عزت

302

۔’’ وہ نہایت شریف اور ایک عزت دار لڑکی ہے۔‘‘ رمیز یہ کہہ کر جا چکا تھا‘ مگر اس کے جملے کی بازگشت اسے دور تک سنائی دے رہی تھی۔
’’وہ عزت دار ہے تو پھر…میں…؟‘‘
…٭…
’’فری بیٹا اُٹھ جاو‘ آج یونیورسٹی نہیں جانا کیا!‘‘
’’اوہو…سونے دیں مما‘ بہت نیند آرہی ہے۔‘‘فریحہ نے تکیے سے سر بھینچتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ہاں سونے دو میڈم کو…ساری رات رت جگا جو کیا ہوگا…‘‘ ماں نے پیار سے جھڑکا۔
’’باجی رمیز صاحب آئے ہیں۔‘‘ ملازمہ نے آکر اطلاع دی۔
’’کیا…؟‘‘ فریحہ ایک دم چونکی۔ ’’رمیز آبھی گیا…اوہو۔‘‘ اس نے تکیہ ایک طرف اچھالتے ہوئے بیڈ سے چھلانگ ماری‘ جلدی سے سلیپرز پیروں میں اٹکائے اور تیزی سے واش روم جاتے جاتے ایک دم پلٹی‘ جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔ ’’سکینہ!‘‘ وہ الماری تک آئی اور کپڑے ملازمہ کی طرف اچھالتے ہوئے بولی ’’یہ میری جینز اور شرٹ پریس کردو جلدی۔‘‘
ماں اچانک اس کی بدلتی کیفیت پرحیران نظروں سے اسے تک رہی تھیں کہ ابھی تو نیند میں مدہوش تھی اور اب… پھر بڑ بڑاتی ہوئی باہر چل دیں کہ ’’رمیز نہیں کوئی بھونچال آگیا ہو جیسے۔‘‘
’’السلام علیکم خالہ جان!‘‘
’’وعلیکم السلام… بیٹا! کیسے ہو‘آج موٹر بائیک پر؟ خیر تو ہے‘ گاڑی کو کیا ہوا؟‘‘
’’جی خالہ سب ٹھیک ہے، بس آپ کی لاڈلی کی فرمائش ہے اور…‘‘
’’اور کیا…بولو بولو…‘‘ ریلنگ پر ہاتھ پھسلاتی تیزی سے سیڑھیوں پر سینڈل سے ٹک ٹک کرتی وہ اس کے سامنے تھی۔ ’’ہوگئی شکایتیں… اب چلیں؟‘‘
’’ارے بچے کو چائے تو پینے دو۔‘‘
’’بس رہنے دیں مما!‘‘ اس نے رمیز کو دھکیلا… ’’ویسے ہی بہت دیر ہوگئی ہے… بائے۔‘‘
’’اللہ حافظ بیٹا۔‘‘وہ اسے رمیز کے ساتھ لڑکوں کی طرح بائیک پر بیٹھتے دیکھ رہی تھیں۔ یہ انداز انہیں پسند تو نہ تھا مگر زمانے کا انداز اب ایسا ہی ہوگیا تھا، سو وہ بھی بچوں کی خوشی میں خوش تھیں اور سب سے بڑھ کر رمیز اس کا منگیتر جو تھا۔
…٭…
فریحہ خوب صورت اور ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی، لاڈ پیار نے اسے خودپسند بنادیا تھا، رمیز کی نرم مزاجی کا بھی اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ خالہ زاد ہونے کے ناتے دونوں میں بہت بنتی تھی۔ فریحہ کی خودسری کے آگے رمیز کی ایک نہ چلتی… گویا فریحہ کا اس پر پورا تسلط تھا اور وہ بھی رمیز کے معاملے میں بہت جذباتی تھی۔
’’میڈم اب آرڈر کر بھی دو، پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔‘‘ شہنیلا نے میز بجاتے ہوئے کہا۔
’’صبر… رمیز کو تو آ لینے دو۔‘‘
’’ارے وہ دوستوں میں مست ہوگا، کھا پی لیا ہوگا اُس نے۔‘‘ شہنیلا بھوک سے بلبلاکر بولی۔
’’امپاسیبل…‘‘ فریحہ نے موبائل میز پر گھماتے ہوئے کہا۔ ’’وہ میرے بغیر سانس بھی نہیں لیتا۔‘‘ لہجے میں فخر نمایاں تھا۔
’’اوہو اتنا بھروسا… بی بی! مرد کی ذات اتنی با اعتبار نہیں ہوتی، اُن کے دل میں کچھ اور زبان پر کچھ ہوتا ہے۔‘‘ شہنیلا نے ڈرامائی انداز میں قریب آکر سرگوشی کی۔
’’اچھا! مجھ جیسی حسین، ایجوکیٹد اور ویل مینرڈ لڑکی اُسے کہاں ملے گی بھلا…!‘‘
’’ویل مینرڈ …؟‘‘ شہنیلا نے اسے اوپر سے نیچے تک گھورا، جو دونوں پیر کرسی پر رکھے اپنے بالوں سے کھیل رہی تھی۔
’’اچھا بکو مت، اور وہ دیکھو تمھاری شرم کی بوبو آرہی ہے۔‘‘ فریحہ نے شہنیلا کی پشت کی طرف تمسخر بھرے انداز میں اشارہ کیا، جہاں ثریا بڑے پُروقار انداز میں مکمل حجاب لیے ہاتھ میں رجسٹر تھامے چلی آرہی تھی۔
شہنیلا نے گھوم کر اسے دیکھا اور بولی ’’فری یار! تجھے اس بے چاری سے کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’مجھے اس ایک بے چاری سے نہیں، اس جیسی تمام بے چاریوں سے مسئلہ ہے جو اپنی محرومیوں کو اس دوگز کے ٹکڑے میں چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ دیکھا نہیں تھا اُس دن، مجھے رمیز کے ساتھ بائیک پر دیکھ کر کیسے آنکھیں پھٹی تھیں حسرت سے…ہونہہ۔‘‘فریحہ نے منہ بنایا۔
’’حسرت سے نہیں میڈم، استعجاب سے۔‘‘ شہنیلا نے تصحیح کی۔
’’آج کون زیرِ عتاب ہے بھئی…؟‘‘ رمیز نے کرسی گھما کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’وہی ثریا!‘‘ شہنیلا نے کندھے اچکائے۔
’’اوہ…! اچھا، مگر یہ بھی تو دیکھو وہ کتنی ریزرو ہے کلاس میں، کسی کی ہمت نہیں کہ اسے تنگ کرے، اور اس کی یہ عزت اسی وجہ سے ہے کہ وہ خود کو چھپا کر رکھتی ہے۔‘‘
رمیز کے ان ریمارکس سے فریحہ جو اپنی فیشن زدہ پھٹی جینز کے دھاگے توڑ رہی تھی، پوری جان سے جل گئی اور کھا جانے والی نظروں سے رمیز کو گھورا۔ ’’کیا مطلب ہے تمھارا؟ ہمارے گروپ کی لڑکیاں کیا بے شرم ہیں جو حجاب نہیں کرتیں، یا جو اپنے دوستوں اور کزنز کے ساتھ بائیک پر بیٹھتی ہیں؟‘‘
’’ارے میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ سدا کا صلح جُو رمیز گڑبڑا گیا۔ ’’میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ آئس کریم کھاؤگی؟‘‘ رمیز کی بوکھلاہٹ پر وہ زور سے ہنس دی۔
…٭…
’’لو یہ بی بی کوئی نیا شوشا لائی ہیں۔‘‘ اس نے ثریا کو کچھ کتابچے تقسیم کرتے دیکھ کر برا سا منہ بنایا۔
’’چپ ہوجاؤ، وہ اس طرف ہی آرہی ہے۔‘‘شہنیلا نے اسے دیکھ کر جبری مسکراہٹ ہونٹوں پر سجالی، مبادا وہ فریحہ کے جذبات بھانپ لے۔
’’السلام علیکم! جیسا کہ ہمیں معلوم ہے آج کے اس پُرفتن دور میں بے حیائی اپنے عروج پر ہے اور اس کا شکار سب سے زیادہ خود عورت بن رہی ہے۔ ہمارے مذہب میں اس کا حل صرف حیا اور حجاب ہے۔‘‘ اس نے ایک کتابچہ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اس سلسلے میں آن لائن ایک پروگرام ہے، آپ اپنی شرکت کنفرم کردیں گی؟‘‘ مسکراتی آنکھوں اور نرم لہجے کا سب لڑکیوں پر اثر نمایاں تھا۔
متاثر تو وہ بھی ہوئی تھی مگر پھر فطری خودپسندی عود کر آئی۔ ’’دیکھو تم…‘‘وہ کوئی سخت جملہ کہنے جارہی تھی کہ سامنے سے سر راحیل آتے نظر آئے جو ’’عزت‘‘ کرنے میں منٹ نہیں لگاتے تھے، اُس نے جلدی سے کتابچہ اپنے بیگ میں ڈال لیا۔
’’آج موسم کے تیور خطرناک ہیں، جلدی کرو۔ اس شہر کا تو تمھیں پتا ہے، منٹوں میں دریا بن جاتا ہے۔‘‘ جلدی کرتے بھی آسمان کو کالے بادلوں نے آلیا اور دھواں دھار بارش شروع ہوگئی۔ سب گھر پہنچنے کی جلدی میں بھاگ رہے تھے۔ رمیز بھی گاڑی روڈ پر لے آیا۔
’’ارے یہ کون ہے جو ابھی تک یہاں کھڑا ہے؟‘‘ وائپ ہوتی ونڈ اسکرین سے اس نے دیکھا۔ ’’ارے…! یہ تو ثریا ہے، ہماری کلاس فیلو۔‘‘
’’تو ہونے دو…‘‘ فریحہ نے رمیز کے تیور دیکھ کر اسے سرزنش کی۔
’’نہیں فری! ایسے موسم میں یہ کیسے گھر جائے گی!‘‘
’’آٹو میں جائے گی اور کیسے!‘‘
’’نہیں ہم اسے ڈراپ کریں گے۔‘‘ رمیز نے مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے گاڑی ثریا کے پاس روک دی اور زور سے بولا ’’جلدی آجائو…‘‘
ثریا جو دہشت سے سہمی ہوئی بھگ رہی تھی، فری کو دیکھ کر اس کی ڈھارس بندھی اور وہ فوراً بیٹھ گئی۔ تمام راستے فری رمیز کے رویّے پر حیران تھی کہ اُس نے کبھی اس لہجے میں اس سے بات نہ کی تھی۔
’’بس یہیں روک دیں۔‘‘ ثریا تشکربھری نظروں سے فری کو دیکھتی ہوئی تیز قدموں سے اپنے گھر میں داخل ہوگئی۔
گھر پہنچتے بارش بھی ہلکی ہوگئی تھی۔’’تمھیں کیا ہوا ہے؟‘‘رمیز نے فری کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر پوچھا۔
’’کیا ضرورت تھی اُسے گاڑی میں بٹھانے کی؟ شہزاد سے کہتے اس کی بائیک خالی تھی۔‘‘
’’فری پاگل تو نہیں ہوگئی ہو، وہ ایک شریف، عزت دار اور باپردہ لڑکی ہے، کیسے کسی لڑکے کے ساتھ بائیک پر چلی جاتی!‘‘
’’عزت دار…؟ کیا بائیک پر کسی کے ساتھ بیٹھنے سے عزت دار نہیں رہتے؟ اور میں جو دن رات تمھارے اور دوسرے دوستوں کے ساتھ گھومتی ہوں… کیا عزت دار نہیں ہوں؟ دوگز کے کپڑے نے اسے اتنا معتبر کردیا کہ تم نے میری بات رد کردی!‘‘ وہ صدمے سے دوچار تھی۔
’’فری جسے تم صرف کپڑا کہہ رہی ہو وہ اسلام میں عورت کے لیے عزت کا سمبل ہے، سمجھیں… مگر نہیں، تم کہاں سمجھو گی، تم سے تو بحث فضول ہے‘‘ کہتے ہوئے رمیز جا چکا تھا، مگر اسے اس کی اوقات بتاگیا تھا۔
اسے شہنیلا کے الفاظ بھی یاد آئے ’’مرد کی زبان پر کچھ اور دل میں کچھ ہوتا ہے۔‘‘ رمیز نے مجھے کبھی ایسی عزت کیوں نہیں دی؟ صدمے اور دکھ سے وہ گنگ تھی۔ دوگز کپڑے کے ٹکڑے نے ثریا کو اچانک کتنا معتبر کردیا تھا، وہ حیران تھی۔ ’’نہیں، مجھے بھی معتبر ہونا ہے۔‘‘ اس نے عزم سے کہا۔ آنسو بارش کے قطروں کے ساتھ مل کر ساری کدورت و غلاظت دھو چکے تھے۔ ’’مجھے بھی عزت دار بننا ہے…‘‘ اس نے اضطراری کیفیت میں بیگ میں کچھ تلاش کیا۔ ہاتھ باہر نکالا تو ثریا کا دیا ہوا کتابچہ سامنے تھا، وہ مسکرائی۔ جلی حروف میں لکھا تھا ’’حجاب میری عزت‘‘۔

حصہ