پاکستانی اداکاروں کے سنگین بیانات

464

’آیا تے چھاگیا‘ کے مصداق ، ترکش ڈرامہ سیریز ارتغر ل پاکستان میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی مقبولیت بڑھا رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر سیریز کے مصنف مہمت بوزداغ نے ساتویں سیزن مطلب کرولش عثمان سیریز کے دوسرے یعنی مجموعی طور پر ساتویںسیزن کا ابتدائی ٹیزر جاری کیا۔ویسے تو بوزداغ اپنی ٹیم کے ہمراہ اِن دنوںاِس عظیم الشان سیریز کی آٹھویں سیز ن کی تیاری میں مصروف ہیںمگر شائقین کے ذوق اور پیاس کا خیال رکھتے ہوئے انہوں نے پہلا قدم اٹھا دیا ہے جو تادم تحریرصرف 20گھنٹوںمیں وائرل ہو گیا ہے،اردو ترجمہ لگا کر بھی کئی پیجز نے شیئر کر دیا ہے۔ گوکہ پاکستان میں سرکاری ٹی وی پر ابھی دوسرا سیزن ہی جاری ہے مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں کہ ارتغرل کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں نہ آئے۔اس کے ساتھ ہی سیریل کے اداکاروں کی پبلک ڈیمانڈ بھی تیزی سے بڑھی ہے ،بلکہ آپ نے محسوس کیاہوگا کہ ارتغرل کے اداکاروں کے ساتھ عوام کا ایک عجیب تعلق سا بناہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ بات ٹھیک ہے کہ اتنی طویل سیریزکو جو بھی ناظر دیکھے گا ، جس میں ایک ہی جیسا ماحول، معاشرت اور ایک خاس ترتیب ہوگی ، کہانی کا سلسلہ جڑا ہوا ہوگا تو لازمی و فطری تقاضہ ہے دیرپااثرات ہونے کا۔بلاشبہ اس میں کمال کی تحریر، ڈائیلاگ، بیک گراؤنڈ ٹریک ،ترتیب ، پیشکش سب کا شاہکار موجود ہے۔ اس موضوع پر تو جتنا لکھا جائے کم ہے ،لیکن ہم نے دیکھا کہ وہ شادیاں جو بھارتی گانوں پر رقص و ہندوانہ رسومات کے ساتھ ہوتی تھیں اب کئی ویڈیوز میں ڈرامہ میںدکھائی گئی شادی کی رسم کی طرز پر کرنے کی کوشش کی گئیں( مطلب دلہا دلہن کو گھر لے جاتے ہوئے )۔یہ تو اثرات کی دیگ کا ایک چھوٹا چاول ہے۔ ہمارے ایک اور عزیز نے تو خاندان کی دعوت بھی قائی قبیلہ کے جرگے کی صورت منعقد کرائی۔یہ بات ٹھیک ہے کہ اس ڈرامہ سیریز کا تواتر سے ہتھوڑی برساتا روحانی و عملی پیغام’اللہ کے نظام کو قائم کرنے کا‘ اور ’اسلام کو نفاذ کے لیے صرف ریاست درکار ہے ‘ان سب سے کہیں بڑا ہے مگر یہ بات بھی کم نہیں کہ کوئی بھی انسان اتنے جلدی اپنی برسوںاور نسلوں سے چلتی شادی، دعوت وغیرہ کی ترتیب کو ایک جھٹکے میں بدل ڈالے، اسی کو ایک درجہ میں ’انقلاب‘ بمعنی ’تبدیلی‘ کہہ سکتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی اداکاروں کی تو ارتغرل کے مرکزی کردار ’اینگن التان دزیتان‘ کو دُنیا بھر کے ساتھ پاکستانیوںکی بھی بے پناہ محبت و چاہت حاصل ہو چکی ہے ، کمرشل اداروں نے اپنی روایتی ذہنیت کے ساتھ اس کا فائدہ اٹھانا چاہا ۔ڈرامہ کی مرکزی ہیروئن اسرا بیلچک المعروف حلیمہ سلطان کی مقبولیت کا بھی یہی حال ہے ، اُن سے تو پاکستانی موبائل کمپنی اور موبائل سروس پروائیڈر نے اشتہار کی صورت بھرپور استعمال کر لیا،مگر ’اینگن‘ کے ساتھ اچھا نہیںہوا۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے ایک بڑے بلڈر کی جانب سے لانچ کردہ ایک رہائشی اسکیم نے ’اینگن‘ سے رابطہ کرکے اُن کے پاکستان آنے کے انتظام مکمل کیے ، خاصامعقول مشاہرہ طے کرکے اُن کو اپنی رہائشی بستی کا برینڈ ایمبیسیڈر بنایا، اب یا تو اسے حسد کہیں یا کاروباری مخاصمت یا نظر لگنے کا عمل کہیں ، سوشل میڈیا پر ’رہائشی اسکیم ‘کو متنازعہ بنا دیا گیا یہ کہہ کر کہ اس کو حکومت نے تعمیرکی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ بس یہ دھبہ دھلتایا صفائی آتی یہ خبر اینگن تک اُن کے مداحوں نے بغیر سوچے سمجھے پہنچائی ،چنانچہ ’اینگن‘ نے فی الفورمعذرت کرلی ،نتیجہ صرف یہ ہواکہ پاکستان کا تاثر خراب ہوا اور کچھ نہیں۔ ٹی آر ٹی اردو کے ہیڈ ، معروف کالم نگار اور یار من ترکی یو ٹیوب چینل کے بانی ڈاکٹر فرقان حمید سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے اینگن نے کہا ہے کہ انہیں ادارے کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات حاصل نہیں تھیں لیکن پاکستان سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی اور اس فرم کے بارے میں اچھی رائے نہ ہونے کی وجہ سے ایگریمنٹ کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ساتھ ہی معروف تْرک اداکار’ اینگن التان‘ نے اپنے بے شمار سوشل میڈیا اکاؤنٹ دیکھ کر اپنے دنیابھر کے مداحوں کوایسے فیک اکاؤنٹ کو فالو کرنے سے خبرداربھی کردیا۔ٹی آر ٹی( ترکش ریڈیو ٹی وی ) اردو سروس کی ویب سائٹ کے مطابق اینگن التان کا 3روزہ پاکستان کا دورہ ٹی آر ٹی کے تعاون سے اکتوبر 9-11 متوقع ہے جس میں جشن ارتغرل کے نام سے 3روزہ پروگرام منعقد کیا جائیگا،اس سلسلے میں کراچی، لاہور، اسلام آباد میں شاندار اِستقبالیہ پروگرامات ترتیب دیئے گئے ہیں۔تلاوتِ کلام ِ پاک سے شروع ہونے والے اس پروگرام کے ایجنڈے کی تفصیل ٹی آر ٹی نے یوں شائع کی ہے کہ اس میں کلامِ اقبال (اشعار یا نغمہ) کی صورت پیش کیا جائیگا۔اسکے علاوہ سیریز کے منتخب شاندارومقبول ویڈیو کلپس دکھائے جائیں گے۔ ارتغرل غازی کو خراج تحسین پیش کرنے والے پاکستان کے مایہ ناز نعت خواںسید نعمان شاہ کا تین زبانوںمیںتیارکردہ تھیم سانگ بھی پیش کیا جائیگا۔ اسکے ساتھ اسٹیج پر ارتغرل غازی یعنی ’اینگن التان‘ بذات خود ڈرامہ کی پرفارمنس پیش کریںگے،اور اس کے بعد عوام کے ساتھ سوال جواب کا تفصیلی سیشن بھی رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی اداکاروںمیں تاحال اندرونی ٹینشن برقرار ہے ، اس ہفتہ یاسر حسین نے ایک بار پھر مگر ترکی یا ارتغرل کانام لیے بغیر غیر ملکی اداکاروں کوسوشل میڈیا پر کچرا کہہ دیا۔ چونکہ وہ پہلے ہی ارتغرل پر تنقید کرنے کی شہرت پا چکے تھے لہٰذا شائقین ارتغرل نے اس بری طرح ٹرول کیا بلکہ سادہ لفظوںمیںایسا دھویا کہ کیا کہوں۔آپ سمجھ سکتے ہیں، بی بی سی کو رپورٹ کرنا پڑ گیا۔باوجود اسکے کہ یاسر نے کہہ دیا کہ اسکا اشارہ کسی ترک اداکار کی جانب نہیں تھا،ماحول یہی بنا اور سُرخی یہی بنی کہ ’ارتغرل بمقابلہ یاسر حسین: ایک طرف شاندار ماضی کی کہانی تو دوسری طرف ساس بہو کا جھگڑا، سالی بہنوئی۔۔۔ ‘یاسر حسین ترک اداکاروں کو ’عالمی کچرا‘ کہہ کر پھنس گئے۔ سوشل میڈیا صارفین نے یاسر حسین کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔‘بات یہاں رکی نہیں اسکے ساتھ ہی بے غیرتی ومنہ کے فائر کا نیا پنڈورا کھل گیا۔بات یہاں نہیں رکی بلکہ ’لعنتیں ابھی یاسر حسین سے فارغ نہیں ہوئی تھیں کہ نعمان اعجاز کا انٹرویو آگیا۔مارکیٹ میں لعنتوں کی شدید کمی ہوگئی لعنتوں کا ڈبل شفٹ لگانے کا اعلان کر دیا گیا۔‘یہ سب سوشل میڈیا پر ہو رہا تھا، مطلب یاسر حسین کی تنقید سے لے کر نعمان اعجاز پھرنام کی عفت کے ایک یو ٹیوب چینل کے توسط سے۔نعمان اعجاز نے انٹرویو دیتے ہوئے ’خوبصورت عورتوں سے تعلقات کے بارے میںاپنی بیوی تو کیا ،اُن کے شوہروں کوبھی پتا نہیں چلنے دیتا‘۔نعمان اعجاز کے اس شرمناک بیان پر سوشل میڈیا پر شور مچ گیا ،جس کے جواب میں خواتین نےٹھیک ٹھاک ٹھکائی کردی ۔اگلے دن ایک اور انٹریو کلپ میں میزبان نام نہاد عفت نے اقرار کیا کہ ایک ڈرامہ میں وہ اپنے باپ کا کردار ادا کرنے والے ’سینئر اداکارسے اپنی ٹھرک مٹانے کے لیے بار بار اُن کے گلے لگتی تھیں۔‘اس پر شدید رد عمل آیا کہ’جس معاشرے کی نفسیاتی تربیت نعمان اعجاز جیسے مردوں اور عفت عمر جیسی خواتین نے کی ہو، وہاں صرف درندے ہی پیدا ہوسکتے ہیں – یا پھر درندگی کی تاویلیں ڈھونڈنے والے خاموش تماش بین ۔‘ اب اگر اسی کانٹیکسٹ میں دیکھیں گے تو آپ کو کراچی کی 5سالہ مروہ کی جلی ہوئی لاش ملے گی یا لاہور موٹر وے پر بچوں کے سامنے اغواء و زیادتی کا شکار خاتون ۔ان کے لیے صرف سماجی میڈیا پر شور مچایا جا سکتا ہے وہ مچایا گیا۔سی سی پی اولاہور کا بیان کہ ’اتنی رات کو خاتون بچوں کو لیکر نکلی کیوں، پیٹرول کیوں نہ چیک کیا ۔‘ خاصا عوام کی زد میں آئے اور وزیر اعظم تک چیخیں پہنچائی گئیں،کیونکہ یہ بھی کہا گیا کہ مذکورہ افسر وزیر اعظم پاکستان کا براہ راست انتخاب ہیں۔اس لیے RemoveCCPOLahoreکا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بن گیا۔ اس سے پہلے مروہ کے لیے معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ وقار ذکاء نے عوام کے سامنے پھانسی کی سزا کا مطالبہ بہت زور و شور سے چلایا تھا ، اب اس واقعہ کے بعد یہ دوبارہ زورپکڑ گیا۔چونکہ حکومتی وزراء نے اس کی مخالفت کی تھی تو نمبر بڑھانے کے لیے اس بار معروف وزیر فیصل واوڈا نے ٹوئیٹ کی کہ ’وزیراعظم سے ابھی ملاقات ختم ہوئی ہے- وزیراعظم پہلے ہی مروہ کیس اور موٹروے سانحے کا نوٹس لے چکے ہیں۔میری تجویز یہ تھی کہ ان درندوں کی سرعام پھانسی پہ اگر “انسانی حقوق کے علمبرداروں” کو تکلیف ہے تو ہر حال میں فوری طور پر ان وحشیوں کے لئے Castration(آختہ کاری) کا قانون پاس کیا جائے۔‘ قانون پاس کرنا مسئلہ تو کسی کے لیے نہیں ہے اصل بات عمل کروانا ہے ، اسی ہفتہ کوئٹہ میں واضح سی سی ٹی وی فوٹیج کی موجودگی کے باوجود ٹریفک اہلکار کو سرعام کچل دینے والے سابق ایم پی اے مجید اچکزئی کی رہائی نے قانون کی عملداری و بالا دستی کا پول کھول دیا۔آصف محمودلکھتے ہیں کہ ’مظلوم مجید اچکزئی کو انصاف فراہم کیا جائے ۔’مجید اچکزئی صاحب کی گاڑی کے معائنہ کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم روانہ کی جائے جو تخمینہ لگائے کہ ٹکر سے اس کا کتنا نقصان ہوا ہے اور پھر مقتول پولیس اہلکار کے لواحقین کے گردے بیچ کر یہ نقصان پورا کیا جائے۔‘اس موضوع پر بھی بہت بات ہوئی اس ہفتہ مگر کیا کریں، انصاف کی تازہ شکل یہی دستیاب ہے۔موٹر وے کو تاحال محفوظ سفری ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس واقعہ نے بہت کچھ ختم کردیا۔ سمیعہ راحیل نے اس شور میں ایک اہم جانب توجہ دلائی کہ ’میری تمام سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں سے درخواست ہے کہ موٹر وے کی مظلوم بہن کی شناخت ظاہر نہ کی جائے ،اسے اللہ کے واسطے گمنام رہنے دیں اور Rapists درندوں کو سر عام پھانسی دے کر لاشیں کتوں کے آگے ڈال دی جائیں۔جن ممبران اسمبلی نے سر عام پھانسی کی مخالفت کی انھیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔‘معروف صحافی حامدمیر نے لکھاکہ ،’موٹروے پر گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کا خیال تھا کہ وہ ریاست مدینہ کی رہائشی ہے اس غلط فہمی میں وہ بچوں کے ساتھ گھر سے نکل کھڑی ہوئی اسے کیا پتا تھا کہ اسکے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہو جائے گا اور سی سی پی او لاہور جنسی دہشت گردوں کی مذمت کی بجائے اس مظلوم خاتون کو قصور وار کہے گا۔‘ ایک اور ٹوئیٹ مقبول ہوئی کہ ’نہ زمین پھٹی نہ آسماں کانپا۔ ماں کے ساتھ تو جو ہوا وہ تو کسی بھی طرح سہہ لے گی۔لیکن ننھے معصوم ذہنوں اور آنکھوں کے آگے سے یہ منظر کبھی نہیں جائیگا۔آج اگر مرحوم عمران خان نیازی زندہ ہوتے تو کل موٹر وے والے واقعے پر ڈی چوک دھرنہ دیکر وزیراعلی پنجاب کا استعفیٰ مانگ رہے ہوتے۔‘افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ اس معاملے میں ؔمیرا جسم میری مرضی‘ کا ہیش ٹیگ لے کر لبرل طبقہ بھی فضول نعرہ لیکر سوشل میڈیا کے میدان میںآگیا۔ان کا اپنا الگ بے تکا منجن تھا جسے بیچنے کی کوشش میں وہ لگے رہے ۔
پاکستان کے قرب و جوار کے سوشل میڈیامنظر نامہ میں بھارت چین ٹینشن بھی مستقل جاری رہی ، ماہرین کا کہنا یہی ہے کہ یہ سب پاکستان کے سی پیک کو روکنے کے لیے امریکا بھارت کے ذڑیعہ کروا رہا ہے تاکہ چین کو بارڈر پر مصروف رکھ سکے ۔البتہ بھارت کے اندر خاصی ہلچل رہی،خصوصاً اروناچل پردیش کے بارے میں چین کے سرکاری بیان پر۔ ایسے ماحول میں ایک اور ایشو سوشانت سنگھ کی خودکشی کے کیس سے جڑی ایک اور اداکارہ کی گرفتاری بھی موضوع رہی اسکے بعد ایک بھارتی شدت پسند اداکارہ کے دفترکی عمارت اور مبینہ گھر میںغیر قانونی تعمیرات ہونے کو بنیاد بنا کراُنکی شہری انتظامیہ BMC نے مسمار کر ا، بعد ازاںاداکارہ ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لے آئیں اور بقیہ عمارت مسمار ہونے سے رُکوا دی۔اب موصوفہ سوشل میڈیا پر خاصی متحرک بھی ہیں اور مشہوری کی خاطر اُن موضوعات میں بھی اپنی دستیاب معلومات اور متعصب ذہن کی روشنی میںرائے بھی دیتی ہیں، اسلیے اکثر وہ سماجی میڈیا پر گردش میں رہتی ہیں۔کچھ ہی دن قبل اداکارہ نے انتہائی سلگتے ہوئے ’بابری مسجد‘ کے موضوع کو چھیڑتے ہوئے ’رام مندر‘ کی تاریخ کے حوالے سے اپنی ایک فلم کا اعلان کر کے توجہ لینے کی کوشش کی ۔مگر اب کی بار ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کی جانب سے24گھنٹے کے نوٹس پر کارروائی کی کچھ تصاویر ٹوئٹر پر شیئر کیں۔یہاں تک تو ٹھیک تھا مگراداکارہ نے اس ساری کارروائی کو ’جمہوریت کی موت قرار دیتے ہوئے پاکستان کا نام استعمال کیا۔‘ یہی نہیں پھر وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ایک پوسٹ میںمزید نمک مرچ لگاکر تصویریں شیئر کرتے ہوئے ممبئی کا موازنہ ’پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر‘ سے کیا۔اداکارہ نے لکھا کہ ’میں کبھی غلط نہیں ہوتی اور میرے دشمنوں نے بار بار یہ ثابت کیا لہذا میرا ممبئی اب ’پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر‘ جیسا ہے۔‘اگلے روز ایک ویڈیو پیغام میںاداکارہ نے ممبئی کے وزیر اعلیٰ کو انجام سے خبردار کرتے ہوئے کہاکہ وقت کا پہیہ ایک جیسا نہیں ہے گا اب وہ ایودھیا نہیں بلکہ کشمیری پنڈتوں پر گذرنے والے ظلم سے متعلق فلم بنائیں گی ۔اس بے تکی حرکت پر پاکستانیوں نے خوب جواب دیئے ،ایسے میں پاکستانی اداکار یاسر حسین نے جواب میں لکھا کہ،’ ’’ اگر آپ پاکستان میں آفس کھولتی تو کبھی ایسا نہیں ہوتا، یہ بھارت ہی ہے جہاں یہ سب ہورہا ہے۔کیا آپ کو اندازہ ہوا کہ ممبئی میں بھارتیوں کے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہے تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کیا سلوک کیا جارہا ہوگا؟۔‘

حصہ