اور پھر اس اپیل کو التوا میں ڈال دیا جاتا، اور سیشن کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک تمام ججوں کے فیصلوں کو کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا۔ یوں خاموش اور غیر قانونی طریقے کی وجہ سے 2009ء، 2010ء اور 2011ء میں ایک بھی سزا یافتہ مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔
معلوم نہیں وہ کون ’’واحد‘‘ بدنصیب تھا جس کو پیپلز پارٹی کی مجرموں اور قاتلوں سے محبت رکھنے والی حکومت کے دور میں بھی 2012ء میں پھانسی دی گئی۔ اگلے سال 2013ء میں نوازشریف کی حکومت آگئی۔ پاکستان مسلم لیگ ’’نون‘‘ نئی نئی مشرف بہ ’’سیکولرازم و لبرل ازم‘‘ ہوئی تھی اور انسانی حقوق و حقوقِ نسواں کی ’’سول سوسائٹی‘‘ ان کے دلوں میں سمائی تھی، اس لیے نوازشریف حکومت نے بھی ان قاتلوں، جنسی درندوں اور دہشت گردوں سے ویسی ہی محبت کا برتائو کیا جیسی محبت ان کے پیش رو آصف زرداری نے دکھائی تھی، اور 2013ء کے سال بھی کسی کو تختۂ دار پر نہ چڑھایا گیا۔
اس ملک میں 2014ء کا پورا سال بھی کسی مجرم کو پھانسی دیئے بغیر ہی گزرگیا۔ ان سات برسوں میں پھانسی کی سزا ایک مذاق بن کر رہ گئی۔ وہ شخص جسے کوئی ایسا جرم کرنا ہوتا، اُسے اس بات کا پختہ یقین ہوتا کہ اگر اسے سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا سنائی بھی گئی تو اللہ ہماری ’’سیاسی قیادت‘‘ کو زندہ سلامت رکھے، سزا کے باوجود مجھے کوئی شخص پھانسی نہیں چڑھائے گا۔ ان سات برسوں میں پاکستان کی جیلوں میں 8261 ایسے مجرم ’’خصوصی مہمان‘‘ کے طور پر جمع ہوگئے جنہیں سپریم کورٹ تک نے پھانسی کی سزا سنائی تھی، مگر حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتی تھی۔
بے خوفی اور مجرموں کی دیدہ دلیری کا عالم 2014ء کے دسمبر تک اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ پھانسی کے منتظر ان 8261 مجرموں میں پانچ سو کے قریب بم دھماکوں، جنسی درندگی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے مجرم بھی شامل تھے۔ سال ختم ہونے کے قریب تھا کہ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں ’’آرمی پبلک‘‘ اسکول کا اندوہناک سانحہ پیش آگیا، جس میں دہشت گردوں نے 148 معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کردیا۔ پورا ملک سناٹے میں آگیا۔ ہر کوئی خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگا۔ اس واقعے کے بعد 17 دسمبر 2014ء کو وزارتِ داخلہ نے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہ کرنے والی پابندی اٹھالی۔ نواز دور میں یہ پابندی پیپلز پارٹی کی طرح ایک منافقانہ اور پُرفریب طرزعمل نہیں تھا، بلکہ نوازشریف نے اپنے برسراقتدار آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے، وزارتِ داخلہ کے ایک حکم نامے کے ذریعے باقاعدہ پھانسی نہ دینے کو سرکاری حیثیت دے دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب 17دسمبر کو پابندی اٹھائی گئی تو جو نوٹیفکیشن جاری کیاگیا اس کا عنوان تھا ’’پھانسی کی سزا کی معطلی‘‘ (Moratorium On Death Penalty) اور نوٹیفکیشن کا آغاز ایسے تھا:
“In Super-Session Of Ministry Of Interior Of Even Number Dated 18-08-2013
وزارتِ داخلہ کے 18 اگست 2013ء کو جاری کیے گئے حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے کس قدر منافقت اور دھوکہ دہی ہے کہ آئین پاکستان میں پھانسی کی سزا موجود ہے، پاکستان کے مروجہ قوانین میں بھی یہ سزا موجود ہے، عدالتیں روز مجرموں کو پھانسی کی سزا سناتی ہیں، لیکن ایک وزیراعظم آئین اور سپریم کورٹ دونوں کے خلاف یہ فیصلہ کرتا ہے کہ عدالتوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی قربانی نے ہمارے حکمرانوں کے دلوں کو تھوڑی دیر کے لیے جھنجھوڑا تو دسمبر 2014ء کے آخری ہفتے میں سات مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔
اس سانحے کے بعد بھی پورے ملک کے نظام عدل کو درست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ ایک متوازی عدالتی نظام قائم کیا گیا جو فوجی عدالتوں پر مشتمل تھا۔ ان عدالتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ ملک کے طول و عرض میں کیسے اور کس طرح قتل ہورہے ہیں، کتنے بچے اغوا کرکے جنسی تشدد کے بعد مارے جارہے ہیں۔ انہیں تو صرف اُن مقدمات سے مطلب تھا، جن کا تعلق فوج یا سیکورٹی اداروں پر حملوں سے تھا۔
انہی مقدموں کے لیے 17 دسمبر کو نوازشریف حکومت نے صرف دہشت گردی کے مقدمات پر سزائے موت پر عمل درآمد بحال کیا، باقی مجرموں کو ویسے ہی اپنا ’’مہمان‘‘ بنائے رکھا۔ 3 مارچ 2015ء کو نوازشریف نے عوامی مطالبے سے مجبور ہوکر تمام مقدمات میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کی اجازت دے دی، کیوں کہ لوگ سوال کرنے لگے تھے کہ ان کے رشتے داروں کے قاتلوں کو کیوں سزا نہیں دی جارہی؟
پھانسی کی اجازت کے اس حکم نامے میں بھی عوام کے ساتھ ایک فراڈ کیا گیا اور یہ چند لائنیں ’’احتیاطاً‘‘ لکھی گئیں کہ ’’جب تک آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت رحم کی اپیل مسترد نہ ہوجائے، سزائے موت نہ دی جائے۔‘‘ یعنی زرداری والا مکارانہ طریقۂ کار زندہ کردیا۔ یعنی ممتاز قادری کو پھانسی دینا ہو تو اپیل مسترد کرائو، اور باقیوں کے مزے ہی مزے۔ جیلوں میں قید لاتعداد دہشت گرد فوجی عدالتوں سے پھانسی کی سزا پانے لگے، جس کے نتیجے میں 2015ء میں 325، 2016ء میں 88، اور 2017ء میں 48مجرموں کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔
زرداری اور نواز دور میں پھانسی کے سزا یافتہ مجرموں کی سزا پر عمل درآمد نہ ہونے کا براہِ راست اثر عدالتی نظام پر پڑا۔ سپریم کورٹ نے 2010ء سے 2018ء تک 310 ایسے مجرموں کے مقدمات پر فیصلہ کیا جنہیں ماتحت عدالتوں نے موت کی سزا سنائی تھی۔ ان میں سے سپریم کورٹ نے 78 فیصد یعنی 241 مجرموں کی سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کردیا یا عمرقید میں تبدیل کر دیا۔ ان میں سے 39 فیصد یعنی 110تو ایسے تھے جو سپریم کورٹ سے باعزت طور پر بری کردیے گئے۔
سپریم کورٹ کے ان دھڑادھڑ فیصلوں کے بعد دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شور مچانا شروع کردیا کہ دیکھو پاکستان میں ہر پانچ سزا یافتہ پھانسی کے مجرموں میں سے دراصل دو بے گناہ ہوتے ہیں، جنہیں ماتحت عدالتیں زبردستی پھانسی کی سزا دیتی ہیں۔ فوجی عدالتوں کے فیصلے ختم ہوئے اور ساتھ ہی ان برسوں میں سپریم کورٹ کی جانب سے نرمی کا یہ نتیجہ نکلا کہ پھانسی کی سزا پانے والوں میں روز بہ روز کمی آنے لگی۔
عمران خان کی ریاستِ مدینہ میں بھی پھانسی کی سزا پانے والے مجرموں کی مہمان نوازی اور ناز برداری اسی طرح جاری ہے۔ خان صاحب کو ورثے میں ایسے مجرم ملے تھے جن کی اپیلیں صدرِ محترم کے پاس زیر التوا تھیں اور ان دو برسوں میں ان میں اندازاً ایک ہزار کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس سب کے باوجود انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، پاکستان کی سول سوسائٹی اور انسانی و نسوانی حقوق کی علَم بردار تنظیمیں اور ان کا ہمنوا عالمی اور پاکستانی میڈیا آج بھی پاکستان کو ایک سفاک اور بے رحم ملک کہتے ہیں۔ ایسا ملک جہاں قاتلوں، جنسی درندوں اور دہشت گردوں کو پھانسی تک دے دی جاتی ہے۔ لیکن جب موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی جیسے واقعات ہوتے ہیں، تو یہ سب منافق لوگ مگرمچھ کے آنسو بہانے ٹیلی ویژن پرآجاتے ہیں۔ جس ملک میں پھانسی کی سزا کا انتظار کرنے والے مجرموں کو ’’مہمانِ خصوصی‘‘ بنا کر رکھا جائے اور انہیں یقین ہوجائے کہ کوئی انہیں ’’موت کے گھاٹ‘‘ نہیں لے جاسکتا، ایسے ملک میں جرائم کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔

حصہ