سیکولر ذہنیت پر سید مودودیؒ کی گرفت

403

مرتب: اعظم طارق
آخری قسط
عوام کی اقدار ِ اعلیٰ کا جو تصور سیکولرازم نے دیا‘ وہ بھی سید مودودیؒ کی نظروں میں اتنا ہی خطرناک ہے: جمہور کی حاکمیت (Sovereignty of the People) کو ابتداً بادشاہوں اور جاگیرداروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیا گیا تھا‘ اور اس حد تک بات درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقے کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کر دینے اور اپنی اغراض کے لیے انھیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن اس منفی پہلو کے ساتھ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی مثبت پہلو پر ترقی کر کے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختارِ کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش (عملاً اس کی اکثریت کی خواہش) کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔(ایضاً)
لیکن اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب قوم پرستی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک دوسرا خدا بھی بنا لیا۔ سید مودودی کہتے ہیں: اخلاق ہو یا تمدن‘ معاشرت ہو یا سیاست‘ ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے ہوں‘ اور جن اصولوں کو قوم کی راے عامہ رد کر دے وہ باطل ہیں۔ قانون‘ قوم کی مرضی پر منحصر ہے۔ جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق بننی چاہیے۔ قوم ہی کی رضا کا اسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے پر صرف ہونی چاہیے۔
پھر سید مودودیؒ ؒ جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: موجودہ تہذیب میں جمہوریت کے معنی ہیں جمہور کی حاکمیت‘ یعنی ایک علاقے کے لوگوں کی مجموعی خواہش کا اپنے علاقے میں مختار مطلق ہونا اور ان کا قانون کے تابع نہ ہونا‘ بلکہ قانون کا ان کی خواہش کے تابع ہونا‘ اور حکومت کی غرض صرف یہ ہونا کہ اس کا نظم اور اس کی طاقت لوگوں کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنے کے کام آئے۔
ان کے خیال میں اسی کے ساتھ عذاب کی مثلث مکمل ہو جاتی ہے: پہلے تو لادینیت نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے مستقل اصولوں کی گرفت سے آزاد کر کے بے لگام اور غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس بنا دیا‘ پھر قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کر دیا‘ اور اب یہ جمہوریت انھی بے لگام‘ بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہے کہ اس کی طاقت ہر اس چیز کے حصول میں صَرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے سید مودودی ایک فطری سوال اٹھاتے ہیں: سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خود مختار صاحب ِحاکمیت قوم کا حال آخر ایک طاقت ور بدمعاش کے حال سے کس بات میں مختلف ہو گا۔ جو کچھ ایک بدمعاش فرد خود مختار اور طاقت ور ہو کر چھوٹے پیمانے پر کرے گا وہی تو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اس طرح کی ایک قوم کرے گی۔ پھر جب دنیا میں صرف ایک ہی قوم ایسی نہ ہو بلکہ ساری متمدن قومیں اسی ڈھنگ پر بے دینی‘ قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر منظم ہوں تو دنیا بھیڑیوں کا میدانِ جنگ نہ بنے گی تو اور کیا بنے گی؟
مغرب و مشرق میں اقدار کی قدیم دنیا کے تحلیل ہو جانے کے بعد وجود میں آنے والا نیا لادین معاشرہ ایک کھوکھلا معاشرہ تھا‘ جسے نفسانی نظریات کے علاوہ اور کسی چیز کا سہارا میسر نہیں ہے۔ اب وہ چاہے ڈیکارٹ (Descarte) کی ’’یکہ و تنہا انا پرستی‘‘ ہو‘ کانٹ (Kant) کا ’’تخصیص کردہ اصل مافیہ کے اثر سے پاک نفسِ آزاد‘‘ ہو‘ ویبر (Weber) کی ’’طریقیاتی انفرادیت‘‘ ہو‘ جو موجودہ سماجی ساختوں کو افراد کے عقائد اور رویوں کا پرتو قرار دیتی ہے‘ یاپھر کیر کیگارڈ (Kierkegaard) کی ’’جمالیاتی شخصیت‘‘ ہو جو زندگی کے ایک مجموعی لائحہ عمل کی مالک تو ہوتی ہے لیکن جس میں کوئی مافیہ (content) نہیں ہے‘ بلکہ ایک خالی خولی عمل ہے جو کسی اتفاقی عامل (input) کے انتظار میں رہتا ہے۔ لادینی معاشرہ نفس کے بارے میں کم و بیش اس تصور پر متفق ہو گیا‘ کہ یہ ’’جذبات کا معقول مالک اور آقا ہے جو مشین کے جسم میں رہایش پذیر ہے‘‘۔ یہ تصور‘ نفس کے اس تصور سے قطعی طور پر مختلف تھا کہ ’’یہ کائنات اور معاشرے سے متحد نامیاتی اعضا کی دقیق ہم ٖآہنگی کا جزو لازم ہے‘‘۔ جب نفس کو اس کے نامیاتی پس منظر سے جدا کر دیا گیا تو ’’تمام اخلاقی مطالبات کے لیے یہ ایک آخری سہارے‘‘ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ لیکن ایک لادین نفس‘ جیسا کہ اسے ہونا چاہیے‘ بے لگام تھا۔ یہ ایک حریص اور لالچی نفس تھا‘ جو پیوستگی‘ اتحاد اور عقل سلیم جیسی صفات کے تقاضوں سے قطعی طور پر ہم آہنگ نہیں تھا۔ عقلیت پرست نفس خود اپنے تیار کردہ جالے (web) میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے اور اپنے مغالطوں اور اپنی تحدیدی فطرت کے ہاتھوں اسے لگام ملتی ہے۔
لادین ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے سید مودودیؒ ،اعتدال اور میانہ روی کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہیں‘ کیونکہ خود انسان اپنے لیے کوئی درست راہ منتخب نہیں کر سکتا۔ یہ امر انسان اور اس کی صلاحیتوں کا کوئی خوش کن میزانیہ نہیں ہے۔ لیکن لگتا ہے انسانی تاریخ‘ اس المیے کی تائید کرتی ہے‘ کیونکہ انسان اپنی مجموعی صورتِ حال میں نجات دہندگی کی شاہراہ پر چلنے سے غفلت کا شکار رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خود پرستی یا ذات کا عشق (narcissism) اوباشیت‘ نا آسودہ حیوانی خواہشات کا بے لگام اظہار (bohemianism) (روایات اور اقدار سے) بے گانگی اور نفرت (estrangement) جو ایک ہی مرض کی تین حالتیں ہیں‘ انھوں نے انسانوں کو اچھائی قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ اس افسوس ناک صورت حال کو سمجھنے کے لیے سید مودودیؒ ہمیں اس حقیقت سے باخبر کرنا چاہتے ہیں کہ ہر مرد اور عورت اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے‘ جس میں کچھ ذہنی اور طبیعی قوتیں قیام پذیر ہیں۔ اس کی کچھ خواہشات ہیں‘ کچھ جذبات اور ذاتی میلانات ہیں اور ساتھ ہی کچھ روحانی اور جبلی مطالبات بھی ہیں۔ معاشرے کی تشکیل کا عمل بھی‘ جو انسانوں کے میل جول سے وجودمیں آتا ہے‘ پیچیدہ ہے‘ اور جوں جوں تمدن نشوونما پاتا ہے‘ اس پیچیدگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ معاشرے میں مادی وسائل کی کثرت کے سبب انفرادی اور معاشرتی سطح پر ان کی ملکیت اور تقسیم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔
چونکہ انسان فطری طور پر خامیوں سے پاک نہیں ہے‘ لہٰذا اس کے لیے ماضی پر ایک متوازن نظر ڈالنا اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے زندگی کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ممکن نہیں جو نفسی روحانی (psycho-spiritual) اور مادی‘ ہر دو معنوں میں اس کے لیے ممد و معاون ہو‘ جو اسے اس کی بساط کے مطابق انصاف فراہم کر سکتا اور اس کے اجتماعی معاشیاتی مسائل کو عادلانہ انداز میں حل کر سکتا ہو۔ پھر یہ نظام ایسا بھی ہونا چاہیے‘ جو انفرادی اور معاشرتی دونوں قسم کی ضرورتوں کے لیے مادی وسائل کے استحقاقی استعمال کی ضمانت دے جس سے ایسی صحت مندانہ نشوونما کو فروغ حاصل ہو جو ماحول اور معاشرتی توازن کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ جب انسان قیادت پر قبضہ کر کے خود ہی اپنے مشیر بن جاتے ہیں تو حقیقت کے محض چند پہلو‘ زندگی کی چند ضروریات اور چند ایک حل طلب مسائل ان کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ تب وہ نادانستہ طور پر دوسرے پہلوئوں کے بارے میں غیر منصفانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ یوں زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور یہ ٹیڑھے راستے پر چل نکلتی ہے۔
سید مودودیؒ اپنا راستہ خودمتعین کرنے کی انسانی کوششوں کو بے مقصد اور وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ’’جدلی عمل‘‘ کو انسانی ترقی کے لیے ایک فطری ارتقائی عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ارتقا کا کامیاب راستہ نہیں بلکہ تباہی کی جانب لے جانے والی ناہموار سڑک ہے‘ جو انسان کو مصیبت کے ایک گڑھے سے دوسرے گڑھے میں گراتی رہتی ہے۔
سید مودودیؒ لادینی ذہنیت کے فروغ کو ایک عذاب سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا علاج یہ تجویز کرتے ہیں کہ کسی بنیادی مابعد الطبیعی ڈھانچے کی طرف رجوع کیا جائے‘ انسان اور قدرت کے درمیان ایک کائناتی وحدت پر یقین رکھا جائے‘ فرد اور معاشرے کے حقوق کے درمیان توازن قائم کیا جائے‘ اخلاقی صفات سے متصف انسان کی تشکیل کی جائے‘ قومیتوں کی کڑی حدبندیوں کو توڑ دیا جائے اور ایک ایسا عالمی نظام وضع کیا جائے جس میں دنیا کی غریب اور پسی ہوئی اقوام کو مساویانہ مقام اور وقار ملے۔
مسلمانوں کے لیے سید مودودیؒ کا پیغام ہے کہ اپنے نظامِ اقدار کو دوبارہ اس کی خالص شکل میں اپنائیں‘ اور اسلامی اخلاق پر مبنی ایک ریاست قائم کر کے اپنے گھر کی اصلاح کریں‘ جو دوسروں کے لیے ایک شان دار نمونے اور انسانیت کے منقسم طبقات کی باہمی تفہیم کے لیے ایک پُل کا کام دے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے‘ لیکن دنیا میں تاریکی جس قدر زیادہ ہو گی‘ روشنی کے لیے انسان کی تڑپ بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

حصہ