شاعری زندگی کی ترجمان ہے‘ خواجہ رضی حیدر

638

شاعری اور زندگی لازم و ملزوم ہیں‘ اگر ہم شاعری میں زندگی کے حالات و واقعات نظم نہیں کر رہے تو ہم شاعری کا حق ادا نہیں کر رہے‘ شاعری ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو ہر زمانے میں موجود ہوتی ہے لیکن سماجی اور سیاسی معاملات کی وجہ سے اس میں تغیر و تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار خواجہ رضی حیدر نے کلفٹن کے ایک ہوٹل میں طارق جمیل کے زیر اہتمام ایک مشاعرے کی صدارت میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ طارق جمیل ایک ادب پرور شخصیت ہیں‘ وہ ہر سال ایک ڈنر مشاعرہ ضرور کرتے ہیں آج کا پروگرام بھی اسی سلسلے سے مربوط ہے۔ طارق جمیل نے اس مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ان کے اندر بھی ایک نظامتِ کار چھپا بیٹھا ہے۔ انہوں نے بہت خوب صورت جملوں سے مشاعرے کا حسن دوبالا کیا ہم سب ان کے ممنون و شکر گزار ہیں۔ طارق جمیل نے نظامت کے فرائض کے ساتھ خطبۂ استقبالیہ بھی پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ کراچی ہم سب کا شہر ہے‘ اس کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ کراچی میں بارشیں ہوتی رہی ہیں لیکن ہم اتنے پریشان نہیں ہوئے جس قدر ان دنوں کی بارش نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے‘ سڑکوں پر پانی جمع ہے جس کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوا‘ لوگوں کے گھروںٍ میں پانی داخل ہو گیا ان حالات کی ذمہ داری کس پر ہے‘ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ کراچی کے نالوں پر تجاوزات قائم ہیں جس کا سدباب ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کے خادم ہیں اور مشاعرے کرانا ان کا شوق ہے۔ وہ اجمل سراج کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آج بھی ان کے دوستوں نے بہت اچھا کلام پیش کیا اس موقع پر انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایک ایسی جگہ کی تلاش میں ہیں جہاں کراچی کی تمام ادبی تنظیمیں اپنا پروگرام منعقد کرسکیں گی نیز ہم نے ایک کُل پاکستان مشاعرہ ترتیب دیا تھا جس کا انعقاد مارچ 2020ء میں ہونا تھا لیکن کورونا وائرس نے اس پروگرام کو متاثر کیا۔ بزم شعر و سخن اس بارے میں غورکرے گی کہ کیا ہم اب کوئی کُل پاکستان مشاعرہ کریں یا 2021ء میں تقریب ہو۔ آج کا مشاعرہ بہت کامیاب ہے اس پروگرام کے واحد سامع فہیم برنی ہیں جوکہ ہر عمدہ شعر پر خوب داد و تحسین سے نوازرہے ہیں‘ میں ان کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے پروگرام کو رونق بخشی۔ اجمل سراج نے کہا کہ وہ خواجہ رضی حیدر کے بالخصوص شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری دعوت پر لبیک کہا اور ہمیں اپنی غزلوں سے نوازا۔ وہ خواجہ رضی کی علمی اور ادبی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج کا عشائیہ اور مشاعرہ طارق جمیل بھائی کی محبتوں کا اظہار ہے ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں۔ اس مشاعرے میں جو کلام پڑھا گیا وہ زندگی کے مختلف گوشوں کا آئینہ دار ہے‘ ہمارے نوجوان شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں تاہم بزرگ اور سینئر شعرا بھی ہمیں بہت کچھ ٹپس دے رہے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ شاعری میں لفظوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اسلوب و بیان شاعری میں حسن پیدا کرتا ہے۔ مطالعہ اور مجلسی علم سے شاعری جلا پاتی ہے‘ ہمارے معاشرے سے کتب بینی ختم ہوتی جارہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بہت فعال ہو گیا ہے‘ اس صورت حال میںشعرا کا دمِ غنیمت ہے کہ شاعری تفریح طبع کے علاوہ ہماری رہنمائی بھی کرتی ہے۔ مشاعرے میں خواجہ رضی حیدر‘ اجمل سراج‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد میر‘ سحر تاب رومانی‘ سلمان ثروت‘ کامران نفیس‘ عمران شمشاد‘ عبدالرحمن مومن‘ نعیم سمیر اور عباس ممتاز نے کلام پیش کیا۔

بزمِ تقدیس ادب کراچی کی مجلس مسالمہ

محرم الحرام میں حضرت امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کے لیے مجالس اور محافل مسالمہ منعقد ہوتے ہیں‘ اہل بیت کا ذکر عین عبادت ہے اسی تناظرمیں حسنین نقوی کے تعاون سے بزم تقدیس ادب نے ایک شان دار محفل مسالمہ 6 ستمبر 2020ء بروز اتوار شام سات بجے امروہہ ہائوسنگ سوسائٹی کراچی منعقد کیا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی کیوں کہ عابد رضا شکیب بوجوہ تشریف نہیں لائے تھے۔ کوثر نقوی مہمان خصوصی اور اختر سعیدی مہمان اعزازی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کے بعد رضا حیدر زیدی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ احمد سعید خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہ اکہ ہم اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں‘ رثائی ادب بھی ہماری ثقافت ہے‘ ہر زمانے کے شعرا نے کربلا کے حالات و واقعات نظم کیے ہیںتاکہ حق و باطل کا فرق نمایاں ہو۔ ظالم اور مظلوم کی نشاندہی کرنا ہر شاعر کا فریضہ ہے کیوں کہ اس طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کے مسائل لکھے‘ سانحۂ کربلا اسلام میں بہت اہمیت کا حامل ہے ہمیں اس کے پیغام پر عمل کرنا چاہیے۔ صاحب صدر نے کہا کہ قبیلہ قریش میں بنی ہاشم ایک معتبر خاندان ہے‘ ہمارے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ آپؐ نے اور آپ کے اہلِ بیت نے انسانیت کی خدمت کی‘ حق کی بات کی‘ باطل کی حوصلہ شکنی کی یہی وجہ ہے کہ جب یزید کی تخت نشینی کے سبب خلافت میں ملوکیت کا آغاز ہوا تو حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ کربلا میں شہادت قبول کی۔ آپ کی یہ قربانی اسلامی تاریخ میں سنہری حروف سے رقم ہے جس کا فیض جاری ہے۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ رثائی ادب کی اردو شاعری میں روز بہ روز ترقی ہو رہی ہے۔ غمِ حسینؓ ہمارے خون میں شامل ہے جس کا اظہار ہم اپنے اشعار میں کرتے ہیں۔ آج کے مسالمے میں ہر شاعر نے اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق حضرت امام حسینؓ کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس مشاعرے میں صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ آصف رضا رضوی‘ ظفر چمن زیدی‘ علی اوسط جعفری‘ فیاض علی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ شاعر حسین شاعر‘ عبدالوحید تاجر‘ مانوس ناطقی‘ کشور عدیل جعفری‘ الحاج نجمی‘ اسد ظفر ‘علی اظہار زیدی‘ رئیس حیدر زیدی‘ ضیا حیدر زیدی‘ واحد رازی اور مصطفی زیدی نے سلام حسین پیش کیے۔ ضیا حیدر زیدی نے کلماتِ تشکر ادا کیے بعدازاں تمام لوگوں کی خدمت میں حلیم پیش کیا گیا۔ راقم الحروف کے نزدیک مسالمہ کا انتظام بہت اچھا تھا‘ تمام چیزیں ترتیب سے جاری تھیں اس قسم کے پروگرام ادب کے لیے بہت ضروری ہیں اللہ تعالیٰ بزمِ تقدیس ادب کو مزید ترقی عطا فرمائے‘ آمین۔

اکرم کنجاہی کی کتاب ’’غزل کہانی‘‘ شائع ہوگئی

اردو زبان و ادب کے منظر نامے میں اکرم کنجاہی ایک معتبر کالم کار کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ان کے شعری مجموعوں میں ہجر کی چتا‘ بگولے رقص کرتے ہیں‘ محبت زمانہ ساز نہیں اور دامنِ صد چاک شامل ہیں۔ انہوں نے تحقیق و تنقید کے لیے جو کتابیں لکھی ہیں وہ راغب مراد آبادی کی چند جہتیں‘ نسائی ادب اور تانیثیت‘ لفظ زبان اور ادب۔ معاصر متغزلین‘ محاسن فکر و فن اور زیر تبصرہ کتاب غزل کہانی ہے اس کے علاوہ اصولِ تقریر اور فنِ خطابت بھی ان کی کتابیں ہیں۔ اکرم کنجاہی طویل عرصے سے ایک ادبی پرچہ ’’غنیمت‘‘ شائع کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مشاعرے بھی ان کے کریڈٹ پر موجود ہیں۔ ان کی نئی کتاب غزل کہانی اگست 2020ء میں منصۂ شہود پر آئی ہے۔ 288 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے پبلشر کا نام رنگ ادب پبلی کیشنز ہے۔ کتاب اخباری کاغذ پر ہے جس کی قیمت 800 روپے رکھی گئی ہے کتاب کا انتساب انیق عزیز‘ عابد حسین اور محمد اسحاق خان کے نام ہے۔ نوید صادق نے دیباچہ لکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اکرم کنجاہی ایک وسیع المطالعہ انسان ہیں انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کو اپنی زندگی میں بڑی اہمیت دی ہے جس کے باعث ان کی کتابیں ہمارے سامنے آرہی ہیں ان کی موجودہ کتاب غزل کہانی میں اردو غزل کا جامع احاطہ کیا گیا ہے غزل کی ابتدا اور موجودہ زمانے کی غزلوں کے بارے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ بات کی گئی ہے۔ اردو غزل میں ہیئت و اسلوب کے حوالے سے کیے جانے والے تجربات کا بھی فاضل مصنف نے تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان تجربات کے حق میں اور حمایت میں اٹھنے والی آوازیں بیشتر تجربات کی ناکامی کے اسباب پر بھی غزل کہانی تمام مباحث کا احاطہ کرتی ہے اس کتاب میں غزل میں مابعد جدیدیت اور نئی نسل کے فکری و اسلوبیاتی رجحانات پر بھی مدلل گفتگو کتاب کا اہم حصہ ہے اس کے علاوہ مضافات میں تخلیق پانے والی شاعری کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے ان حوالوں سے مختلف شعرا کے کلام کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ جِمیل احمد عدیل کہتے ہیں کہ اکرم کنجاہی عہد موجود کے ان چنیدہ قلم کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے انتقادیات سے وابستہ خالص علمی و فکر اکناف کو اپنی تنقید کا آدرش بنایا ہے‘ ان کی تازہ تصنیف اور ’’غزل کہانی‘‘ میں صدیوں کا سنہری سفر سمٹ آیا ہے کتاب کی خواندگی میں کوئی تھکن محسوس نہیں ہوگی کیوں کہ ان کا اسلوب و زبان بہت عمدہ ہے انہوں نے اس کتاب میں عملی تنفید کو تذکرہ نگاری کی کہنہ رسم سے بچایا ہے انہوں نے عہد بہ عہد غزل کی مسافرت کو تجزیے کے سپرد کیا ہے اس طرح Exaggration نام شماری اور نمونۂ کلام کے ’’مقبول جادوں‘‘ کو ترک کرکے ہر دور کے فکری و اسلوبیاتی رجحانات پر توجہ دی ہے یہ کتاب اردو ادب کے لیے گراںقدر اضافہ ہے۔ راقم الحروف نثار احمد کے نزدیک یہ کتاب عہد بہ عہدہ اردو غزل کی تاریخ ہے یہ کتاب شعرا کا تذکرہ نہیں ہے زبان و بیان کے اعتبار سے اکرم کنجاہی نے ثقیل الفاظ سے پرہیز کیا ہے سہل اور آسان زبان میں اپنی بات کہی ہے تاکہ ابلاغ میں پریشانی نہ ہو۔ کتاب میں قائم شدہ ابواب میں غزل کی ابتدا‘ دبستانِ دکن‘ دو عظیم دبستان (دہلی اور لکھنو) میر اور ان کا عہد (18 ویں صدی) اردو عہد ظفر شاہی (19 ویں صدی) رام پور اور حیدرآباد دکن کی ادبی خدمات‘ غزل‘ حالی سے ترقی پسند تحریک تک (1875ء سے 1936ء تک) اردو کے عناصرِ اربعہ (اصغر‘ جگر‘ فانی‘ حسرت) اردو کی اہم تحاریک‘ ترقی پسند تحریک‘ حلقۂ اربابِ ذوق‘ نئی شاعری‘ نئی غزل کی فکری اور فنی جہات‘ تقسیم ہند کے بعد نسائی غزل‘ غزل میں ہیت و اسلوب کے تجربے (آزاد غزل اور اینٹی غزل) جدید حسیت اور عصری حسیت‘ مابعد جدیدیت‘ نئی نسل کے فکری اور اسلوبیاتی رجحانات شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب قارئین کے لیے بہت مفید ہے۔ میں اکرم کنجاہی کی ترقی کے لیے دُعا گو ہوں۔

غزل

حجاب عباسی

نظروں پہ چلیں گے نہ نظاروں پہ چلیں گے
سب تیرِ ستم ہجر کے ماروں پہ چلیں گے
سوچا بھی نہ تھا ہم نے کبھی آپ کی خاطر
یوں گردشِ دوراں کے اشاروں پہ چلیں گے
اب ہاتھ نہ پھیلائیںگے ہم غیر کے آگے
باندھیں گے امیدیں نہ سہاروں پہ چلیں گے
جب چہرۂ گل زرد نظر آئیں گے ہر سُو
پھر اہلِ جنوں دیکھنا خاروں پہ چلیں گے
کل تک بھی بھروسہ جنہیں کشتی پہ نہیں تھا
وہ آج بھی طوفان کے دھاروں پہ چلیں گے
اِک روز دھنک اوڑھ کے آنچل کی طرح سے
تم دیکھنا ہم چاند ستاروں پہ چلیں گے
رکھتے ہیں حجابؔ ارض و سما اپنی نظر میں
’’اب شمس و قمر اپنے اشاروںپہ چلیں گے‘‘

حصہ