دعائے سحر

چھ بجے گھڑی نے الارم بجایا اور وہ بستر چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ قریب کے پارک میں آدھا گھنٹہ واک کرکے گھر واپس آیا۔ شیوبنایا غسل کیا اور کپڑے بدل کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ ’’ناشتہ لائو سمیہ‘‘ اس نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے آواز لگائی۔ ’’کہاں جارہے ہیں‘‘ سمیہ نماز فجر اور تلاوت کے بعد ابھی بستر پر جا کر لیٹی تھی اس نے چادر اوڑھتے ہوئے شوہر سے پوچھا۔ رافع چڑ گیا ’’جائوں گا کہاں۔ آفس جارہا ہوں‘‘۔ ’’آفس‘‘ سمیہ نے چادر منہ سے تک اوڑھ لی۔ آرام سے بستر پر لیٹ جائیں۔ آج سے آپ آفس نہیں جائیں گے آپ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ’’ارے واقعی‘‘ وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا ’’میں تو بالکل بھول ہی گیا کہ آج سے آفس کی چھٹی ہے‘‘۔ زندگی کے اڑتیس سال ایک مخصوص ڈگر پر گزارنے کے بعد اپنے آپ کو اس سے ہٹانا کتنا مشکل ہے۔ اب تو سارا وقت مجھے گھر پر ہی گزارنا ہوگا۔ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور اخبار لے کر لان میں آگیا۔ گارڈن چیئر پر بیٹھ کر سکون سے اخبار کی ہر خبر تفصیل سے پڑھی۔ روز آفس جانے کی جلدی میں وہ اخبار کی ہیڈ لائن پر ہی نظر ڈال لیتا تھا باقی اخباررات کو کھانے کے بعد پڑھتا تھا۔ اس کو دوسرے لوگوں کی طرح دفتر میں پڑھنے کی عادت نہیں تھی۔ وہ انتہائی دیانتدار شخص تھا۔ نہ وہ گھر میں آفس کا کام کرتا تھا اور نہ ہی آفس گھر کا مسئلہ لے کر جاتا تھا۔ اخبار ختم کرکے وہ اندر آیا تو سمیہ اس کے لیے چائے بنا چکی تھی۔
سمیہ ایسی ہی محبت کرنے والی ذمہ دار، وفاشعار اور کفایت شعار بیوی تھی۔ جس نے کبھی اپنے شوہر رافع کو اپنی کسی فرمائش سے زیر بار نہیں کیا، وہ نماز فجر کے بعد قرآن کی تلاوت کرتی اور اشراق پڑھ کر گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتی۔ اس کے تینوں بچے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ شافع اور سامع آنرز کررہے تھے اور ربیعہ ایف سی کی طالبہ تھی۔ وہ ہمیشہ سے بچوں کو گھر سے لنچ تیار کرکے دیتی تھی۔ وہ اپنے آپ سے بار بار یہ عہد کرتی کہ میں اپنی ہر وہ ذمہ داری پوری کروں گی جو میرے اللہ اور رسولؐ نے بحیثیت ماں اور بیوی کے مجھ پر عائد کی ہیں۔ اس لیے وہ اپنے بچوں اور شوہر کی خدمت کرکے بڑی مطمئن رہتی۔ ان سب کے جانے کے بعد وہ اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کرتی۔ مطالعہ قرآن و حدیث کرتی۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ جو کچھ پڑھے اس پر عمل بھی کرے۔ کیوں کہ قرآن صرف خوبصورت جزدان میں رکھنے یا قسم اٹھانے یا دلہن کو رخصت کرنے وہ اس کے اوپر سایہ کرنے کے لیے نہیں اتارا گیا۔ قرآن تو راہ عمل ہے، ذریعہ نجات ہے، قبر کی روشنی ہے، اعمال کی پاکیزگی ہے۔ رافع ایک نجی کمپنی میں اکائونٹنٹ تھا۔ اپنے کام میں کھرا، زبان کا کھرا اور بات کا کھرا تھا۔ اس لیے دفتر میں اس کے آفیسر خوش ماتحت بیزار اور ساتھی حسد کرتے تھے۔ دفتر وقت پر پہنچنے والا وہ واحد شخص تھا اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھا اور کام شروع کردیتا۔ دن بھر کا تھکا ہارا جب آفس سے گھر پہنچتا تو بیوی کی بے ریا مسکراہٹ بچوں کی محبت اور خلوص اس کے لیے چشم براہ ہوتے۔ ان کے ساتھ کھانا کھا کر کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر اخبار پڑھ کر سوجاتا۔ گھریلو معاملات کا شعبہ سمیہ کے پاس تھا جن کو وہ بہت خوش اسلوبی سے ادا کررہی تھی۔ وہ رافع کی مزاج داں شوہر پرست بیوی تھی جو گھریلو الجھنوں سے شوہر کو بری الذمہ رکھتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے پہلے دن رافع نے اخبار پڑھا اور کھرپی لے کر لان میں آگیا جہاں سمیہ کے لگائے ہوئے پھول اور سبزیاں لہلارہی تھیں۔ ہر پودا صاف ستھرا تھا۔ موتیا، گلاب، چنبیلی، رات کی رانی نے اس کے دماغ کو مہکا دیا اس نے ایک گہری سانس لی اور ان خوشبوئوں کو اپنے اندر اُتار لیا۔ آج اسے فرصت تھی اس نے زمین کو کھرپی سے کھود کر اس میں کھاد ڈالی۔ دھنیا، مرچ اور مولی کے بیج اس میں ڈال کر فوارے سے پانی دے دیا۔ سمیہ باورچی خانے میں کھانا پکارہی تھی، چکن بریانی کا مسالحہ تیار کرکے اس نے چاول ابلنے کے لیے رکھ دیے۔ رافع اس کے پاس اسٹول لے کر بیٹھ گیا۔ رافع اس کو پھرتی سے کام کرتے دیکھ رہا تھا۔ رافع نے ہلکے سے کھنکھار اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ’’کیا ہوا‘‘ وہ رافع کی طرف پلٹی۔ ’’بھوک لگی ہے‘‘ نہیں میں تو تمہارا ہاتھ بٹانے آیا تھا۔ سمیہ ہنس پڑی۔ ’’آپ کیا کریں گے‘‘۔ وہ باتیں کرتے کرتے پھیلے ہوئے برتن سمیٹ کر سنک میں دھوتے ہوئے بولی۔ ’’بھئی میں تمہارے لیے سبزی کاٹ سکتا ہوں، لہسن ادرک چھیل سکتا، گوشت پکانے کی کوشش کرسکتا ہوں‘‘۔ وہ جھینپ کر بولا۔ اسے خود معلوم تھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ اسے تو صرف چائے بنانی آتی تھی۔ اس کے علاوہ گھریلو کام کاج میں وہ کورا تھا۔ مگر کیا ہوا کام نہیں آتا تو وہ سیکھ لے گا۔ آخر سمیہ کو بھی تو آرام کی ضرورت ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مرد تو ریٹائر ہو کر اپنی ہر ذمہ داری سے بری ہوجائیں اور عورت ساری عمر بچوں اور شوہر کی خدمت میں لگی رہیں۔ ان کو بھی تو آرام کی ضرورت ہے۔ اس نے بہت سوچ کر سنجیدگی سے کہا کل سے ہم دونوں مل کر کھانا پکائیں گے۔ ایک دن تم ایک دن میں۔ سمیہ نے پھر ہنسنا شروع کردیا۔ ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ رافع کو بے یقینی سے دیکھتی رہی۔ اس کے احساسات اس کی محبت سب کچھ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ رافع اس کےقریب آکر بولا ’’دیکھو سمیہ تم نے ساری زندگی اکیلے ہی گھر کی ہر ذمہ داری اُٹھائی ہے اب میں نوکری سے فارغ ہوگیا ہوں تو تمہارا ہاتھ بٹا سکتا ہوں نا۔ میں نے اگر اکیلے گھر سنبھالا ہے تو آپ نے بھی تو اکیلے ہی نوکری کی ہے۔ ہم سب کی ہر ضرورت کا خیال رکھا ہے۔ اس میں کس نے آپ کا ہاتھ بٹایا ہے۔ ’’رافع جھینپ کر بولا‘‘ ارے بھئی وہ میری ذمہ داری تھی۔ میرا فرض تھا تم لوگوں پر کوئی احسان تھوڑی کیا ہے۔ چلیں ٹھیک ہے آپ نے اپنا فرض نبھایا میں نے اپنا۔ حساب برابر ہوگیا۔ ہم لوگوں کی وجہ سے اور اپنی نوکری کی وجہ سے مصروف رہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے فرصت دی ہے تو خوب گھومیں پھریں۔ لوگوں سے اپنے دوستوں سے رشتہ داروں سے ملیں تا کہ ان کی شکایتیں دور ہوں کہ آپ اپنی مصروفیت میں سب کو بھول گئے ہیں۔ اچھا باتیں بعد میں کریں گے کھانا کھالیں۔ سمیہ نے ڈائننگ ٹیبل جو کچن کے باہر لگی ہوئی تھی اس پر پلیٹیں اور چمچے رکھے اور بس آپ ہاتھ منہ دھولیں بلکہ وضو کرلیں میں جب تک بریانی نکالتی ہوں۔ بچے بھی آنے ہی والے ہوں گے۔
رافع میں ہر خوبی تھی مگر وہ نماز کی طرف کسی صورت مائل نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ سمیہ اور تینوں بچے بہت باقاعدگی سے نماز پڑھتے تھے۔ سمیہ چاہتی تھی کہ نماز کی پابندی کریں۔ مسجد بھی گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ اذان کی آواز بھی بہت صاف گھر تک آتی تھی۔ مگر رافع کا دل کسی طور پر نماز پر مائل نہ تھا۔ سمیہ اس کو بے نمازی ہونے کا احساس دلائے بغیر چاہتی تھی کہ وہ اللہ کی طرف سے عائد اس اولین فرض کی اسی تندہی سے پابندی کرے جیسے وہ دفتر کے کاموں کی پابندی کرتا تھا۔ اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ اگر نماز کے لیے اصرار کیا اور رافع نے انکار کردیا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ تہجد میں جب بھی اس کی آنکھ کھلتی وہ ہمیشہ رافع کے لیے دُعا کرتی ’’اے اللہ میرے شوہر کا دل اپنے دین کی طرف اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے، ان کو نماز کا عادی بنادے‘‘۔ رافع کی ریٹائرمنٹ کو کئی ماہ ہوچکے تھے۔ عزیزوں رشتہ داروں سے ملنے کا سلسلہ بھی اب ختم ہوچکا تھا۔ اب اسے احساس ہونے لگا تھا کہ وہ رشتہ دار جو اس کے گھر نہ آنے پر شاکی رہتے تھے اب وہی رشتہ دار ملنے سے کترانے لگے ہیں اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ ریٹائر ہوچکا ہے انہیں یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں وہ اپنی کسی ضرورت کے لیے ان کے سامنے ہاتھ نہ پھیلادے۔ یہ سب باتیں رافع نے بہت اچھی طرح محسوس کیں۔ مگر اب اُسے گھر میں رہنا بھی کھلنے لگا تھا۔ گھر میں ہر وقت رہنے سے اسے ہر چیز میں خامیاں نظر آنے لگی تھیں۔ اخبار میں ملازمت کے اشتہار دیکھنا شروع کردیے۔ ابھی تو وہ کام کرسکتا ہے۔ پھر وہ وقت کیوں ضائع کرے۔ پھر اسے خیال آیا گزشتہ پانچ ماہ سے اس نے سمیہ کو گھر کے اخراجات کے لیے کچھ بھی نہیں دیا۔ اور اس اللہ کی نیک بندی نے اس سے کچھ مانگا بھی نہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم اس نے بینک میں رکھوادی تھی۔ اس میں سے بھی اس نے ایک پائی بھی سمیہ کو نہیں دی اور اس صابر اور شاکر بندی نے ایک بار بھی مطالبہ نہیں کیا۔ سمیہ اس کے مزاج اس کی سوچ سے واقف تھی۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی رافع جو کچھ اسے گھر کے خرچ کے لیے دیتا تھا اس میں سے وہ کچھ نہ کچھ بچالیتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن تو یہ وقت آنا ہے۔ اس نے اپنی بچت سے رافع کے لیے کچھ ہلکے پھلکے افسانوں کے مجموعے، حادیث، قرآن کا ترجمہ، شاعری کی کتابیں خرید کر رکھ لیں تھیں۔ رافع کو شادی کے بعد مطالعہ کا بہت شوق تھا لیکن نوکری کی پابندی نے اس کا شوق وقتی طور پر کم کردیا تھا۔ شادی سے پہلے وہ ہلکے پھلکے افسانے لکھتا تھا مگر اب مدت سے یہ شوق خواب ہوگیا تھا۔ سمیہ نے اس کی سائڈ ٹیبل پر ان کتابوں کو سلیقہ سے سجادیا۔ رات کو جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو کتابیں اس کا رفیق بن گئیں۔ بہترین کتابوں کے مطالعہ نے اس کے ذہن اور دل کی کھڑکیاں کھولنا شروع کردیں۔ زندگی کے تجربات قرآن کے ترجمے، احادیث کے مطالعہ نے اس کو لکھنے کی طرف پھر مائل کردیا۔ ایک رات جب وہ لکھنے بیٹھا تو لکھتا ہی چلا گیا۔ نئی نسل کے لیے اپنی زندگی کے تجربات، ایمانداری اور اس کا پھل محبت اور اس کے اثرات، ایک پرسکون زندگی کے لیے ایک مزاج داں شریک حیات کا وجود یہ سب اس کے موضوعات تھے۔ اس نئی نسل کے لیے پیغام تھا جو شارٹ کٹ سے راتوں رات امیر بننا چاہتی ہے، اسے مستقل مزاجی، دیانت، فرض شناسی، محنت، نظم و ضبط کا درس دیا۔ فجر کی اذان کے ساتھ جب اس نے گھڑی پر نظر ڈالی تو صبح کے 5 بج رہے تھے۔ ’’اللہ اکبر‘‘ کی آواز بہت ہی خوبصورت لگی۔ وہ رات سے اب تک تقریباً 50 صفحے لکھ چکا تھا۔ ساری زندگی دو اور دو چار کا حساب کتاب کرنے والا اکائونٹنٹ تو بہت عمدہ لکھاری نکلا۔ سمیہ نے اسے لکھتے دیکھ کر کئی بار اسے ٹوکنا چاہا مگر کچھ سوچ کر چپ ہوگئی۔ صبح نماز کے لیے اُٹھی تو رافع بڑی سنجیدگی سے لکھنے میں مصروف تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب سا سکون تھا۔ وہ تنائو نظر نہیں جو اس کے مزاج کو برہم کیے رہتا تھا۔ وہ اپنا تجربہ اپنا علم کاغذوں پر منتقل کرچکا تھا۔ رافع نے سمیہ کو بستر سے اُٹھتے دیکھا تو اپنے لکھے ہوئے کاغذات کا پلندہ اس کی طرف بڑھادیا۔ سمیہ نے ان کاغذات پر سرسری سی نظر ڈالی اور آہستہ سے بولی ’’نماز پڑھ لوں تو پھر اطمینان سے پڑھوں گی۔ رافع نے اس کا پاکیزہ اور نور میں ڈھلا مطمئن چہرہ دیکھا، اللہ کی اطاعت و عبادت شوہر اور بچوں سے محبت نے اس کو حسین بنادیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ سمیہ اور بچوں کی بڑی خواہش تھی کہ رافع نماز کی طرف مائل ہوجائے۔ وہ قرآن کا ترجمہ پڑھ کر احادیث پڑھ کر ایک فیصلہ کرچکا تھا۔ اس نے اطمینان سے کہا ’’میں بھی وضو کرکے مسجد جارہا ہوں۔ شافع اور سامع کو بھی اُٹھادو۔ میں قرآن کی تلاوت کے بعد اشراق پڑھ کر واپس آئوں گا تم پریشان نہ ہونا۔ سمیہ نے غیر یقینی انداز میں اسے دیکھا جیسے اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ رافع کیا کہہ رہا ہے اور جب رافع نے اسے بازو سے پکڑ کر اللہ حافظ کہا تو وہ اللہ کے حضور اسی جگہ سجدہ ریز ہوگئی۔ ریٹائرمنٹ کا مقصد اب اس کی سمجھ میں آیا کہ اللہ اپنے بندے کو کسی نہ کسی وقت اپنی طرف آنے پر مجبور کردیتا ہے۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اے اللہ تیرا احسان کہ تو نے اس ناچیز کی دعا قبول کرلی۔ سامع اور شافع بھی باپ کے ساتھ مسجد جارہے تھے۔ ربیعہ اپنی ماں کی دعائوں سے واقف تھی اس نے ماں کو دونوں بازوئوں سے اُٹھایا اور کہا امی بہت بہت مبارک ہو اللہ نے آپ کی دعائیں قبول کرلیں۔