قلم کاروں کے مسائل حل کرنا ضروری ہے‘ حافظ نعیم الرحمن

433

ادیب و شاعر ہمارے معاشرے کا انتہائی حساس طبقہ ہے‘ کسی بھی معاشرے کی فلاح و بہبود یا تباہی میں یہ طبقہ بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ ان کے مسائل کا حل بہت ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے ادارۂ نور حق میں شعرائے کرام کے ساتھ منعقدہ اجلاس میں کیا جس میں عبدالوہاب‘ نوید علی بیگ‘ رونق حیات‘ اجمل سراج‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ نجیب ایوبی‘ شائق شہاب‘ چاند علی چاند‘ سعد الدین سعد‘ عبدالحکیم ناصف‘ تنویر سخن‘ عبدالمجید محور‘ سخاوت علی نادر‘ زاہد عباس‘ احمد سعیدخان‘ طارق جمیل‘ فاروق عرشی‘ عمران شمشاد اور دیگر نے شرکت کی۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ایک زمانے میں ہر علاقے میں لائبریریاں ہوتی تھیں جس کی وجہ سے کتب بینی بڑھ رہی تھی اب یہ ادارہ ختم ہو گیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا میدان میں آگیا ہے اس صورت میں قلم کاروں کا دمِ غنیمت ہے کہ یہ لوگ عوام الناس تک اچھے پیغامات پہنچا رہے ہیں‘ ان کی فلاح و بہبود کے لیے جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہے۔ جماعت اسلامی وہ تنظیم ہے کہ جو پُر تشدد ماحول میں بھی حق کی بات کرتی ہے‘ ہمیں اپنے حقوق کی بحالی کے لیے اپنے بہت سے ساتھیوں کی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ آج بھی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لیڈروں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے‘ ہم محبِ وطن پاکستانی ہیں ہم اس وقت کراچی کے مسائل پر بات کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ہم نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کی‘ ہم نے شناختی کارڈ کے حصول کو آسان بنایا‘ کے الیکٹرک کو لگام ڈالی‘ بحریہ ٹائون کے مسئلے پر کام کیا۔ ہم کراچی کے ہر گھر میں بنیادی سہولتوں کے حامی ہیں‘ ہم سندھی اور مہاجر کی تفریق کے خلاف ہیں‘ کراچی میں جتنی بھی قومیں ہیں ان تمام کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ ہم نے کوٹہ سسٹم کے خلاف بات کی حالیہ وفاقی گورنمنٹ نے کوٹہ سسٹم میں توثیق کرکے ظلم کیا ہے‘ کام ہمیشہ میرٹ پر ہونا چاہیے کراچی کے لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں۔ حالیہ بارشوں نے کراچی کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ہم نے اس حوالے سے بھی خدمتِ خلق کی ہے اور پوری تندہی سے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے یہ اعلان بھی کیا کہ 27 ستمبر 2020 بروز اتوار کراچی کے مسائل پر ایک پروگرام ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ قلم کار حضرات بھی شریک ہوں اس سے قبل ایک موضوعاتی مشاعرہ ہوگا جس میں صرف کراچی سے متعلق اشعار پیش کیے جائئیں گے اس کے ساتھ ساتھ ہم کراچی کی ادبی تنظیموں سے ایک ایک فرد لے کر ادبی فیڈریشن بنائیں گے جو کہ اپنے مسائل پر کام کرے گی۔ اس موقع پر نوید علی بیگ نے کہا کہ جماعت اسلامی میں علم و ادب کے لیے ایک شعبہ قائم ہے جس میں قلم کاروں کے سلگتے ہوئے مسائل سامنے لائے جائیں گے۔ طارق جمیل نے کہا کہ قلم کار جماعت اسلامی کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل حل کرائیں۔ رونق حیات نے کہا کہ اردو زبان و ادب کے لیے گورنمنٹ کے اداروں کے بارے میں تحفظات ہیں۔ کراچی کے شعرا کی حق تلفی ہو رہی ہے‘ ہم غیر سیاسی طور پر کراچی کے مسائل کے لیے آپ کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔ اس موقع پر تنویر سخن‘ احمد سعید خان‘ عبدالحکیم ناصف‘ سخاوت علی نادر‘ نجیب ایوبی اور زاہد حسین نے بھی گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں‘ ان کے بچوں کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں۔ الخدمت اسپتال کی سروسز میں ادیبوں اور شعرا کو پچاس فیصد رعایت دی جائے۔ ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں لیکن ہم دوسروں کو حق چھیننا نہیں چاہتے۔ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اس میں 40 فیصد کوٹے پر حکومتی اداروں میں کراچی کے لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں۔ عدالتی فیصلے کے باوصف اردو کے نفاذ میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کیا جائے۔

رشید خان رشید کے لیے پہلا تعزیتی ریفرنس

ایک زمانہ تھا کہ لانڈھی کورنگی میں بہت سے نامور شعرا قیام پزیر تھے جس کے باعث اس علاقے میں ادبی ماحول میسر تھا‘ وقت اور حالات کے بدلنے سے لانڈھی کورنگی سے لوگ منتقل ہوتے گئے جس کے سبب یہاں کی ادبی فضا تقریباً ختم ہوگئی تاہم ادارۂ فکر نو کراچی ان ادبی اداروں میں شامل ہے کہ جنہوں نے ادبی ماحول کو زندہ کیا۔ رشید خان رشید ادارے کے جنرل سیکرٹری تھے۔ موصوف نظامت کار‘ ہیڈ ماسٹر اور اسکائوٹ لیڈر تھے۔ آج سے تقریباً تین ماہ تک وہ مکمل صحت مند تھے پھر دیکھتے ہی دیکھتے بستر پر جا لیٹے‘ ڈاکٹروں نے انہیں جگر کے کینسر کا مریض قرار دیا‘ بے حد علاج کے باوجود بھی وہ صحت یاب نہ ہو سکے اور 10 ستمبر 2020ء کو جناح اسپتال میں انتقال کر گئے۔ 12 ستمبر کو رشید خان رشید کا سوئم تھا جس میں ان کے دوست احباب‘ رشتے دار اور اہل محلہ شریک ہوئے بعدازاں حامد اسلام خان کی صدارت میںرشید خان رشید کے لیے پہلا تعزیتی اجلاس منعقد ہوا اس موقع پر اختر سعیدی نے کہا کہ رشید خان رشید 6 جولائی 1953ء کو کراچی میں پید اہوئے‘ ان کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آیا تھا۔ وہ محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہوئے۔ نظامت کاری کے علاوہ سماجی خدمات کے حوالے سے بھی ہم انہیں لانڈھی کورنگی کا ایک اہم آدمی مانتے ہیں‘ وہ متعدد سماجی اداروں کے تحت خدمتِ خلق میں مصروف تھے۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ’’اعتبار کا موسم‘‘ 2004ء میں دوسرا شعری مجموعہ ’’انتظار کا موسم‘‘ اگست 2020ء میں شائع ہوا‘ وہ طویل عرصے سے اشعار کہہ رہے تھے۔ ان کی موت سے بالخصوص لانڈھی کورنگی میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے۔ محمد علی گوہر نے کہا کہ رشید خان رشید نیک سیرت انسان تھے‘ ان کی زندگی میں غم زیادہ تھے تاہم وہ جواں مردی سے مشکلات کا مقابلہ کرتے رہے۔ انور انصاری نے کہا کہ رشید خان کی یاد ہمیںستائے گی۔ وہ محبتوں کے سفیر تھے‘ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ صاحبِ صدر حامد اسلام نے کہا کہ رشید خان رشید زندہ دل انسان تھے‘ وہ مجلسی آدمی تھے‘ ان سے اکثر مشاعروں میں ملاقات ہوتی رہتی تھی‘ وہ ہمہ صفت شخصیت تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ اس تعزیتی ریفرنس میں حامد اسلام خان‘ انور انصاری‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ فرحان نقوی‘ محمد علی گوہر‘ قاسم جمال‘ گل انور‘ قادری محمد اویس خان‘ احمد خیال‘ عاشق شوکی اور علی کوثر نے شرکت کی۔ راقم الحروف نثار احمد نے گزشتہ ہفتے اپنے کالم میں رشید خان رشید کی دوسری کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی تھی لیکن رشید خان وہ اخبار بھی نہ پڑھ سکے کہ انہیں کچھ خوشی محسوس ہوتی کہ ان پر بات کی گئی ہے۔ اس پہلے تعزیتی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رشید خان کی کتاب کی تقریب اجرااور تعزیتی اجلاس بڑے پیمانے پر ہوگا۔ قلم کاروں کے مسائل پر حکومت کی جانب سے کچھ کام ہونا چاہیے کہ قلم کار بھی اس معاشرے کا اہم جزو ہیں لیکن اس موضوع پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ رشید خان کے جنازے میں زندگی کے مختلف طبقات کی نمائندگی موجود تھی وہ کراچی کے ادبی منظر میں اپنی شناخت بنا رہے تھے تاہم لانڈھی کورنگی میں انہیں بڑی اہمیت حاصل تھی کہ اب اس علاقے میں ادبی شخصیات خال خال ہیں۔ ان کی نظامت کاری کے سب معترف ہیں کہ وہ بہت خوب صورت الفاظ کی مدد سے مشاعرے کا ٹیمپو بناتے تھے اور بڑی عمدگی سے مشاعرہ چلاتے تھے۔ ان کی شاعری میں غم جاناں اور غمِ زمانہ دونوں شامل ہیں۔ وہ سہل ممتنع میں بھی بڑے اچھے اشعار نکال لیتے تھے ان کی کتابیں موجود ہیں جو کہ ادب کے طالب علموں کے لیے سرمایہ ہیں۔

حشمت اللہ صدیقی کی تصنیف ’’کھلے دریچے‘‘ ہمارے معاشرے کا منظر نامہ ہے

حشمت اللہ صدیقی کے مضامین پر مشتمل کتاب ’’کھلے دریچے‘‘ 4 اگست 2020ء کو مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوئی کہ اس کتاب پر تبصرہ کیا جائے۔ میں حشمت اللہ صدیقی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے یاد فرمایا‘ تاہم میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں اجمل سراج کے کہنے پر ادبی پروگراموں کی رپورٹنگ اور انٹرویوز کر رہا ہوں لیکن مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں کتابوں پر بھی بات کر لیتا ہوں‘ میں کوئی ناقد نہیں ہوں میں ادب کا طالب علم ہوں۔ میں نے اس کتاب کو پڑھا ہے اور مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یہ کتاب بہت مفید اور معلوماتی ہے اس کتاب کی تمام تحریریں روزنامہ جسارت اور دیگر اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔ یہ کتاب حشمت علی صدیقی کے کالموں پر مشتمل ہے‘ کتاب کا ٹائٹل جاذبِ نظر ہے‘ 218 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مختلف موضوعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا انتساب عالم اسلام کی ان عظیم شخصیات کے نام ہے جن کی علمی‘ انقلابی اور دعوتی فکر سے دورِ جدید میں اسلام کا روشن چہرہ واضح ہوا۔ صاحبِ کتاب صحافی اور کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ ملازم بھی ہیں۔ 16 اکتوبر کو 1951ء کو لیاقت آباد کراچی میں پیدا ہونے والے حشمت اللہ صدیقی نے 1969ء میں میٹرک کیا اور فیڈرل گورنمنٹ اردو کالج عبدالحق کیمپس سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ تاریخ‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ ثقافتی اور مذہبی موضوعات پر دسترس رکھتے ہیں‘ اپنے کالموں میں زمانے بھر کے سلگتے ہوئے روّیوں کو موضوع بحث بناتے ہیں‘ ان کا شمار ایسی انسان دوست شخصیات میں ہوتا ہے جو معاشرے میں امن وامان چاہتے ہیں جن کا مطمع نظر یہ ہے کہ دنیا میں طبقاتی کشمکش‘ ناانصافی‘ لسانی اور علاقائی تعصبات کا خاتمہ ہو۔ حشمت اللہ صدیقی کی زبان سادہ اور عام فہم ہے اس لیے ان کی بات آسانی سے سمجھ آتی ہے یہ مدلل گفتگو کرتے ہیں‘ موضوعات کا تنوع اور مضمون نویسی پر دسترس حاصل ہونے کے سبب ان کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو علم و آگہی سے استفادہ کرتی ہیں‘ اسی جذبے کی ترویج و اشاعت کے لیے حشمت اللہ نے صحافت کے میدان میں اپنی انٹری دی ہے اس کے علاوہ کالم نویسی اور مضامین کے ذریعے بھی معاشرہ اور سماج میں اپنی آواز بلند کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں بلیک اینڈ وائٹ فوٹوز بھی ہیں اور کچھ اہم شخصیات کے خطوط بھی شامل ہیں۔ محمد صلاح الدین (مدیر اعلیٰ ہفت روزہ تکبیر)‘ پروفیسر عبدالغفور‘ نعمت اللہ خان (سٹی ناظم کراچی)‘ محمود اعظم فاروقی اور ڈاکٹر غلام عامر عبداللہ محمدی نے اپنے خطوط میں حشمت اللہ صدیقی کی ادبی خدمات کو سراہا ہے اس کے علاوہ مولانا عبدالرحمن سلفی‘ حکیم محمود برکاتی‘ ڈاکٹر اسرار احمد کے علاوہ مولانا شاہ احمد نورانی کے مختصر تبصرے بھی شامل ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حشمت اللہ صدیقی کی تحریر جذبۂ ایمانی اور حب الوطنی کی مظہر ہے۔ آپ فرقہ وارانہ نظریات کے خلاف صفِ آرا ہیں۔ فاضل مصنف نے امتِ مسلمہ کے مابین اتحاد پر زور دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ترقی و عزت عطا فرمائے‘ آمین۔

حصہ